بے یقینی کا زہر
(Ali Abbas Kazmi, Roopwal, Chakwal)
| قوموں اور افراد کی اصل طاقت وسائل نہیں بلکہ یقین ہے۔ بے یقینی اور خوف فیصلے کمزور اور معاشرہ زوال پذیر بنا دیتے ہیں، جبکہ اجتماعی اعتماد ترقی اور جدوجہد کی بنیاد ہے۔ پاکستان سمیت مشرقی قومیں نفسیاتی دباؤ سے گزر رہی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اعتماد اور یقین کو دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ مستقبل روشن ہو۔ |
|
|
بے یقینی کا زہر علی عباس کاظمی، چکوال
دنیا میں ہر انسان اپنے حالات، تجربات اور ماحول کے مطابق اپنی حقیقتیں گھڑتا رہتا ہے، سچ اسی کے لیے سچ بنتا ہے جو اس کی فہم اور اس کے حالات سے میل کھاتا ہے، اسی لیے دو افراد ایک ہی بات کو مختلف زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں، مگر اس تمام فکری تنوع کے باوجود ایک ایسی حقیقت ہے جس پر پوری انسانیت متفق ہے۔۔۔موت۔ یہ وہ واحد سچ ہے جس سے انکار ممکن نہیں، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسان موت کی یقینی حقیقت کے باوجود جینے کی امید نہیں چھوڑتا۔ اس کے اندر ایک حیاتیاتی، نفسیاتی اور روحانی نظام موجود ہے جو اسے مسلسل یہ یقین دلاتا ہے کہ زندگی آگے بڑھانی ہے، مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے اور حالات جیسے بھی ہوں امید کا دامن نہیں چھوڑنا۔ یہی یقین انسان کو موت کے خوف سے لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے اور یہی یقین تاریخ میں اُن معجزوں کا محرک بنتا ہے جنہیں بعد میں دنیا ’’ناممکن کا ممکن ہو جانا‘‘ کہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی معاشرے محض معیشت یا اسلحے پر نہیں بلکہ نفسیاتی یقین پر قائم رہتے ہیں،یقین وہ محرک ہے جو فرد کو عمل پر آمادہ کرتا ہے، قوموں کو قوت دیتا ہے اور ریاستی ڈھانچوں کو مضبوط رکھتا ہے، اسی لیے جب یقین کمزور ہو جائے تو بہترین وسائل بھی ناکام ہونے لگتے ہیں اور جب یقین قائم رہے تو کمزور قومیں بھی بڑے کارنامے سرانجام دیتی ہیں۔ یہی اصول کسان، سپاہی اور سیاستدان پر یکساں لاگو ہوتا ہے کیونکہ جس لمحے بے یقینی کسی پر غالب آ جائے، عمل رک جاتا ہے، فیصلے کمزور پڑ جاتے ہیں اور معاشرہ زوال کا شکار ہونے لگتا ہے۔ کسان بیج اس لیے بوتا ہے کہ اسے فصل کی امید ہوتی ہے، سپاہی اس وقت تک لڑتا ہے جب تک اسے حقانیت اور فتح پر یقین ہوتا ہے اور سیاستدان یا صنعتکار اسی وقت ملک میں سرمایہ رکھتے ہیں جب ان کے دل میں مستقبل محفوظ دکھائی دیتا ہے ورنہ بے یقینی انہیں اپنا سرمایہ باہر منتقل کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، نتیجتاً ملک کمزور اور بیرونی طاقتیں مضبوط ہوتی جاتی ہیں۔ اگر یہی بے یقینی عوام کے دل میں گھر کر جائے تو ریاستیں ٹینکوں یا میزائلوں سے نہیں بلکہ ٹوٹے ہوئے اعتماد سے گرتی ہیں۔ مشرق اور مغرب کے فکری فرق کو بھی اسی زاویے سے سمجھا جا سکتا ہے،مشرق صدیوں سے یقین کی تہذیب ہے،یقین ۔۔۔خدا، غیب، تقدیر اور الہامی ہدایات پر۔۔۔اور یہ یقین اس کے معاشرتی رویّوں اور نفسیاتی تشکیل کا حصہ ہےجبکہ مغرب نے علم کی بنیاد شک پر رکھی جس نے اسے سائنسی ترقی تو دی لیکن ہر حقیقت کو مشاہدے اور تجربے کی قید میں بھی مقید کر دیا۔ مشرق کا یقین اسے جذباتی طور پر مضبوط کرتا ہے مگر بعض اوقات سوال کی گنجائش محدود کر دیتا ہے، جبکہ مغرب کا شک اسے ترقی دیتا ہے مگر روحانی خلا بھی پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق کے یقین کو کمزور کرنے کی کوششیں مسلسل جاری رہتی ہیں، کیونکہ معاشی اور سیاسی طور پر طاقتور قوتوں کے لیے مشرق کا خود اعتمادی کی حالت میں رہنا نقصان دہ ہے۔بے یقینی انسان کی فیصلہ سازی کو مفلوج کر دیتی ہے اور یہی ذہنی غلامی قوموں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ عالمی بینکاری نظام کی مثال سامنے ہے جو تبھی مضبوط رہتا ہے جب مشرق کے صنعتکار اور سیاستدان اپنا سرمایہ مغرب میں محفوظ سمجھ کر جمع کرتے ہیںجیسا کہ ایران کے انقلاب کے بعد ہوا جہاں اربوں ڈالر آج تک مغربی بینکوں میں پڑے ہیں اور “رازداری” کے قوانین کی آڑ میں ایران کے لیے ناقابلِ رسائی ہیں۔ پاکستان بھی طویل عرصے سے اسی نفسیاتی جنگ سے گزر رہا ہے۔ آج اگرچہ معاشی مشکلات اور سیاسی انتشار کے باعث خوف اور بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے، مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہی قوم کبھی اس مقام پر تھی کہ انگریز کے دور میں چپڑاسی کی ملازمت تک اس سے چھین لی جاتی تھی اور آج وہ ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر، تعلیم اور سماجی ترقی کے کئی میدانوں میں 1947ء کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔۔۔اور یہ سب کچھ یقین، اجتماعی ارادے اور عزم سے حاصل ہوا۔ سوال یہ ہے کہ آج یہی قوم مستقبل سے کیوں خوفزدہ ہے؟ کیا مسائل واقعی اتنے بڑے ہیں یا ہمیں ذہنی طور پر کمزور رکھنے کی کوشش زیادہ کامیاب ہو رہی ہے؟ اصل بحران یہ ہے کہ ایک طرف معاشی مشکلات حقیقی ہیں مگر دوسری طرف مسلسل یہ ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ہم ناکام ہو چکے ہیں، ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، ہمارے پاس کوئی امید نہیں۔۔۔اور نفسیاتی اعتبار سے یہ وہ ردِعمل ہے جس میں خوف آہستہ آہستہ ذہن کا مستقل حصہ بن جاتا ہے، یعنی وہ حالت جس میں انسان کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اسے یقین دلا دیا جاتا ہے کہ کوشش بھی بے فائدہ ہے۔ قوموں کی اصل طاقت ان کی معیشت، اسلحہ یا بڑے منصوبے نہیں بلکہ ان کا اجتماعی یقین ہوتا ہے۔قوموں کی ترقی کا راز اجتماعی اعتماد میں ہے، اور انہی قوموں کا زوال اسی وقت شروع ہوتا ہے جب یہی اعتماد کمزور پڑ جائے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ یقین کو دوبارہ زندہ کیا جائے، کیونکہ یقین کوئی جذباتی نعرہ نہیں بلکہ وہ اجتماعی نفسیاتی قوت ہے جو فیصلہ سازی کو مضبوط کرتی ہے، جدوجہد کو قائم رکھتی ہے اور مستقبل کی راہیں کھولتی ہے۔ اگر ہم اپنے ماضی سے سیکھیں، اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کریں اور اپنے مستقبل پر اعتماد بحال رکھیں تو بے یقینی کی دھند چھٹ سکتی ہے، مگر اگر ہم یقین کھو دیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں سہارا نہیں دے سکتی۔
|
|