"سزا نہیں — تربیت"

قومیں سزا کے ڈنڈے سے نہیں، تربیت کے چراغ سے بنتی ہیں۔
پنجاب کے تعلیمی اداروں میں روزانہ لاکھوں طلبہ سفر کرتے ہیں۔ اگر حکومت چاہے تو یہی نسل ٹریفک کلچر کو بدل سکتی ہے۔ ریاست، پولیس اور والدین مل کر بچوں کے لیے ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جس میں قانون بھی برقرار رہے اور مستقبل بھی محفوظ۔
18 سال کی شرط پر اندھا اصرار نہیں، علم پر مبنی لائسنس کی راہ اختیار کی جائے،
تاکہ ہم نوجوانوں کے ہاتھ سے گاڑی نہیں، زندگی کا اسٹیئرنگ چھیننے کے بجائے انہیں محفوظ ڈرائیونگ کا شعور دے سکیں۔
"سزا نہیں — تربیت"
تحریر: ڈاکٹر طالب علی اعوان
پنجاب میں 18 سال سے کم عمر بچوں کے ڈرائیونگ کرنے پر سخت کارروائیاں، بھاری جرمانے اور حتیٰ کہ ایف آئی آر درج ہونے اور گرفتاری تک بات پہنچ چکی ہے۔ بظاہر اس اقدام کا مقصد سڑکوں پر حادثات کی روک تھام اور ٹریفک قانون کی پاسداری ہے، مگر اس کے سماجی، نفسیاتی اور تعلیمی نتائج پر بہت کم غور کیا گیا۔ سچ یہ ہے کہ اُس طالب علم کو جو کالج یا اکیڈمی جانے کے لیے اپنی سواری استعمال کرتا ہے اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی میں کسی عملاً "ریاستی دباؤ" کا شکار ہو رہا ہے، اسے مجرم بنا دینا مسئلے کا حل نہیں۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ پنجاب حکومت نے مسئلے کو تعلیمی و سماجی تناظر میں دیکھنے کے بجائے محض ایک آپریشنل پولیس رویّہ اختیار کیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ 18 سال سے کم عمر ڈرائیونگ کرے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کہ ہم اس نسل کو ذمہ دار شہری بنانے کے لیے کیا نظام دے رہے ہیں؟
موجودہ صورتحال کا جائزہ
قانون تو موجود ہے مگر نظام غائب ہے:
ٹریفک قوانین کاغذوں پر مضبوط ہیں مگر عملی تربیت کا کوئی منظم، مسلسل اور قابلِ رسائی طریقہ موجود نہیں۔ صرف سزا سے نظام نہیں بنتا، تربیت اور آگاہی بنیادی شرط ہے۔
طالب علموں کے سماجی مسائل نظر انداز:
پنجاب کے بیشتر شہروں میں اسکول و کالج کی ٹرانسپورٹ ناکافی ہے۔ دیہات میں یہ مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان حالات میں سائیکل یا موٹر سائیکل اکثر واحد سہارا ہے۔
ایف آئی آر کا نفسیاتی نقصان:
معصوم طلبہ کو مجرم بنا دینا ان کے اعتماد، درجے اور مستقبل پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کی طرح بچوں کی شناخت نہیں ہونی چاہیے۔
عمر کی شرط، اب عملی نہیں رہی:
جدید تعلیم، ڈیجیٹل دنیا اور گلوبل ویلج میں 18 سال کی عمر ڈرائیونگ کی شرط غیر سائنسی اور غیر منطقی محسوس ہوتی ہے۔
امریکا، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی میں 15–16 سال سے پارٹ ٹائم جاب، ڈرائیونگ پرمٹ اور لائسنس کے سسٹم موجود ہیں۔
عملی اور قابلِ عمل تجویز: اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل ڈرائیونگ لائسنس
