میڈیاوارفیئر

میڈیاوارفیئرکے تین مہلک ہتھیارکون سے ہیں؟یہ کیاکرتے ہیں؟ان سے کیسے بچاجائے
میڈیاوار کے تین مہلک ہتھیار
ڈاکٹرمولانامحمد جہان یعقوب
آج ہم میڈیا وار کے تین سب سے مؤثر ہتھیاروں کا تفصیل سے جائزہ لیں گے:
۱۔نیوز پورٹلز
۲۔تفریح (میوزک، فلم، ڈرامے)
۳۔صحافتی تجزیے، رپورٹس، اور کتابیں
1 نیوز پورٹلز:
ڈیجیٹل دور میں نیوز پورٹلز معلومات کا سب سے تیز رفتار ذریعہ ہیں۔ ان کی اصل طاقت ان کی رسائی، رفتار اور بار بار اپ ڈیٹ ہونے کی صلاحیت میں ہے۔ میڈیا وار میں نیوز پورٹلز کو درج ذیل طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے:
سلیکٹیو رپورٹنگ (Selective Reporting):
صرف ان خبروں کو نمایاں کرنا جو آپ کے بیانیے کو سپورٹ کریں اور ان خبروں کو نظر انداز کرنا جو اس کے خلاف ہوں۔
مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن (Misinformation & Disinformation ):
غلط معلومات (نادانستہ) یا گمراہ کن معلومات (جان بوجھ کر) پھیلانا۔ اس میں جعلی تصاویر، پرانی ویڈیوز کو نئے واقعات سے جوڑنا، اور من گھڑت اعداد و شمار شامل ہیں۔
جذباتی زبان کا استعمال (Emotive Language):
ہیڈلائنز اور خبروں میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جو خوف، غصہ، نفرت یا انتہا پسندی جیسے منفی یابنیاد پرستی،حب الوطنی،مزاحمت جیسے مثبت جذبات کو اس قدر ابھاریںکہ سنبھالنا مشکل ہوجائے ۔ مثلاً ً:جارحیت، ظلم، سازش۔بربریت۔فرقہ واریت وغیرہ!
کلک بیٹ (Clickbait):
سنسنی خیز ہیڈلائنز کے ذریعے قارئین کو متوجہ کرنا، چاہے خبر کا مواد کمزور ہی کیوں نہ ہو۔جیسے:روس-یوکرین جنگ (2022-تا حال)یہ جنگ جدید میڈیا وار کی سب سے بڑی مثال ہے۔اس کو ہم ذرا تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
یوکرین نے مغربی میڈیا اور اپنے سرکاری نیوز پورٹلز (مثلاً Ukrinform) کے ذریعے خود کو ایک ایسے مظلوم، بہادر اور جمہوری ملک کے طور پر پیش کیا ہے،جو ایک ظالم حملہ آور کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ صدر زیلنسکی کی روزانہ کی ویڈیو اپ ڈیٹس اور سوشل میڈیا کا استعمال اس حکمت عملی کا اہم حصہ رہاہے ۔
روس نے اپنے سرکاری نیوز پورٹلز (جیسے RT اور Sputnik) کے ذریعے اس جنگ کو خصوصی فوجی آپریشن قرار دیا جس کا مقصد یوکرین کو نازیوںسے پاک کرنا اور روسی بولنے والوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ روس نے مغربی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کو پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
اس کانتیجہ یہ نکلا کہ دونوں فریقوں نے نیوز پورٹلز کو اپنے اپنے بیانیے کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے کامیابی سے استعمال کیا، جس کی وجہ سے دنیا واضح طور پر دو کیمپوں میں تقسیم نظر آئی۔
2 میوزک، فلم، ڈرامے (Soft Power)
تفریح، میڈیا وار کا سب سے لطیف (Subtle) اور گہرا اثر ڈالنے والا ہتھیار ہے۔ فلمیں، ڈرامے اور موسیقی براہ راست پروپیگنڈا نہیں کرتے، بلکہ ثقافتی اقدار، نظریات اور ایک خاص طرزِ زندگی کو پرکشش بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اسے سافٹ پاورکہتے ہیں۔فلم اور ڈرامے کےکرداروں، کہانیوں اور ماحول کے ذریعے کسی ملک یا نظریے کی مثبت یا منفی تصویر کشی کی جاتی ہے۔گانوں کے ذریعے قومی تفاخر، مزاحمت یا کسی خاص سماجی پیغام کو فروغ دیا جاتا ہے۔مثلا:
ً:سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد، ہالی وُوڈ نے امریکی اقدار،جمہوریت، انفرادی آزادی، اور امریکن ڈریم کو دنیا بھر میں فروغ دیا۔ فلموں جیسے Top Gun (1986) نے امریکی فوج کو بہادر اور ٹیکنالوجی میں برتر دکھایا۔Rocky IV (1985) میں ایک امریکی باکسر کا سوویت یونین کےمشینی باکسر کو ہرانا ایک واضح سیاسی استعارہ تھا۔ان فلموں نے دنیا بھر کے نوجوانوں کے ذہنوں میں امریکہ کی ایک ناقابلِ شکست اور پرکشش تصویر بنائی، جو کسی بھی فوجی پریڈ یا سیاسی تقریر سے زیادہ مؤثر تھی۔
