چین کی نئی معاشی راہیں
(SHAHID AFRAZ KHAN, Beijing)
|
چین کی نئی معاشی راہیں تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
اس وقت دنیا تیزی سے تکنیکی انقلاب اور صنعتی تبدیلی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے، اور اس عالمی تغیر کے مرکز میں چین اپنی جدت، تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایک نئے معاشی ماڈل کی تشکیل کر رہا ہے۔ ’’ورلڈ فیکٹری‘‘ سے ٹیکنالوجی کے مرکز تک کا سفر محض صنعتی ترقی کا بیانیہ نہیں بلکہ ایک ایسے ملک کی داستان ہے جس نے سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری، جدید پیداواری قوتوں کی تخلیق، اور اعلیٰ معیار کی اقتصادی توسیع کے ذریعے نئی راہیں متعین کی ہیں۔
پندرہویں پنج سالہ منصوبے کی ترجیحات ،خصوصاً ’’نئے معیار کی پیداواری قوتوں‘‘ اور ’’اختراعی ترقی‘‘نے چین کی مستقبل بینی کو مزید واضح کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیبارٹریوں سے نکلنے والی جدتیں آج بڑے صنعتی منصوبوں، خلائی مشنز، اور اسمارٹ مینوفیکچرنگ کے ذریعے عملی قوت میں تبدیل ہو رہی ہیں، جو نہ صرف چین کی معیشت کے لیے نئی رفتار فراہم کر رہی ہیں بلکہ عالمی تکنیکی منظرنامے پر بھی گہرا اثر ڈال رہی ہیں۔
حالیہ برسوں میں مقامی ضروریات کے مطابق چین میں نئی پیداواری قوتوں کے فروغ میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ رواں سال چین کی سائنسی و تکنیکی کامیابیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ کئی جدید ٹیکنالوجیز لیبارٹریوں سے نکل کر پروڈکشن لائنوں تک پہنچیں، اور جدتیں بڑی تعداد میں حقیقی پیداواری قوت میں تبدیل ہوئیں۔
چینی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ڈیپ سیک نے لارج لینگوئج ماڈلز کی بنیاد پر عالمی سطح پر تیزی سے پہچان حاصل کی۔ چین کی نئی تیز رفتار ٹرین CR450 آزمائشی مراحل میں 450 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کر چکی ہے، جبکہ اس کی متوقع تجارتی رفتار 400 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی۔ اسی سال چین کا خلائی مشن تھیان وین-2 سیارچوں سے نمونے جمع کرنے کے لیے مئی میں روانہ ہوا۔ ڈیپ سی 1 فیز ٹو منصوبہ مکمل طور پر فعال ہو گیا، جس سے سمندر کی گہرائیوں میں تیل و گیس کے ذخائر کی بڑے پیمانے پر ترقی ممکن ہو گی۔
چین کے ایکسپیریمنٹل ایڈوانسڈ سپر کنڈکٹنگ ٹوکامیک نے جنوری میں انتہائی بلند درجہ حرارت پر 1,066 سیکنڈ تک مسلسل آپریشن کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ستمبر میں ملک نے دنیا کی سب سے زیادہ گنجائش رکھنے والی سینٹری فیوج لانچ کی، جو زمین کی کشش کے 300 گنا دباؤ پر 20 ٹن تک وزن اٹھا سکتی ہے۔ چینی سائنس دان مربوط فوٹونک کوانٹم چپس میں بھی اہم پیش رفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چینی آٹو کمپنی گوانگ جو آٹوموبائل گروپ نے پہلی بڑی استعداد کی حامل آل سالڈ اسٹیٹ بیٹری پروڈکشن لائن مکمل کی، جس سے نئی توانائی گاڑیوں کا فاصلہ 500 کلومیٹر سے بڑھ کر 1,000 کلومیٹر تک جا پہنچا۔
چینی حکام کے مطابق 2025 نئے معیار کی پیداواری قوتوں کی ترقی کا فیصلہ کن سال ہے۔ اس عرصے میں سائنسی و تکنیکی کامیابیاں نقطہ وار ترقی سے نکل کر منظم پیش رفت میں تبدیل ہو رہی ہیں، اور جدت تیزی سے معاشی سرگرمی کی مرکزی قوت بنتی جا رہی ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے حکام بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے مؤثر استعمال کے تقریباً 50 فیصد بہترین عملی نمونے چین میں سامنے آ رہے ہیں، جو اس شعبے میں چین کی قائدانہ حیثیت کو مضبوط کرتے ہیں۔
گزشتہ پانچ برسوں میں ملک بھر میں 500,000 سے زائد ہائی ٹیک ادارے قائم ہوئے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے عالمی مراکز میں سب سے زیادہ اضافہ بھی چین میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔ نیشنل بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق چائنا انوویشن انڈیکس گزشتہ برس 5.3 فیصد اضافہ کے ساتھ 174.2 تک پہنچ گیا۔
ملک میں روایتی صنعتوں کی تکنیکی تبدیلی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بھاری صنعتوں کو ’’اسمارٹ‘‘ اور ’’گرین‘‘ ماڈلز میں ڈھالا جا رہا ہے۔ اسٹیل پروڈکشن میں مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام نصب کیا گیا ہے، جس سے پیداواری لاگت میں 15 فیصد اور فضلے کے اخراج میں 21 فیصد کمی آئی۔ اس وقت ملک میں تقریباً 10,000 اسمارٹ ورکشاپس اور فیکٹریاں کام کر رہی ہیں، جن میں سے 400 کو قومی سطح کے نمونہ کارخانوں کا درجہ حاصل ہے۔
مجموعی طور پر، چین کی تیز رفتار تکنیکی پیش رفت اور نئی معیاری پیداواری قوتوں کا فروغ ایک ایسے معاشی ماڈل کو جنم دے رہا ہے جو جدت، پائیداری، کارکردگی اور اعلیٰ معیار کے اصولوں پر قائم ہے۔ مصنوعی ذہانت سے لے کر جدید توانائی، خلائی تحقیق سے لے کر اسمارٹ فیکٹریوں تک ،ہر شعبے میں ہونے والی پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ چین مستقبل کی عالمی معیشت میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
جدید سائنسی اہداف، مضبوط پالیسی معاونت، بڑے پیمانے پر تحقیقی سرمایہ کاری اور وسیع صنعتی بنیاد مل کر ایک ایسا ماحول تشکیل دے رہے ہیں جہاں اختراع معاشی توانائی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ’’نئے معیار کی پیداواری قوتیں‘‘ اب صرف ایک نظری تصور نہیں بلکہ عملی حقیقت بن چکی ہیں، جو چین کو نہ صرف آنے والی دہائی بلکہ طویل مدت تک عالمی ترقی کے اہم محرکات میں شامل رکھیں گی۔ یہی وہ پیش رفت ہے جو چین کو نئے صنعتی دور میں ایک مستحکم، بااعتماد اور قائدانہ حیثیت عطا کرتی ہے۔
|
|