سدابہار خبریں
(shahid mehmood, Bhara kahu, islamabad)
| پاکستان میں کچھ خبریں سدا بہار ہوتی ہیں جیسے 1970ء کے اخبارات دیکھیں تو اس وقت بھی چینی کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی کی خبریں چل رہی تھیں، اگر 20 سال پہلے کے اخبارات دیکھیں تو مہنگی بجلی اور لوڈ شیدنگ کی باتیں اس وقت بھی عروج پر تھیں۔ اگر 2007 کی خبریں دیکھیں تو ملک میں آٹا ناپید ہو رہا تھا اور قیمتیں بہت زیادہ تھیں، 2010 کے ارد گرد کے اخبارات میں خود کش حملے اور چینی کی قلت کی خبریں دیکھنے کو ملتی تھیں، 2011 کے اخبارات کی سرخیاں سوئی گیس کی بندش اور سی این جی سٹیشنز کے باہر کھڑی گاڑیوں کی لمبی لائنوں کی تصاویر سے بھری ملتی تھیں، اس کے بعد ابھی تک وہی سدا بہار خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں |
|
|
شاہدمحمود |
|
پاکستان میں اس وقت مہنگائی میں اضافے میں سب سے اہم کردار بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کا ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پچھلے دور حکومت یا اس سے پچھلے دور حکومت میں بجلی سستی تھی تو کسی حد تک تو وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن مکمل حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں، کیونکہ پاکستان میں کچھ خبریں سدا بہار ہوتی ہیں جیسے 1970ء کے اخبارات دیکھیں تو اس وقت بھی چینی کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی کی خبریں چل رہی تھیں، اگر 20 سال پہلے کے اخبارات دیکھیں تو مہنگی بجلی اور لوڈ شیدنگ کی باتیں اس وقت بھی عروج پر تھیں۔ اگر 2007 کی خبریں دیکھیں تو ملک میں آٹا ناپید ہو رہا تھا اور قیمتیں بہت زیادہ تھیں، 2010 کے ارد گرد کے اخبارات میں خود کش حملے اور چینی کی قلت کی خبریں دیکھنے کو ملتی تھیں، 2011 کے اخبارات کی سرخیاں سوئی گیس کی بندش اور سی این جی سٹیشنز کے باہر کھڑی گاڑیوں کی لمبی لائنوں کی تصاویر سے بھری ملتی تھیں، اس کے بعد ابھی تک وہی سدا بہار خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ لمبی تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پیارے قارئین، اخبارات کا زمانہ گزر گیا پھر ٹی وی کی دور آیا اور اب ہم ایک نئے ڈیجیٹل سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہو چکے ہیں، لیکن ہماری یاداشت بھی کمزور ہے اور حقائق سے بھی نظریں چراتے ہیں، جوں جوں وقت گزر رہا ہے ہر چیز پہلے کی نسبت مہنگی ہوتی جا رہی ہے لیکن بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات ایسی چیزیں ہیں جن کی قیمتوں میں اضافہ ملک کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ آپ میں سے اکثر لوگوں کو پتا ہو گا کہ مندرجہ بالا اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ قدرتی اور عالمی سطح پر کم لیکن اس میں مصنوعی اضافہ زیادہ ہے اور اس میں تمام سیاسی پارٹیاں جو حکومت کر چکی ہیں یا حکومتوں کی اتحادی رہی ہیں وہ برابر کی شریک ہیں اگر کوئی کہتا ہے کہ ہم اس ظلم میں شریک نہیں تو وہ صرف آپ کو بے وقوف بنا رہا ہے، بہت طویل موضوع ہے جس پر کئی سال پہلے بھی ایک سلسلہ وار کالم ”خدارا صبر کریں“ لکھ چکا ہوں۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس وزراء، ججز، اعلیٰ فوجی افسران، سرکاری ملازمین میں ریوڑیوں کی طرح تقسیم کی جاتی ہیں جیسے اس ملک کا کوئی بھی والی وارث نہیں۔ یہاں پر میں آپ کو فری بجلی کے یونٹس کی تعداد بتاؤں گا تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے ہمارے ملک کو لوٹ کر کھایا جا رہا ہے اور اس کا سارا بوجھ ایک غریب بندہ برداشت کرتا ہے۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق بجلی کے مختلف اداروں (ڈسکوز، جینکوز، واپڈا، این ٹی ڈی سی) وغیرہ کے ملازمین کو گریڈ کے مطابق 300 سے 1300 تک بجلی کے فری یونٹس تقسیم کیے جاتے ہیں جن کی ماہانہ تعداد تقریباََ 3 لاکھ سے زیادہ بنتی ہے اور ان کی قیمت ایک کروڑ بیس لاکھ ماہانہ بنتی ہے، اور جن کو فری یونٹس نہیں ملتے ان کو اتنی ہی یونٹس کے برابر الاؤنس دیا جاتا ہے، جب کی بجلی بنانے والی کئی کمپنیوں کا ریکارڈ ہی نہیں مل سکا کہ ان کے ملازمین کتنی یونٹس فری استعمال کرتے ہیں، اسی طرح وزراء مشیران، عدلیہ کے اعلیٰ ارکان، پاک فوج کے افسران وغیرہ کو بھی بے شمار یونٹس بجلی فری ملتی ہے یا پھر الاؤنس دیا جاتا ہے، اب اس کا بوجھ بھی عام بندہ ہی برداشت کرتا ہے۔ یہی حالات پٹرولیم سیکٹر کے بھی ہیں حکومتی وزراء کے پاس ہائیبرڈ گاڑیاں پھر ان کی سیکیورٹی اور پروٹوکول کی لاتعداد گاڑیاں، ججز، اراکین اسمبلی کی سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیوں میں جو پٹرول، ڈیزل استعمال ہوتا ہے اس کا بوجھ بھی غریب کی کمر پر ہی لادا جاتا ہے، اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے اراکین بھی ان تمام مندرجہ بالا سہولیات سے بھرپور استفادہ حاصل کر رہے ہیں، پنجاب اسمبلی نے مکمل طور پر، بلوچستان اسمبلی نے 50 فیصد،سندھ اسمبلی نے ان اخراجات میں 40 فیصد جبکہ خیبر پختونخواہ اسمبلی نے 35 فیصد تک کمی کی ہے لیکن یہ پچاس، ساٹھ اور 65 فیصد سہولت تمام صوبائی و قومی اسمبلی کے ”غریب اراکین“ کو عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر دی جا رہی ہے اس کو مکمل ختم ہونا چاہیے، اگر ایک پرائیویٹ یا سرکاری 30 سے 50 ہزار تک تنخواہ لینے والا ملازم بجلی بھی پیسوں کی استعمال کرتا ہے اور پٹرولیم یا گیس کی مصنوعات پر بھی اس کو کوئی رعایت نہیں ہے تو لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے کیسے اس کے مستحق ٹھہرے؟ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے صرف ان کے بہتر اور ایماندارانہ استعمال کے لیے حکمرانوں کی کمی ہے، آج اور آج سے پہلے چند ایک کو چھوڑ کر جتنے بھی حکمران آئے کوئی بھی عوام کا خیر خواہ نہیں تھا، بلکہ عوام جن کو اپنا خیر خواہ سمجھتی رہی وہ صرف ان کے پارٹی لیڈر تھے ملکی لیڈر نہیں تھے، کیونکہ پارٹی لیڈر کے ہر کام میں سیاسی ورکر کو اپنی خیر خواہی نظر آتی ہے جب کہ وہ کام صرف پارٹی اور پارٹی رہنماوؤں کے مفاد میں ہوتے ہیں ملکی مفاد میں کام نہیں کیے جاتے ورنہ آج ہمارے ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔ کچھ حکمرانوں نے گنے چنے چند کام اچھے بھی کیے لیکن وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر تھے، اب حکمران عوام پاکستان اور ملک پاکستان پر رحم کھائیں تو بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور سلیب سسٹم پر نظر ثانی فرمائیں، قیمتوں پر سبسڈی دینے کا احسان نہ فرمائیں بلکہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے باقی آئی پی پیز سے طویل مدتی معاہدے ختم کریں،پانچویں سکیل سے اوپر ملازمین کو فری بجلی یا اس کے پیسے تقسیم کرنا بند کریں کیونکہ جیسے عام عوام بل ادا کرتے ہیں وہ بھی اپنی تنخواہوں سے بل ادا کریں، قدرتی گیس کے مزید ذخائر تلاش کیے جائیں اور گیس کی قیمتوں میں کمی لائی جائے تا کہ عوام کے حالات بہتر ہو جائیں، اگر عوام خوشحال ہوئی تو ملک بھی ترقی کرے گا اور آپ کی سیاست بھی زندہ رہے گی، کالم لکھتے ہوئے خبر سنی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں فی لیٹر پٹرول پر 96 روپے 28 پیسے اور ایک لیٹر ڈیزل کی قیمت میں 94 روپے 92 پیسے مختلف ٹیکسوں کی مد میں لیے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سبسڈی دے رہے ہیں۔ اس پر پھر سہی۔۔۔۔۔۔ |
|