دوسری مثال:ترکی کے تاریخی ڈرامے ہیں۔ترکی نے اپنے ڈراموں، خاص طور پر ارطغرل غازی (Diriliş: Ertuğrul) اور کورولوش: عثمان(Kuruluş: Osman) کے ذریعے مسلم دنیا میں اپنی سافٹ پاور کو بے پناہ وسعت دی ہے۔ ان ڈراموں نے مسلمانوں کو ان کے شان دار ماضی، اسلامی اقدار، انصاف اور بہادری کی یاد دلا کر ایک متبادل ثقافتی بیانیہ فراہم کیا۔جس کااثر یہ ہوا کہ پاکستان، مشرقِ وسطیٰ اور بلقان کی ریاستوں میں ان ڈراموں نے ترکی کو مسلم دنیا کے ایک ثقافتی اور سیاسی لیڈر کے طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ ہالی وُوڈ اور بالی وُوڈ کے ثقافتی اثر کا مقابلہ کرنے کی ایک کامیاب کوشش ثابت ہوئی۔(اگرچہ جواز اور عدم جواز کے حوالے سے اس پر بات کی جاسکتی ہے،تاہم اس کے اثرات سے انکار ممکن نہیں۔)
3 صحافتی تجزیے، رپورٹس، اور کتابیں: دانشورانہ جنگ کا محاذ:
یہ میڈیا وار کا سب سے گہرا اور دیرپا اثر رکھنے والا ہتھیار ہے۔ جہاں نیوز پورٹلز فوری ردعمل پیدا کرتے ہیں، وہیں تجزیے، تحقیقی رپورٹس اور کتابیں پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم اور دانشور طبقے کی رائے پر اثر انداز ہو کر بیانیے کو دانشورانہ جواز (Intellectual Legitimacy) فراہم کرتی ہیں۔تھنک ٹینکس (Think Tanks)نامی افراداور ادارے مخصوص موضوعات پر تحقیقی رپورٹس شائع کرتے ہیں، جو اکثر کسی خاص سیاسی یا معاشی ایجنڈے کو فروغ دیتی ہیں۔اسی طرح کتابیں کسی واقعے یا نظریے کی تفصیلی اور جامع تشریح پیش کرتی ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک مستند حوالے کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔مشہور صحافی اور تجزیہ کار اپنے کالموں کے ذریعے عوامی رائے کو ایک خاص سمت میں موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔مثال کے طور پر:Clash of Civilizations" اور اسلاموفوبیاکانظریہ ۔یہ نظریہ:1993 میں امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ سیموئل پی ہنٹنگٹن (Samuel P. Huntington)نے Clash of civillization کے عنوان سے ایک مضمون میں پیش کیا، بعد میں اسی نام سے انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی۔ اس میں انھوں نے دلیل دی کہ سرد جنگ کے بعد دنیا میں،خاص طور پر مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان تنازعات کی بنیاد نظریاتی نہیں، بلکہ تہذیبی ہوگی۔نائن الیون (9/11) کے بعد اس کتاب کو مغرب میں بہت زیادہ مقبولیت ملی۔ اس نے اسلام اور مسلمانوں کو مغرب کے لیے ایک خطرے کے طور پر پیش کرنے والے بیانیے کو دانشورانہ بنیاد فراہم کی۔ اس نظریے نے وار آن ٹیرر(War on Terror) کی پالیسیوں کو جواز بخشا اور عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ کتاب آج بھی خارجہ پالیسی کے حلقوں میں زیرِ بحث رہتی ہے اور اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔(وار آن ٹیرر کے بارے میں آپ کو پہلے بتایا جاچکاہے،اسے تازہ کرلیں۔)
حاصل کلام:
یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ:
میڈیا صرف معلومات کی ترسیل کا ذریعہ نہیں، بلکہ طاقت کے حصول اور استعمال کا ایک اہم میدان ہے۔نیوز پورٹلز رائے عامہ کو فوری طور پر متحرک کرتے ہیں۔فلم اور موسیقی لاشعوری طور پر ذہنوں کو فتح کرتے ہیں۔کتابیں اور تجزیے بیانیے کو علمی اور اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ان ہتھیاروں کو پہچانیں، ان کا تنقیدی جائزہ لیں اور سچ کو سامنے لانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کریں۔
یاد رکھیں! آج کے دور میں ایک خبر، ایک فلم،ایک ڈاکومنٹری،ایک کالم،ایک تجزیہ یا ایک کتاب کسی ایٹم بم سے زیادہ طاقت ور ثابت ہو سکتی ہے۔ 
Dr.M.Jahan Yaqoob
About the Author: Dr.M.Jahan Yaqoob Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.