افغان مہاجرین، جرمنی اور نئی پناہ حکمت عملی ‘جنسی شناخت کے نام پر تحفظ کا بڑھتا رجحان


جرمنی میں پناہ کے نظام نے پچھلے چند برس میں ایک غیر معمولی تبدیلی دیکھی ہے۔ افغانستان سے آنے والے مہاجرین کی ایک قابل ذکر تعداد اب اپنی پناہ کی درخواستوں میں جنسی شناخت کو بنیادی نکتہ بنا رہی ہے۔ بہت سے افراد خود کو LGBTQ سے وابستہ قرار دے رہے ہیں یا یہ موقف اختیار کر رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے دوران ان کے لبرل خیالات، سماجی رویے یا جنسی رجحانات انہیں سنگین خطرات میں ڈال دیتے ہیں۔

جرمن وفاقی دفتر برائے مہاجرین و پناہ گزینوں کے اندرونی رپورٹس کے مطابق یہ رجحان 2021 کے بعد نمایاں طور پر بڑھا ہے، جب طالبان نے دوبارہ کابل پر کنٹرول حاصل کیا۔ اس کے ساتھ ہی یورپ خاص طور پر جرمنی کا رخ کرنے والے افغانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد مختلف اقلیتوں اور کمزور گروہوں کے لیے تشویش میں اضافہ ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل یہ رپورٹ کرتی رہی ہیں کہ طالبان کی پالیسیوں میں LGBTQ افراد کے لیے کسی قسم کی گنجائش موجود نہیں۔اسی تناظر میں کچھ افغان جو واقعی اپنی شناخت کے باعث خطرے میں تھے، یورپ کی طرف نکلے اور جرمنی ان کے لیے ایک محفوظ جگہ کے طور پر سامنے آیا۔لیکن اس حقیقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا پہلو بھی ابھرنے لگا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ LGBTQ شناخت کا دعویٰ پناہ کے قانونی عمل میں ایک مضبوط بنیاد بن سکتا ہے، تو کچھ افراد نے اسے پناہ حاصل کرنے کا ایک موثر راستہ سمجھ لیا۔

جرمنی ادارے بی اے ایم ایف کے افسران کے مطابق پچھلے تین برس میں ایسے کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے، جن میں درخواست گزار خود کو LGBTQ سے وابستہ قرار دیتے ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ ان میں ہر کیس حقیقی نہیں ہوتا، اور اصل خطرے میں موجود افراد اس باعث مزید سخت جانچ سے گزرتے ہیں۔ محکمے کے سینئر افسران کہتے ہیں کہ اصل شناخت رکھنے والے افراد اپنی بات میں تسلسل اور وضاحت رکھتے ہیں، جبکہ محض قانونی فائدے کی نیت سے یہ دعویٰ کرنے والوں کی کہانیوں میں اکثر تضاد پایا جاتا ہے۔ یہ تضادات انٹرویوز میں سامنے آتے ہیں، جہاں افسران درخواست گزار کی ذاتی تاریخ، سماجی ماحول، تعلقات اور سابقہ حالات کے بارے میں سوالات کرتے ہیں۔

ایل جی بی ٹی کیو افغان برادری کے وہ افراد، جو واقعی طالبان کی سخت گیر سوچ سے خوفزدہ تھے، اب ایک نئے مسئلے سے گزر رہے ہیں۔ جب ہر دوسرا فرد اسی بنیاد پر کیس فائل کرتا ہے، تو اصل متاثرین کی بات نمایاں کم ہو جاتی ہے۔ جن افراد نے برسوں خوف میں زندگی گزاری تھی، ان کے لیے اپنی کہانی ثابت کرنا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔برلن میں موجود ایک سماجی کارکن کے مطابق “ہمارے پاس ایسے نوجوان آتے ہیں جو واقعی افغانستان میں جان کے خطرے سے بھاگے، مگر اب انہیں اپنے ہی جیسے دعویداروں کی بھیڑ میں خود کو صحیح ثابت کرنا پڑتا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک اضافی نفسیاتی بوجھ ہے۔”

پناہ کے قانونی نظام میں جرمنی بنیادی اصول کے طور پر انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ جہاں کسی فرد کو جنسی رجحان کی وجہ سے خطرہ ہو، ریاست اسے تحفظ دینے کی پابند ہے۔لیکن اس اصول کے غلط استعمال نے بحث چھیڑ دی ہے کہ درخواستوں کی تصدیق کے لیے مزید سخت معیار اپنائے جائیں۔پالیسی ساز اب دو بڑی پریشانیوں سے نمٹ رہے ہیں: اصل متاثرین کے حقوق کا تحفظ ‘ جھوٹے دعووں کے باعث بڑھتے دباو کو کم کرنا‘ کچھ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ درخواست گزاروں کی سماجی اور نفسیاتی تاریخ کے مطالعے کے لیے تربیت یافتہ ماہرین کی تعداد بڑھائی جائے۔

افغانی برادری میں بھی اس رجحان پر بحث جاری ہے۔ کچھ لوگ اسے “survival tactic” قرار دیتے ہیں، کیونکہ اکثر نوجوانوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔ دوسری جانب، کچھ افغان کہتے ہیں کہ اس رجحان نے کمیونٹی کے اندر ایک نئے سماجی دباو¿ کو جنم دیا ہے۔ایک افغان پناہ گزین نے اس صورتحال کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا “ہم میں سے کچھ واقعی ڈرے ہوئے آئے تھے۔ مگر جب یہاں پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اپنی کہانی بنانے میں ہم سے بھی زیادہ ماہر ہیں۔ اب ہمیں ہی زیادہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ ہم سچے ہیں۔”

یہ صورت حال ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہے: کیا یورپ اور خاص طور پر جرمنی کا پناہ کا نظام ایسے رجحانات کو روکنے کے لیے تیار ہے؟ یا پھر یہ انسانی ہمدردی اور غلط استعمال کے درمیان ایک باریک لکیر پر چلتا رہے گا؟ اس موضوع پر کام کرنے والے جرمن ماہرین کہتے ہیں کہ مستقبل میں پناہ کے قانونی عمل میں مزید باریک بینی آئے گی۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جب تک افغانستان جیسے ممالک میں آزادی اظہار اور انسانی حقوق محفوظ نہیں ہوتے، ایسے دعووں کی تعداد کم نہیں ہوگی۔

افغان مہاجرین کی نئی شناختی حکمت عملی جرمنی کے پناہ کے نظام کے لیے ایک اہم چیلنج بن گئی ہے۔ یہ معاملہ صرف قانونی نہیں بلکہ سماجی اور نفسیاتی پہلو بھی رکھتا ہے۔ اصل اور غیر اصل دعووں کے اس امتزاج نے پالیسی سازوں کو ایک مشکل راستے پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں ہر فیصلے کا تعلق انسانی جانوں اور عالمی اصولوں سے ہے۔ یہ رجحان آگے کیا رخ اختیار کرے گا، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ جرمنی اپنے پناہ کے نظام کو کس طرح مضبوط کرتا ہے اور افغانستان کی سیاسی اور سماجی صورتحال کس طرف جاتی ہے۔

#Germany #Migration #AsylumPolicy #AfghanRefugees


Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 893 Articles with 714813 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More