اوور تھنکنگ

عنوان: اوور تھنک کرنا نفسیاتی بیماری ہے

موجودہ دور میں انسان نے جہاں بے شمار سہولتیں حاصل کی ہیں، وہیں ذہنی دباؤ، بے چینی اور مسلسل سوچ میں الجھ جانے کی بیماریاں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ آج کا انسان جتنا باخبر ہے، اتنا ہی بے سکون بھی ہے۔ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ سوچتے رہنا، دل میں خدشات کا ہجوم لیے پھرنا، ہر بات میں معنی ڈھونڈنا اور ہر چھوٹی بات پر ذہن کا بھاری ہو جانا… یہ سب اوور تھنکنگ کے وہ آثار ہیں جو ہماری روح تک کو تھکا دیتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اوور تھنک کرنا ایک خاموش مگر تباہ کن نفسیاتی بیماری ہے جو انسان کی خوشیوں، تعلقات، اعتماد اور ذہنی صحت کو آہستہ آہستہ تباہ کرتی چلی جاتی ہے۔

آج کا انسان اکثر اپنی سوچوں کا غلام بن چکا ہے۔ کسی نے جواب فوراً نہ دیا تو دل میں خدشات۔ کسی نے سلام کا جواب مختصر دے دیا تو فوراََ غلط معنی۔ کسی نے چند گھنٹے فون نہ اٹھایا تو ذہن میں سینکڑوں وسوسے جنم لینے لگتے ہیں۔ انسان ہر بات کو ضرورت سے زیادہ سوچ کر اپنی ہی زندگی تلخ بنا لیتا ہے۔ اسی اوور تھنکنگ کا نتیجہ ہے کہ لوگوں میں اعتماد کم اور بے چینی زیادہ ہو چکی ہے۔ جو لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوں، وہ خود بھی اندر سے ٹوٹتے رہتے ہیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔
اوور تھنکنگ ایک ایسا شکنجہ ہے جس میں پھنسا انسان بظاہر نارمل دکھائی دیتا ہے مگر اندر ہی اندر خود کو کھا رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنی قدرتی خوشیوں سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے ذہن میں جاری بے تحاشا کلام اس کو لمحۂ موجود سے دور لے جاتا ہے۔

اسی طرح اگر ہم آج کی معاشرتی زندگی کا جائزہ لیں تو نمائش، دکھاوا اور سوشل میڈیا کی مصنوعی چمک دمک نے اس بیماری کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ پہلے انسان چند افراد کی رائے سے متاثر ہوتا تھا، اب پوری دنیا کے لائکس، کمنٹس، شیئرز اور تاثرات نے انسان کے ذہن کو یرغمال بنا لیا ہے۔ سوشل میڈیا نے انسان کے ہر لمحے کو ایک مقابلہ بنا دیا ہے۔
اچھا کھانا کھا لیا تو فوراً تصویر اپلوڈ، نئے کپڑے پہن لیے تو سٹوری لازمی، اچھی گاڑی یا کسی پُررونق جگہ کا دورہ کیا تو ویڈیو نہ لگائی جائے تو جیسے لطف ادھورا رہ جائے۔ خوشی کو محسوس کرنے کے بجائے اس کی تصویر کھینچ کر دنیا کے سامنے پیش کرنا آج کی سب سے بڑی نفسیاتی کمزوری بن چکی ہے۔ انسان خوشی کی اصل روح کو بھول کر اس خوشی کے اشتہار میں مصروف ہو گیا ہے۔

نمائش کی اس وبا نے لوگــوں کو اندر سے بے چین کر دیا ہے۔ اب خوشی کا معیار چیزیں نہیں بلکہ ان چیزوں پر آنے والے ’’ری ایکشنز‘‘ ہیں۔ پہلے لوگ خوشی کا لطف اندر ہی اندر محسوس کرتے تھے، اب خوشی تب مکمل ہوتی ہے جب اس کے نیچے درجنوں کمنٹس، سینکڑوں لائکس اور ہزاروں ویوز آجائیں۔ اس مصنوعی تسکین نے انسان کو مزید خالی کر دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نمائش کے پیچھے بھی اوور تھنکنگ ہی چھپی ہوتی ہے۔
"لوگ کیا کہیں گے؟"
"اگر میں نے تصویر نہ لگائی تو لوگ سمجھیں گے میں پیچھے رہ گیا ہوں!"
"اگر ویڈیو نہ ڈالی تو شاید لوگوں کو لگے میں خوش نہیں!"
یہ سارے جملے اسی ذہنی بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں انسان اپنی حقیقی زندگی چھوڑ کر دوسروں کی رائے کا غلام ہو جاتا ہے۔

