کبھی کبھی زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے، ایسا بوجھ جو کندھوں پر رکھا ہی نہیں گیا بلکہ روح پر رکھا گیا ہو۔ ہر سانس ایک قرض محسوس ہوتی ہے، ہر لمحہ ایک سزا، جیسے وقت کا پہیہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے گھوم رہا ہو۔ اس کیفیت میں انسان اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ اپنے ہی وجود کے اندر قید ہے، دیواریں وہ خود ہیں اور زنجیریں بھی۔ یہ کیفیت ایک دن میں نہیں بنتی، یہ آہستہ آہستہ اندر بڑھتی ہے۔ پہلے خواب چھوٹتے ہیں، پھر امیدیں، پھر دعائیں اور آخر میں وہ سکون چھن جاتا ہے جو کبھی دل کے کسی کونے میں چھپا رہتا تھا۔ ہر راستہ بند لگتا ہے، ہر چہرہ اجنبی ہو جاتا ہے، ہر آواز بوجھ بن جاتی ہے۔ انسان جیتا تو ہے مگر جینا اس کے لیے اذیت بن جاتا ہے، جیسے ہر لمحہ اس کے لیے ایک امتحان ہو جس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ ایسی حالت میں دل کو لگتا ہے کہ وہ ٹوٹ چکا ہے مگر دماغ اب بھی کہتا ہے کہ چلتے رہو، آگے بڑھتے رہو۔ لیکن آگے بڑھنے کے لیے جو طاقت چاہیے، وہ بھی دھیرے دھیرے ختم ہو جاتی ہے۔ اندر کا خلا بڑھتا ہے، اور ایک ایسا لمحہ آتا ہے کہ لگتا ہے اب اس خلا کو بھرنا ممکن نہیں۔ اس احساس میں ایک عجیب سی تنہائی بھی چھپی ہے۔ باہر کی دنیا اپنی رفتار سے چل رہی ہوتی ہے، لوگ ہنستے، کھیلتے، خواب دیکھتے ہیں۔ مگر ایک ایسا انسان جس کے لیے جینا مشکل ہو گیا ہو، وہ سب کچھ دور سے دیکھتا ہے، جیسے ایک الگ سی دنیا ہو جس میں وہ کبھی داخل نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی ہی سوچوں، یادوں اور دکھوں کے گرد ایک دیوار بنا لیتا ہے اور اس دیوار کے اندر بیٹھ کر سانس لینے کی مشقت برداشت کرتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان خود سے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ سب ختم ہو گا؟ کیا یہ بوجھ کبھی کم ہو گا؟ اور اکثر کوئی جواب نہیں ملتا۔ دل کو لگتا ہے کہ شاید اب یہ سفر ختم ہی ہو جائے، شاید سکون اسی میں ہے کہ یہ اذیت نہ رہے۔ لیکن زندگی اپنی ضدی چال چلتی ہے، وہ ختم نہیں ہوتی، وہ بس تھوڑا تھوڑا کر کے انسان کو اندر سے توڑتی ہے، عزیت دیتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ایک انسان اپنی زندگی کے ہر پہلو پر سوال اٹھاتا ہے۔ محبتیں، خواب، لوگ، سب کچھ بے معنی لگنے لگتا ہے۔ اس کیفیت میں جینے کی چاہت نہیں رہتی، بس سانس لینے کی مشینری چلتی رہتی ہے۔ اور یہی سب سے بڑا دکھ ہے کہ انسان زندہ تو ہے، مگر زندگی کے بغیر۔ میں نہیں جانتا یہ لفظ کہاں تک پہنچیں گے اور کون سنے گا، مگر شاید لکھ دینا ہی میری آخری طاقت ہے۔ آج میں محسوس کر رہا ہوں کہ میرے اندر جو سانس باقی ہے وہ بھی قرض کی طرح ہے، جو کبھی نہ کبھی اتر جائے گی۔ ہر دن جیسے ایک پہاڑ ہو جسے سر کرنا ہے مگر اس پہاڑ کے اوپر پہنچ کر بھی سکون نہیں، بس ایک اور چڑھائی شروع ہو جاتی ہے۔ میں تھک گیا ہوں۔ میں نے اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کی کہ زندگی کا یہ مرحلہ بھی گزر جائے گا، مگر وہی دل اب میرا دشمن بن بیٹھا ہے، ہر لمحہ مجھے میرے دکھ یاد دلاتا ہے، میری کمزوریاں گنواتا ہے۔ میں نے کتنی بار خود سے کہا کہ یہ سب وقتی ہے، یہ سب ختم ہو جائے گا، مگر وقت بھی اب میرا دشمن لگنے لگا ہے۔ ہر گھڑی کا کانٹا جیسے میرے دل پر چلتا ہے، ہر لمحہ مجھے اندر سے توڑتا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ کاش کوئی میری حالت کو سمجھ سکتا، کوئی میرے اندر جھانک سکتا، مگر ایسا کوئی نہیں۔ لوگ میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر یہی سمجھتے ہیں کہ میں ٹھیک ہوں، مگر وہ نہیں جانتے یہ مسکراہٹ زبردستی کی ہے، یہ سانسیں زبردستی کی ہیں، یہ زندگی زبردستی کی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے خواب دیکھنا چھوڑے تھے۔ پہلے پہل تو خواب بھی سہارا دیتے تھے، مگر جب خواب بھی دشمن لگنے لگیں، تو انسان کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ وہ ایک جیتا جاگتا خول بن جاتا ہے جو بس چلتا ہے، بولتا ہے، سانس لیتا ہے، مگر زندہ نہیں رہتا۔ میں بھی وہی خول بن گیا ہوں۔ اب میں اپنی زندگی کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے یہ میری نہیں رہی۔ اس کے فیصلے میرے نہیں، اس کی راہیں میری نہیں۔ میں ایک اجنبی کی طرح اپنے ہی وجود میں رہ رہا ہوں۔ ہر روز اپنے آپ سے لڑتا ہوں، خود کو کھینچ کر آگے لے جانے کی کوشش کرتا ہوں، مگر اب وہ ہمت بھی نہیں رہی۔ میرے ہاتھ کانپنے لگے ہیں، میرا دل تھک گیا ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ سب اس حد تک پہنچے، مگر اب میں اتنا مجبور ہو گیا ہوں کہ اس تحریر کے ذریعے اپنے دل کی ساری تھکن ان الفاظ میں ڈال رہا ہوں۔ میں نہیں جانتا یہ تحریر پڑھنے والا کون ہو گا، مگر اگر کوئی ہے جو سمجھ سکتا ہے، تو وہ جان لے کہ یہ الفاظ کسی کمزور دل کے نہیں بلکہ کسی ایسے دل کے ہیں جو آخری دم تک لڑتا رہا، اور اب بس تھک چکا ہے۔ اگر کبھی میرے جانے کے بعد کوئی ان لفظوں کو پڑھے تو وہ یہ جان لے کہ میں نے اپنی پوری زندگی ایک امید کے ساتھ گزاری تھی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا، مگر سب کبھی ٹھیک نہیں ہوا۔ اب یہ الفاظ میری آخری گواہی ہیں کہ میں تھک چکا ہوں۔ سانس چل رہی ہے مگر زندگی ختم ہو گئی ہے۔ تو یہ آخری الفاظ لکھتے ہوئے میری انگلیاں کانپ رہی ہیں، جیسے یہ بھی میرا ساتھ چھوڑنے والی ہوں۔ سانسیں اب اتنی بھاری ہو گئی ہیں کہ ہر سانس ایک بوجھ کی طرح لگتی ہے۔ دل کی دھڑکن جیسے اپنے انجام کی خبر دے رہی ہو، اور ذہن میں صرف ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ آخر میں کب تک یہ بوجھ اٹھاؤں گا، کب تک۔ میں جانتا ہوں، اس تحریر کے بعد شاید کوئی لفظ باقی نہ بچے، شاید میری آواز یہیں کہیں رک جائے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ تحریر پڑھنے والا یہ ضرور سمجھے کہ میں ہارا نہیں تھا، میں نے آخر دم تک اپنے آپ سے، اپنے دکھ سے، اپنے اندھیروں سے لڑائی کرنے کی پوری کوشش کی۔ میں نے زندگی کے ہر طوفان میں خود کو تھامنے کی کوشش کی، مگر اب طوفان بہت شدید ہو گیا ہے۔ میری آنکھوں میں اب آنسو نہیں، بس ایک نمی ہے، جو میرے اندر کے خلا کو بھرتی بھی ہے اور کھوکھلا بھی کر دیتی ہے۔ سانس کے ساتھ لفظ بھی ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ شاید یہ آخری سانسوں میں لکھے گئے وہ لفظ ہیں جو میری ساری زندگی کی تھکن کا خلاصہ ہیں۔ شاید میں بچ جاؤں، یا شاید نہیں۔ اور اب، اب بس ایک ہی دعا ہے، اے پروردگار، میرے لفظوں کو گواہ بنا لے کہ میں نے تیرے بندوں سے، تیری دنیا سے، اپنے نصیب سے کبھی شکوہ نہ کیا، بس برداشت کرتا رہا۔ یہ آخری سانس بھی تیری امانت ہے، یہ دل بھی تیری امانت ہے۔ میں تیری رضا پر راضی ہوں، بس اس درد کو اپنی رحمت میں بدل دے۔ یہ میری شاید آخری تحریر ہے، میری آخری دعا ہے، میری آخری گواہی ہے۔ سانس ٹوٹ رہی ہے، لفظ تھم رہے ہیں، مگر شاید میری خاموشی ہی اب سب کچھ کہہ جائے۔ بس انتظار ہے، امید ہے اُس وقت کا جب زندگی کا آخری فیصلہ کر دیا جاے، عزیت سے آزادی مل جاے اور جو کچھ ہونا ہے ایک ہی بار ہو جاۓ۔ ایک بار کا مرنا روز کے جی کے مرنے اور مر کے جینے سے اچھا ہے۔ |