وقت آ گیا ہے کہ حکامِ بالا، حکومتِ وقت اور وزارتِ تعلیم ایک ایسی نئی اصطلاح اور نیا نظام متعارف کرائے:
"اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل ڈرائیونگ لائسنس"
اس لائسنس کا مقصد سزا نہیں، تربیت ہو۔ درست ٹریفک شعور کے ساتھ بچوں کو ذمہ دار شہری بنایا جائے۔
اس لائسنس کے ممکنہ اصول:
عمر کی حد 15–17 سال
18 سال سے پہلے پیرنٹس پرمٹ یا اسکول پرمٹ دینے کی اجازت ہو۔
اسکول و کالج کی منظوری
طالب علم کا ڈسپلن ریکارڈ، کلاس حاضری اور والدین کی اجازت لازمی ہو۔
تربیتی کورس
ٹریفک قوانین، بنیادی مکینکس، ہیلپ لائن تربیت، اسٹریس کنٹرول، فرسٹ ایڈ، سڑک پر اخلاقیات، سب کچھ ایک مختصر سرٹیفکیٹ کورس کا حصہ بنایا جائے۔
تین پوائنٹ سیفٹی سسٹم
١. ہیلمٹ
٢. رجسٹریشن
٣. باقاعدہ شناختی کارڈ/سٹوڈنٹ لائسنس کارڈ
خلاف ورزی پر پہلے تنبیہ، پھر کلاس، آخر میں جرمانہ۔
پولیس کی جگہ ایجوکیشن و ٹریفک اتھارٹی
طالب علم کے کیسز میں ایف آئی آر کی جگہ "ٹریفک کونسلنگ رپورٹ" دی جائے۔
والدین کی شمولیت
لائسنس کے ساتھ پیرنٹس ڈرائیونگ ذمہ داری فارم لازمی ہو تاکہ نصیحت اور نگرانی دونوں جاری رہیں۔
اس نظام کے فوائد:
سزا کے بجائے تربیت کو فروغ
نوجوانوں میں ذمہ داری اور خود اعتمادی
اسکول و کالج ٹائم میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کم
ٹریفک پولیس اور طلبہ میں مثبت تعلق
حادثات میں حقیقی کمی
بچوں کا مستقبل محفوظ، ریکارڈ صاف
حکامِ بالا کے لیے سفارشات:
پنجاب ٹریفک پولیس اور پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ مل کر پلان تیار کریں۔
ہر ضلع میں ماڈل "اسٹوڈنٹس ڈرائیونگ اسکول" قائم کیے جائیں۔
جیسے اسکولوں میں "مار نہیں — پیار" کی کمپین چلائی گئی، ویسے ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پبلک کیمپین چلائی جائے:
"سزا نہیں — تربیت (Training)"
ایف آئی آر کے قانون میں ترمیم:
18 سال سے کم عمر کے لیے گرفتاری کی جگہ تربیتی نوٹس جاری ہو۔
اسکولوں، پرائیویٹ اکیڈمیوں اور کالجوں کو اس نظام میں فعال کردار دیا جائے۔
اختتامیہ
قومیں سزا کے ڈنڈے سے نہیں، تربیت کے چراغ سے بنتی ہیں۔
پنجاب کے تعلیمی اداروں میں روزانہ لاکھوں طلبہ سفر کرتے ہیں۔ اگر حکومت چاہے تو یہی نسل ٹریفک کلچر کو بدل سکتی ہے۔ ریاست، پولیس اور والدین مل کر بچوں کے لیے ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جس میں قانون بھی برقرار رہے اور مستقبل بھی محفوظ۔
18 سال کی شرط پر اندھا اصرار نہیں، علم پر مبنی لائسنس کی راہ اختیار کی جائے،
تاکہ ہم نوجوانوں کے ہاتھ سے گاڑی نہیں، زندگی کا اسٹیئرنگ چھیننے کے بجائے انہیں محفوظ ڈرائیونگ کا شعور دے سکیں۔ 
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 51 Articles with 106042 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.