خاکسار نے ہمیشہ سادگی کو ترجیح دی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے اس مصنوعی دور میں میں خود کو ہجوم سے الگ محسوس کرتا ہوں۔ یہ بات شاید بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ زندگی کے سب سے خوبصورت اور قیمتی لمحے وہ ہوتے ہیں جنہیں انسان خاموشی، سکون اور سادگی کے ساتھ جیتا ہے—نہ کہ کیمرے کے سامنے یا دنیا کی نظروں کے سامنے۔
میری اپنی شادی کی تقریب اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ آج کے دور میں شادی کا مطلب صرف تقریب نہیں بلکہ ایک فلم، ایک فوٹو شوٹ، ایک سوشل میلہ بن چکا ہے۔ لیکن میں نے اپنی شادی کے دن ایک بھی تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کی۔ حالانکہ میرے چاہنے والوں کی خواہش تھی، مطالبہ بھی تھا، اور بہت سے لوگوں نے کہا کہ "یہ لمحہ تو یادگار ہوتا ہے، اسے دنیا کے ساتھ شیئر کیوں نہیں کرتے؟"
لیکن میں نے خود کو سادہ طبیعت کا بندہ ثابت کیا اور یہی سوچا کہ یہ دن میرا ہے، میری زندگی کا ہے، اور اس لمحے کو نمائش میں ڈال کر اس کی اصل خوشبو کم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان جب اپنے قیمتی لمحات دنیا کے سامنے رکھتا ہے تو وہ لمحات دل میں محفوظ نہیں رہتے، وہ عوامی ہو جاتے ہیں، بے رنگ ہو جاتے ہیں۔

آج ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سوشل میڈیا پر ہر خوشی کا اشتہار لگانا نہ صرف ایک غیر ضروری عمل ہے بلکہ بعض اوقات یہ ہماری ذہنی حالت کو بگاڑنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ ہم دوسروں کی زندگی دیکھ کر اپنی زندگی کے فیصلے بدلنے لگتے ہیں، اور یہ موازنہ خود کو کم تر محسوس کرنے کا سبب بنتا ہے۔
اس نمائش کی دوڑ نے ہمیں نہ صرف بے چین کیا ہے بلکہ ہمارے مزاج، ہماری سوچ اور ہمارے تعلقات کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس دوڑ سے باہر نکلیں۔ اپنی خوشیوں کو اندر محسوس کریں، ہر بات کو حد سے زیادہ نہ سوچیں، ہر لمحے کا اشتہار نہ بنائیں۔ زندگی کا اصل لطف تب ہے جب آپ اس لمحے کو پوری توجہ سے جئیں، اس میں کھو جائیں، اسے محسوس کریں—نہ کہ اس کی تصویر لے کر دنیا کے سامنے رکھ دیں۔
اوور تھنکنگ سے نجات تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے دل کو سادگی کی طرف لائیں، اپنی زندگی کو دوسروں کے پیمانوں پر تولنا چھوڑ دیں اور یہ بات سمجھ لیں کہ دنیا کی رائے کبھی بھی مکمل نہیں ہوتی۔

اگر ہم سادگی کو اپنائیں، نمائش سے بچیں اور اپنی خوشیوں کو اپنا راز بنائیں تو یقین جانیے زندگی پہلے سے کہیں زیادہ پُرسکون، آسان اور خوبصورت ہو جائے گی۔
آئیں! خود کو آزاد کریں—سوچ کے بوجھ سے بھی اور نمائش کی غلامی سے بھی۔
زندگی ایک نعمت ہے، اسے جینے کے لیے ہے، دکھانے کے لیے نہیں۔ 
Abdul Majeed
About the Author: Abdul Majeed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.