بارش ہمیشہ سے انسان کے دل میں چھپی ہوئی کیفیتوں کو اجاگر کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔ پانی کے یہ قطرے جب زمین سے ملتے ہیں تو گویا دل کے نہاں خانوں کو بھی چھو لیتے ہیں۔ یہ عجیب سا موسم ہے، جس میں کبھی خوشبوؤں کے گلاب کھِلتے ہیں، تو کبھی تنہائی کے غبار۔ بوندوں کی چھم چھم میں کہیں بچپن کی یادیں جاگ اُٹھتی ہیں اور کہیں کسی انجان احساس کا سایہ دل کو گھیر لیتا ہے۔ جیسے بارش کا شور ہمیں اندر سے کسی اور دنیا کی طرف لے جاتا ہو۔ بارش کے قطرے کبھی کبھی آئینے بن جاتے ہیں، جن میں انسان اپنے دل کے وہ عکس دیکھ لیتا ہے جنہیں وہ برسوں سے چھپاتا آیا ہو۔ یہ عکس روشن بھی کرتے ہیں اور ڈراتے بھی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ ان کی روشنی میں کھو جائے، مگر عقل سختی سے کہتی ہے کہ یہ راستہ بھٹکانے والا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے ہی وجود کے دو حصوں میں بٹ جاتا ہے: ایک وہ جو بارش کی ان نرمیوں میں ڈوب کر ایک انجان چہرے کی طرف بڑھنے لگتا ہے، اور دوسرا وہ جو ہر قدم پر لگام کھینچتا ہے کہ یہ دھوکا ہے، یہ وہم ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ بارش محض موسم کا حصہ نہیں بلکہ دل کے کونے کونے سے لپٹی ہوئی ایک پرانی دعا ہے، جو جانے کیوں ادھوری رہ گئی۔ بوندوں کی نرم سی دستک ذہن میں کسی ایسے چہرے کا نقش ابھارتی ہے جو حقیقت میں کبھی ملا ہی نہیں۔ اجنبی، مگر اتنا قریب جیسے برسوں کا شناسا ہو۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ دل کس طرح ایسے رشتے بنا لیتا ہے جنہیں عقل تسلیم ہی نہیں کرتی۔ دل کتنا معصوم ہے، چھوٹی سی دستک پر فوراً دروازہ کھول دیتا ہے۔ بارش کی ہر بوند گویا کہتی ہے، ”چلو، دیکھو، کوئی تمہارا منتظر ہے۔“ مگر عقل جھڑک دیتی ہے، ”یہ محض موسم کی شرارت ہے، یہ خواب ہے، اور خواب حقیقت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔“ اس کشمکش میں دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں، جیسے وہ خود کو یقین دلانا چاہتا ہو کہ وہ کمزور نہیں پڑے گا، وہ اس انجان سمت میں نہیں جائے گا، چاہے بارش کی ہر نمی اُسے اس سمت دھکیلتی رہے۔ بارش کا رومان اپنی جگہ، لیکن اس کے اندر ایک خوف بھی چھپا ہے۔ یہ خوف کہ کہیں دل کسی ایسے راستے پر نہ نکل جائے جہاں واپسی ممکن نہ ہو۔ ایک طرف یہ نمی سکون دیتی ہے، تو دوسری طرف انجانے دھڑکنے بڑھا دیتی ہے۔ جیسے فضا میں گھلتی خوشبو کسی اور کے وجود سے بندھی ہوئی ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ بارش صرف زمین کو نہیں بھگوتی بلکہ دل کے پردے پر بھی کسی انجان نام کی تحریر رقم کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، مگر دل پر زور کب چلتا ہے؟ کبھی کبھی ہم چاہتے ہیں کہ خود کو روک لیں، اپنے احساسات کو قابو میں رکھ لیں، لیکن بارش کی ہر بوند دل کو تھامنے کے بجائے آزاد کر دیتی ہے۔ یہ قطرے گویا زنجیروں کو توڑ کر ایک انجان سمت کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ایک انجان چہرہ، ایک انجانی ہنسی، ایک خاموشی جو کبھی دیکھی نہ سنی گئی مگر پھر بھی دل کی دھڑکن سے جڑ جاتی ہے۔ بارش کا یہ کھیل بڑا نازک ہے۔ یہ یاد بھی دلاتی ہے اور بھلانے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ یہ قریب بھی لاتی ہے اور دور بھی دھکیلتی ہے۔ یہ کسی اجنبی کو اپنا بنا دیتی ہے اور اپنے کو اجنبی بنا دیتی ہے۔ انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ آخر یہ بارش ہے یا دل کے اندر چھپا ہوا کوئی راز، جو قطرہ قطرہ باہر آ رہا ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ اگر وہ اس انجانی آواز یا انجان چہرے کے پیچھے چل پڑا تو واپسی ممکن نہ ہوگی۔ لیکن اگر نہ گیا تو کیا دل ہمیشہ یہی سوال نہیں دہراتا رہے گا کہ وہاں آخر تھا کیا؟ یہی سوال دل کو بے چین کرتا ہے۔ بارش کی گرتی بوندیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ فیصلہ کر، یا تو بہہ جا یا رک جا، مگر یہ آدھی خواہش اور آدھی جھجک کب تک؟ یہی جنگ سب سے بڑی اذیت ہے۔ خود سے لڑنے کی اذیت۔ دل آگے بڑھنے کو کہتا ہے، عقل پیچھے کھینچتی ہے۔ ایک لمحے کو لگتا ہے کہ دل ہار جائے گا، اگلے ہی لمحے لگتا ہے کہ وہ ڈٹ جائے گا۔ مگر بارش اپنا کام کیے جا رہی ہے، وہ مسلسل اُن گہرے رازوں کو کھولتی جا رہی ہے، جنہیں دل دبانا چاہتا ہے۔ یہ کشمکش شاید کبھی ختم نہ ہو۔ شاید یہی بارش کا کمال ہے کہ وہ ہمیں ہمارے اندر کے اُس حصے سے ملواتی ہے جسے ہم نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ وہ حصہ جو خواب دیکھتا ہے، چاہے حقیقت کی آنکھیں انہیں جھٹلا دیں۔ |