توپ کاپی محل عجائب گھر کی رُوح پرور زیارت طارق محمود مرزا۔ آسٹریلیا استنبول میں سلطان احمد کی قبر پرفاتحہ خوانی کے بعد میں نے مشہورِ عالم عمارت”آیا صوفیہ“ کا رُخ کیا جو قریب ہی واقع ہے۔اس کے باہر زائرین کی اتنی طویل قطاریں تھیں کہ ان کا سرا عقب میں واقع سمندر تک چلا گیا تھا۔ دوپہر کا وقت اور جون کا مہینہ، دُھوپ میں تلخی تھی۔اتنی طویل قطاریں دیکھ کر میں نے’آیا صوفیہ‘ کی زیارت مؤخر کر دی اور اس کے عقب میں واقع تاریخی عمارتوں کی جانب چل دیا۔ آگے ایک بلند فصیل تھی جس کے صدر دروازے پر سیاحوں کا جھمگٹا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ عالم اسلام کا سب سے معروف، سب سے مقدس عجائب گھر توپ کاپی محل ہے۔ میرا ارادہ اگلے دن یہاں آنے کا تھا لیکن قدرت نے مجھے اس در پر لا کھڑا کیا جو ترکی میں میرے لیے سب سے بڑی کشش تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ منزل خود چل کر میرے سامنے آ گئی ہے۔ اس وقت میری کیفیت ایسی تھی کہ بقول ساغرؔ صدیقی میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں توپ کاپی صرف ایک محل یا پھر عام عجائب گھر نہیں ہے بلکہ یہ کسی بھی مسلمان کے لیے عشق رسولؐ اور عشق صحابہ ؓسے عبارت ایک انتہائی مقدّس زیارت گاہ ہے۔ یہاں حضور سرورِ کائناتؐ، دیگر انبیائے کرام اور صحابہ کرامؓ کی ایسی نشانیاں ہیں جنھیں دیکھ کر دل پگھلنے لگتا ہے۔ ایسی نادر و نایاب نورانی اشیا کی زیارت صرف یہیں ممکن ہے۔ کسی اور اسلامی ملک کے عجائب گھر میں ایسی اشیا موجود نہیں ہیں۔حجاز مقدس کے باہر ترکی میں واقع اس عجائب گھر کو ایک خاص رُوحانی مقام حاصل ہے جو اہلِ ایمان کے عشقِ رسولؐ اور صحابہ کرامؓ سے محبت کا مظہر بھی ہے۔ اسی لیے میرا دل قابو سے باہر ہونے لگا تھا۔ فصیل کے بلند و بالادروازے سے گزر کر سیکیورٹی چیک اپ کا مرحلہ تھا۔ آگے دور تک پھیلا وسیع و عریض سرسبز و شاداب باغ ہے جس پر پختہ راہداری بنی ہے۔ سبز گھاس کے خوبصورت قطعات، اس کے ساتھ قطار در قطار رنگا رنگ پھولوں کی کیاریاں۔ پیچھے ترتیب سے ایستادہ درخت انتہائی دل نشین منظر پیش کرتے ہیں۔ بے شمار لوگ محل کی جانب آ اور جا رہے تھے۔ یہدراصل محل کا پائیں باغ ہے۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ کم از کم دو کلومیٹر چلنے کے بعد شاہی محل کا سجا دھجا ماتھا نظر آیا جو بلند و بالا فصیل پر سجا ہے۔ سنگ مر مر سے بنے اس بلند و وسیع محرابی دروازے کے اوپر قرآنی آیات نقش ہیں جو بذاتِ خود فن نقاشی کا بہترین نمونہ ہیں۔ دونوں جانب بلند مینار، درمیان میں ڈولیاں اور ترکی کا پرچم ہے۔ محل کی صدر گزرگاہ سے باہر ٹکٹ گھر، کیفے اور واش روم ہیں۔ گرمی اور دُھوپ میں چلنے سے پیاس ستا رہی تھی۔ میں کیفے میں چلا گیا جہاں ایئرکنڈیشنر کی راحت افزا ٹھنڈک تھی۔ تازہ جوس سے مزید تقویت ملی۔ توپ کاپی محل میں داخلے کا ٹکٹ خاصا مہنگا ہے لیکن استنبول آنے والے سیاح چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، یہ عجائب گھر ضرور دیکھتے ہیں۔ کیونکہ اس میں سلطنت عثمانیہ کی پوری تاریخ اور معاشرت محفوظ ہے۔ اس کے ساتھ اسلام کی برگزیدہ ہستیوں کی نشانیاں غیرمسلموں کے لیے تاریخی حیثیت کی حامل ہیں جبکہ یہی نشانیاں مسلمانوں کا ایمان تازہ کر دیتی ہیں۔ وہ حضور نبی کریمؐ کی زندہ نشانیاں دیکھ کر خود کو دربار رسالتؐ میں محسوس کرتے ہیں۔ اس وقت قلب و روح کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ برگزیدہ انبیائے کرام، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت جن کے تصور سے روح سرشار ہو جاتی ہے،ان سے متعلق اشیا کی زیارت کر کے وفورِ عشق و عقیدت سے دل بھر آتا ہے۔ میں نے اس محل اور ان مقدس اشیا کے بارے میں سُن اور پڑھ رکھا تھا۔ آج انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا جس کے لیے ربّ ذوالجلال کا شکر ادا کیا اور پھر دھڑکتے دل کے ساتھ اس شان و شوکت والے محل کے صدر دروازے میں داخل ہو گیا۔ ٹکٹ کے ساتھ مجھے ایک سماعتی آلہ بھی دیا گیا جو محل کے مختلف کمروں اور اس میں رکھی اشیا کے بارے میں تفصیل بتاتا تھا۔ اس آلے کے بدلے میں میرا آسٹریلین ڈرائیونگ لائسنس رکھ لیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ واپسی پر آلہ سماعت لوٹا کر لائسنس لے جاؤں۔ ہر کمرے کے باہر نمبر درج ہے۔ آلے میں وہ نمبر فیڈ کریں تو وہ اس کمرے اور اس میں رکھی اشیا کی تفصیل بتانے لگتا ہے۔ شروع کے دو تین کمروں تک میں نے اسے برداشت کیا لیکن اس کی مسلسل کمنٹری میرے انہماک کو متاثر کرنے لگی۔ میں جس انداز اور رفتار سے اشیا کو دیکھتا اور پرکھتا ہوں یہ آلہ اس کاساتھ نہیں دے رہا تھا۔ بلکہ ٹی وی اینکرز کی طرح مسلسل بول کر کے سر درد بن رہا تھا۔ میں نے اسے بند کر کے بیگ میں رکھا اور خود کو تاریخ کے اس دور میں پہنچا دیا۔ جب یہ محل اس کے اصل مکینوں سے آباد تھا یہاں شاہی خاندان متمکن تھا۔ سلطان کا دربارسجتا تھا، عدالتیں لگتی تھیں، غیرملکی وفود سلطان کی خدمت میں حاضر ہوتے، اس محل میں اہم فیصلے ہوتے،جس کے اثرات کئی براعظموں پر مرتب ہوتے تھے۔ اس محل کی تعمیر کا آغاز 1459ء میں سلطان محمد فاتح کے حکم سے ہوا۔ یہ مرکزی احاطے اور متعدد عمارات پر مشتمل ہے جن کے درمیان حسین و جمیل باغیچے ہیں۔ عروج کے دور میں چار ہزار سے زائد افراد اس میں مقیم ہوتے تھے۔ سلطان محمد فاتح کا وزیراعظم علی الصبح گھوڑے پر سوار ہو کر فجر کی نماز آیا صوفیہ مسجد میں ادا کرنے جاتا۔ پھر شاہی محل میں آ کر بادشاہ کو سلام کرتا اور پھر محل کے دیوانِ خاص میں اُمراء، سفراء اور دیگر عمائدین حکومت سے ملاقاتیں کرتا اور اہم فیصلے کرتا۔ بادشاہ ایک جالی دار کھڑکی سے یہ منظر دیکھتا اور جہاں ضرورت محسوس ہوتی اپنا حکم صادر کرتا۔ اس محل کے ہزاروں کمرے ہیں۔ کچھ عوام کے لیے کھلے ہیں بقیہ کمروں کے آگے مسلح محافظ تعینات ہیں۔ میں دیوانِ خاص میں کھڑا تھا۔ اردگرد کے مناظر دیکھ کر میں خود کو بھول گیا۔ وسیع ہال کا چپہ چپہ فن تعمیر و تزئین کا نادر و نایاب نمونہ تھا۔ اس کی دیوار پر کندہ قرآنی آیات نے مسمرائز کر دیا۔ اس کی مرصع ٹائلوں، سنہری جھالروں اور چھت پر نقش فن کارانہ مناظر رنگین ستون، شاہی تخت اور چوبی فن کی شاہکار کرسیاں میز، دریچے سے جھانکتی رنگین روشنیاں، ان سب پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ رنگ و نور کا سیلاب تھا۔ دیواریں ایسی کہ تصویر کا گمان ہوتا۔ غرضیکہ ایک ایک حصہ جاذبِ نظر، دل میں اُترنے والا اور متعلقہ فن کا بہترین نمونہ تھا۔ صدیوں پرانے محل کے اس کمرہ خاص میں کھڑے ہو کر اس کی فن کارانہ ساخت تو دل و ذہن پر چھاتی تھی، لیکن اس سے زیادہ اس کی تاریخی حیثیت دماغ میں گردش کرتی۔ اس کمرے میں بیٹھنے والے سلطان سلیمان نے دُنیا فتح کرنے کا خواب دیکھا اور پھر دنیا کے کتنے براعظموں پر اپنا جھنڈا گاڑا۔ اس چھت تلے بیٹھنے والے سلطان کی حاکمیت کے آگے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں نے سرتسلیم خم کر لیا تھا۔ اس سلطنت کے گھوڑے پورے یورپ میں دندناتے پھرتے، انھیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا۔ عروج و زوال قوموں کی تاریخ کا حصہ ہے مگر چند ہی سلطنتیں ایسی ہوں گیجنھوں نے اتنے طویل عرصے تک دنیا پر اپنی حاکمیت قائم رکھی۔ اس لیے ترک اپنی تاریخ خصوصاً عثمانی سلطنت پر بجا فخر کرتے ہیں۔ میں مختلف کمروں میں مختلف ادوار کے سلاطین کا لباس، ان کی ملکاؤں کے ملبوسات، شاہی زیورات، مسہریاں، شاہی انداز کے ظروف، کرسیاں، میز، روشنی کے آلات، ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے، آلاتِ موسیقی، بادشاہوں اور ملکاؤں کے پاپوش سمیت مختلف اقسام کی نادر اشیا دیکھ رہا تھا۔ ہر شے اپنی جگہ کمالِ فن کی مظہر تھی۔ پائیداری، بناوٹ، سجاوٹ سب کچھ انتہائے کمال کا تھا۔ ہر کمرے میں مختلف ملکہ کے لباس و نوادرات تھے۔ ہر ایک کی جدا اور منفرد حیثیت تھی۔ جس پر نظر پڑتی وہیں جم جاتی۔ شاہی مسہریاں بھی ایسی کہ حجلہ عروسی کا گماں ہوتا۔ ایک عمارت میں مختلف سلاطین کے زیورات اور نوادرات سجائے گئے تھے۔ شیشے کے نفیس شوکیسوں میں سجے زیورات اپنی منفرد ساخت، خیرہ کن چمک اور گراں قدر ہیروں کے ساتھ سیاحوں خصوصاً خواتین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ سلاطینِ عثمانیہ کا سب سے بڑا مشغلہ یہی تھا۔ ایک عمارت کے کمروں میں مختلف سلاطین عثمانیہ کے زیر استعمال رہنے والے ہتھیار زیرنمائش تھے۔ شاندار تلواریں، زرہ بند، تیر، کمان، نیزے، مختلف اقسام کی بندوقیں، متعلقہ دور کی یادیں تازہ کرتے تھے۔ یہاں اتنی بے شمار اقسام کے ہتھیار موجود ہیں ان کی مجموعی تعداد 52000 کے قریب ہے۔ توپ کاپی محل ایک عمارت پر مشتمل نہیں ہے بلکہ مختلف بلاک ہیں۔ درمیان والی خالی جگہ پر گل رنگ باغیچے ہیں۔مختلف اقسام کے درخت اور پودے ہیں۔ سیاحوں کے بیٹھنے کے لیے نشستیں موجودہیں۔ واش روم اور مسجد ہے۔ میں مسجد کے اندر جانے لگا تو گارڈ نے کہا ”سوری سر! اس کے اندر نہیں جا سکتے، یہ عبادت کی جگہ ہے۔“ میں اسی غرض سے اندر جا رہا ہوں“ میں نے جواب دیا۔” اس نے نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھا۔ میں مسکرایا ”الحمدللہ میں مسلمان ہوں اور نماز ادا کرنا چاہتا ہوں۔” وہ مسکرا اُٹھا ”ضرور آئیے! وضو گاہ اس جانب ہے۔ ویسے عصر کی جماعت ہو چکی ہے۔” میں نے شکریہ ادا کیا اور جوتے اُتار کر اندر داخل ہو گیا۔ یہ مسجد اگرچہ اتنی بڑی نہیں ہے مگر یہ بھی اسلامی فنِ تعمیر کا دلکش نمونہ ہے۔ اس کی تعمیر اور تزئین قابلِ دید ہے۔ صدیوں پرانی ہونے کے باوجود آج بھی دلکش و حسین ہے۔ شاندار پتھروں سے مزین دیواریں، قرآنی آیات کی فن کارانہ خطاطی، خوبصورتی سے تراشے اور سجے ہوئے ستون، محراب اور در و دریچے سب کچھ دیدنی تھا۔ آرام دہ نقشین قالین پر بیٹھا تو احساس ہوا کہ پچھلے کئی گھنٹوں سے میں مسلسل محو حرکت ہوں۔ میرے گھٹنوں میں کچھ عرصے سے ہلکا درد موجود تھا جو اس دورے میں کھل کر سامنے آگیا۔ پہلے ملائیشیا اور پھر ترکی میں سارا سارا دن پیدل چلنے سے یہ مرض بڑھتا گیا۔ خصوصاً استنبول کی اونچی نیچی ناہموار زمین پر پورا دن چلتے رہنے سے یہ فزوں تر ہو گیا۔ میں نے اس کی زیادہ پروا نہیں کی اور کوئی احتیاط روا نہیں رکھی۔ لہٰذا درد کی یہ سوغات لے کر گھر لوٹا۔ میں نے اس درد کو حرزِ جاں بنا لیا ہے کہ کوئی تو ہو جو شب و روز کا ساتھی ہو۔ اگر یہ شے بری ہوتی تو حفیظ جالندھری یوں دوستوں میں نہ بانٹتے پھرتے۔ دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یارب میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں اگرچہ میں نے موزے پہن رکھے تھے لیکن مسجد کے ہال میں داخلے کے وقت پاؤں پر مومی غلاف چڑھانا پڑا۔ یہ اہتمام دیگر کئی کمروں میں بھی تھا جہاں سیاح اپنے جوتوں کے اوپر مومی غلاف چڑھا کر اندر داخل ہوتے ہیں تاکہ جوتوں کی گرد اور بو اندر نہ جا سکے۔ میں سلطان فاتح کی بنائی دوسری مسجد میں نماز ادا کر رہا تھا۔ گزشتہ شب مسجد الفتیح میں نماز عشا ادا کی تھی۔ اللہ کے نبیؐ کی بشارت پر پورا اُترنے والے اس عظیم فاتح کے لیے دُعا کی، جس کی مجاہدانہ کاوش سے سے یہ شہر مسلم دنیا کا حصہ بنا۔ جس نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے 1400 سو سالہ رومن سلطنت کا خاتمہ کیا اور عثمانی سلطنت کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس خوبصورت تاریخی مسجد میں نماز ادا کر کے اور دُعا مانگ کر عجیب سا احساسِ طمانیت ہوا۔ نماز کے بعد میں محل کے عقب میں واقع خوبصورت پائیں باغ میں آ گیا جو بحر مرمر کے کنارے پر واقع ہے۔ یہ باغ انتہائی جاں فشانی سے بنایا اور سنوارا گیا ہے۔ یہاں نرم سبز گھاس کے مہارت سے تراشے اور فن کارانہ انداز میں بنائے قطعات ہیں۔ مختلف رنگوں کے پھولوں کیکیاریاں ہیں۔ ان کیاریوں میں سرخ، زرد، سفید، قرمزی، گلابی اور دیگر رنگوں کی جیسے چادریں بچھی نظر آتی ہیں۔ ان کے پیچھے ترتیب سے لگے ایک قدو قامت کے اشجار اس طرح ایستادہ ہیں جیسے سپاہی قطار میں کھڑے ہوں۔درختوں کے نیچے اور گھاس پر دلکش چوبی نشستیں ہیں جن پر براجمان لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے کچھ فوٹو گرافی میں مشغول تھے جو آج کل ہر جگہ نظر آتا ہے۔ میں سمندر کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھا باسفورس پر تیرتی رنگ برنگی کشتیاں اور سمندر کے دوسری جانب ڈھلوانوں پر آباد شہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک سیب سے معدے کو کچھ تقویت پہنچائی جو ناشتے کے بعد سے خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔ ابھی بھی زیادہ اشتہا نہیں تھی تاہم چائے یا کافی کے لیے دل مچل رہا تھا۔ میں نے اسے تھپک کر سلایا اور اگلی منزل کی جانب قدم بڑھا دیے۔ دراصل اتنی دیر سے میں خود کو سمیٹ رہا تھا، ہمت باندھ رہا تھا کہ اس دربار میں حاضری دے سکوں،جو میری بساط سے کہیں ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس کی شان اور عظمت ایسی ہے کہ میں وہاں قدم رکھتے ہوئے ڈر رہا تھا۔ عجائب گھر کے اس حصے میں جانے وقت آ گیا تھا جو اس عجائب گھر کی آن، شان اور پہچان ہے۔ جہاں ہمارے پیارے نبیؐ جن پر ہماری جان قربان ہو، جو ہمارے عشق اور ہمارے ایمان کے محور و مرکز ہیں، کی ذاتِ اقدس سے متعلق نشانیاں موجود ہیں۔ حضوؐر کا موئے مبارک، ان کے نعلین، ان کا نقش پا، اُن کی شمشیر سمیت ایسی چیزیں زیارت کے لیے موجود ہیں جنھیں دیکھ کر مومن کی رُوح سرشار ہوتی ہے۔ کسی بھی عاشق کے لیے محبوب کی نشانی عزیز از جان ہوتی ہے۔ یہ تو ایسے محبوب کی بات ہو رہی ہے جن پر جان قربان کرنے کی خواہش ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور تقاضائے عشق ہے۔ میں اس ہال میں داخل ہوا تو دل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے کلیجے سے نکلا جا رہا ہو۔ اس کوچہ محبوب میں کیسے گیا،کیا کیا دیکھا، کیا محسوس کیا، وہ بیان کرنا ناممکن ہے۔ حضور کا موئے مبارک دیکھ کر میرے قلب و ذہن پر کیا گزری، ان کا نقش پا دیکھ کر میری آنکھوں نے کیسے سجدے کیے۔ حضور پاکؐ کا جبہ، دانت اور داڑھی مبارک کا بال دیکھ کر روح بھی سرشار ہو گئی۔ نبی پاک ؐ کی شمشیر، تیر کمان اور مہریں دیکھ کر ان کی خوشبو کا احساس ہوا۔ ان کے روضہ اطہر کی خاک، ان کے مخطوطات اور اس دور کے قرآنی نسخے،یہ سب میں نے زائر کی نہیں عاشق کی نظر وں سے دیکھا۔ دل کی آنکھوں سے دیکھا اور رُوح میں بسا کر وہاں سے نکلا۔ ان کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور حضرت یوسف علیہ السلام کا عمامہ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ کی تلواریں، حضرت بی بی فاطمہؓ کا لبادہ اور ایسی ہی دیگر مقدّس و متبرک ہستیوں کی نشانیاں دیکھ کر جیسے ایمان تازہ ہو گیا۔ قرونِ اولیٰ کے دور کیقرآن کریم کے نسخے، بیت اللہ کی خاک سمیت دیگر متبرک اشیا ایسے قرینے محبت اور حفاظت سے رکھی گئی ہیں جو اہل ترک کے عشق رسولؐ کی غمازی کرتی ہیں۔الحمد للہ مجھے دو مرتبہ حجازِ مقدس کا سفر کرنے اور حرمین شریفین میں حاضری کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ آج تیسری مرتبہ حضور نبی پاکؐ کے دربار میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ حضور نبی کریمؐ کی نشانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایک خوشبو، ایک روشنی اور نور سا دل میں اُترتا محسوس ہوا۔ میرا دامن دل جل تھل ہو گیا۔ ان زندہ نشانیوں نے میرے عشق کا دِیا مزید روشن کر دیا۔ ان کی خوشبو میرے اندر رچ بس گئی۔ یہ رنگ و نور سمیٹ کر میں وہاں سے نکل آیا۔ ابھی اس عجائب گھر کے مزید کئی حصے باقی تھے، لیکن جتنا کچھ میں نے دیکھ لیا تھا اب کسی اور شے کی طلب باقی نہ رہی۔ نہ کسی اور چیز میں کشش محسوس ہوئی۔ ایسے لگتا تھا کہ آنکھیں چندھیا گئی ہیں اور حریم قلب شوق و مسرت سے لبریز ہو گیا۔ میں درود شریف کا وِرد کرتا دھیرے دھیرے باہر چلا آیا۔ محل سے نکاسی کا راستہ الگ تھا۔ جوں ہی باہر نکلا تو سہ پہر کی کرنوں نے جیسے کسی الگ دُنیا میں استقبال کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ باغِ بہشت کی پرنور فضا سے نکل کر پھر سے ہنگامہ عالم میں آ گیا ہوں۔ میرے قلب و ذہن پر کیف و سرور کی وجد آفریں کیفیت طاری تھی۔ اس وقت میں اپنے آپ میں نہیں تھا۔ اس حالت میں چلتا سامنے واقع ایک کیفے میں داخل ہوا۔ تھوڑی دیر میں گرما گرم بھاپ اُڑاتی کافی میرے سامنے رکھی تھی۔ اس کی خوشبو اور بھاپ نشہ طاری کر ر ہی تھی۔ ایک گھونٹ لیا تو اس کا ذائقہ بھی لاجواب تھا۔ گرم لذیذ سیال زبان سے دہن اور گلے میں لذت و حرارت کا طوفان برپا کر رہا تھا۔ میں جرعہ جرعہ لے کر اس پرکیف سیال سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اس وقت مجھے ہر شے حسین دکھائی دے رہی تھی۔ یہ کافی، کیفے میں کام کرنے والے لوگ، اس کے در و دیوار،درخت، پھول، پودے، آسمان، سورج اور باسفورس کی جانب سے آتی ٹھنڈی ہوا، ہر شے حسین و راحت افزا لگ رہی تھی۔ (یہ رُوح پرور رُوداد، طارق محمود مرزا کے آنے والے سفرنامے ”تین دیس ایک دل“ کا حصہ ہے۔) |