محبت نے ہجرت کر لی
(Muhammad Muddasir , Karachi)
پہاڑوں کی جانب سے انے والی ہوا جسم پر خنجر کی طرح وار کر رہی تھی اور روح تک کو منجمد کر رہی تھی خود کو سمیٹے میں وہیں برف پر ایک چادر اوڑے بیٹھا تھا آبشار سے گرتا پانی اپنے سر کو پتھروں سے زور زور سے پٹخ رہا تھا جس سے پر مسرت سی اواز پیدا ہو رہی تھی سارے دن کے تھکے ہارے پرندے اب اپنے آشیانوں کی جانب رواں تھے درختوں کو ہوا جھولا جھلا رہی تھی سورج اپنی اخری منزل کی جانب رواں تھا اور اپنی اخری کرنے اسمان پر بکھیر رہا تھا اسمان میں زرد رنگ کی کرنے پڑنے سے آسمان اور بھی خوبصورت دکھائی دینے لگا اسمان پر ہلکے ستاروں کی چمک کہیں کہیں دکھائی دے رہی تھی ہوا سر تھی مگر ہوا میں ایک عجیب سی خوشبو ایک مہک تھی ایک احساس تھا ایک عجیب ہی ایک الگ ہی کیفیت طاری تھی اور ایک الگ ہی منظر بنا رہی تھی ہوا باغات سے پھولوں کی خوشبو چرا کر پوری کائنات میں بکھیر رہی تھی اس وقت پہاڑ ابشارچرندو پرندہ ہوا درخت سب کی اوازوں کا سرور پیدا ہو رہا تھا میں ان کے درمیان ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے سب مناظر اپنے اندر جذب کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا تمام مناظر کو اپنی آنکھوں میں نقش کرنے کی جسارت کر رہا تھا اسی شور کے درمیان سے ایک پراسرار سی ایک عجیب سی اواز آئی ایک سکتہ طاری کر دینے والی آواز اس آواز نے مجھے ساکن کر دیا دل کی دھڑکنیں تھم سی گئیں سانس ٹوٹنے لگا روح کا جسم کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے لگا آبشار خاموش ہو گئے پرندوں کی آوازیں بند ہو گئی ہوا کی مہک ختم ہو گئی پہاڑوں کی برف اب اگ کی طرح محسوس ہونے لگی تھی مجھ سمیت تمام کائنات پر سکتہ طاری ہو گیا میں پسینے میں شرابورہوگیا اور میرے ہاتھ سے چائے کا کپ گر پڑا میرے کانوں میں سننے کی سکت تقریبا ختم ہو گئی تھی میں بے ہوش ہو گیا وہ پراصرار سے اواز پہلے بھی بہت ساری جانیں لے چکی تھی کئی لوگوں کا خون کر چکی تھی کئی لوگوں کو پاگل کر دیا تھا کئی لوگوں کا دماغی توازن بگڑ گیا تھا کئی لوگ اس اواز کو سننے کی سکت نہ لاتے ہوئے اس دنیا کو خیرا اباد کہہ گیا کئی سارے لوگ اس اواز کے بعد اپنے اپ کو خود مار دیا کرتے کئی لوگ سننے کی حس سے محتاج ہو گئے کئی بولنے کی طاقت کھو بیٹھے کئییوں جینا چھوڑ دیا وہ پراسرار سی آواز کوئی عام سے بول نہیں تھے کوئی عام سے الفاظ نہ تھے ایک جان لیوا لفظوں کا مجموعہ تھا جس نے کئی لوگوں کا خون کیا تھا کئی لوگوں کے ہاتھوں کسی کو قتل کروایا تھا یہ جان لیوا الفاظ سننے کے بعد میں بے ہوش ہو گیا میں تقریبا وہیں پڑا رہا کئی عرصہ تک یہاں تک کہ پہاڑوں کی برف پگل گئی اور ابشاروں کا برسنا بند ہو گیا درخت اپنی وقعت کھو بیٹھا ہے پرندوں نے بھی ہجرت کرلی جانوروں نے اپنے آشیانے بدل لیے چشمے سوکھ گئے باغات کے سبھی پھول مرجھا گئے سبھی پر ایک زوال اگیا انسانوں کی جگہ وہاں آدمی آگئے ہر چیز بدل گئی روشنیوں کی جگہ کالے سیاہ نہ ختم ہونے والے اندھیرے چھا گئے درختوں کے پتے زرد ہو کر گر پڑے پھولوں کی رنگینیاں اور مہک ان سے چھین لی گئی باغ ویران ہو گئے اور زندگی بس تقریبا ختم ہو چکی تھی بہار چلی گئی بہار اپنی تمام رونقیں لے کر ہجرت کر گئی خزاں نے اپنے ڈیرے ڈال دیے خزاں نے قبضہ کر لیا تھا تمام چیزوں کو بکھیر دیا تھا جس طرح کوئی فاتح فوج کسی مفتوحہ شہر کو تباہ کر دیتی ہے شہر کی تمام رونقیں چھین لیتی ہے تمام روشنیوں کو گل کر دیتی ہے تمام فصلوں اور باغات کو جلا دیتی ہیں پھولوں کی بے حرمتی کرتی ہے اور اپنے جوتوں سے کچل دیتی ہے فضا میں جنگ کے اثار چھوڑ دیتی ہے ہوا میں بارود کے ذرات چھوڑتی ہےجس میں سانس لینا محال ہوتا ہے نوجوانوں کو قتل کرتی ہے بوڑھوں کو قتل کر دیتی ہے بچوں اور عورتوں کی بے حرمتی کر کے ان کو قتل کرتی ہے ان کو اپنا غلام بناتی ہے یوں صدیوں تک شہر آباد نہیں ہو پاتا یہاں بھی یہی حال ہوا تھا یہاں بہار اور خزاں کی جنگ چلی جس میں خزاں جیت گئی اسی طرح خزاں نے اس حسین وادئ دل کو تباہ کر دیا اس وادیئ دل میں پہاڑ تو ہیں مگر اب اس پر برف نہیں وہ کیفیت نہیں یہاں اب انسانوں کی جگہ آدمی اگئے یہاں اب بہار کی جگہ خزاں اگئی یہ تمام صورتحال دیکھ کر محبت نے بھی اپنے ہتھیار ڈال دیے اس کی جگہ اب نفرت کی حکومت اگئی یہاں ایک خوبصورت حکومت کا سدباب ہوا یہاں ایک باغ اجڑ گیا جہاں محبت کے تمام اجزأ تھے سبھی پر خزاں نے قبضہ کر لیا انسان کی جگہ ادمیوں کی بھیڑ اگئی یوں محبت نے ہجرت کر لی اور اس پراسرار سی آنے والی آواز نے یہی خبر دی تھی کہ محبت نے ہجرت کر لی....
ازقلم محمد مدثر |