چین کا آئندہ دہائی کا سفر
(SHAHID AFRAZ KHAN, Beijing)
|
چین کا آئندہ دہائی کا سفر تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
اکتوبر 2025 کے اواخر میں بیجنگ میں منعقد ہونے والے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی بیسویں مرکزی کمیٹی کے چوتھے کل رکنی اجلاس کے بعد پندرہویں پانچ سالہ منصوبے (2026 تا 2030) سے متعلق سفارشات جاری کی گئیں، جن میں سائنسی اور تکنیکی خود انحصاری کو نمایاں اور فیصلہ کن ہدف قرار دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف چین کی آئندہ پانچ برسوں کی ترقی کی سمت متعین کرتا ہے بلکہ عالمی معاشی منظرنامے میں چین کے کردار کو بھی نئی جہت دیتا ہے۔ چین کے پانچ سالہ منصوبے طویل عرصے سے ملکی معیشت، سماجی ترقی اور پالیسی ترجیحات کے لیے رہنما دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کے اثرات سرمایہ کاری، اصلاحات اور ترقیاتی حکمت عملیوں میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں میں چین کی منصوبہ بندی بتدریج تیز رفتار اور وسیع صنعتی ترقی سے نکل کر اعلیٰ معیار، پائیداری اور ٹیکنالوجی پر مبنی ترقی کی جانب منتقل ہوئی ہے۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پندرہواں پانچ سالہ منصوبہ اسی تبدیلی کو مزید گہرا کرے گا، جہاں توجہ محض پیداوار بڑھانے کے بجائے پیداواری صلاحیت، کارکردگی اور جدید نظام کی بہتری پر مرکوز ہو گی۔ اس نئے مرحلے میں مصنوعی ذہانت کو بنیادی ڈھانچے کی حیثیت دینا، صنعتی ماحولیاتی نظام کو مضبوط بنانا اور مقامی سطح پر دانشمندانہ صنعتی بجٹ ترتیب دینا مرکزی نکات سمجھے جا رہے ہیں۔
یہ حکمت عملی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی معیشت کو کم ہوتے سرمایہ کاری منافع، آبادیاتی دباؤ اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ چین کی پالیسی میں تسلسل بدستور برقرار رہے گا، تاہم بدلتے حالات کے مطابق حکمت عملی میں ردوبدل کرتے ہوئے ٹیکنالوجی میں خود کفالت اور معاشی تحفظ کو مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔
آئندہ منصوبے میں چین کی توجہ ابھرتی ہوئی تزویراتی صنعتوں پر مرکوز رہے گی، جن میں مصنوعی ذہانت، سیمی کنڈکٹرز، سبز توانائی، جدید مینوفیکچرنگ اور بائیو ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ سپلائی چین میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایک نئے نوعیت کے قومی نظام کے استعمال کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، تاکہ اعلیٰ درجے کی چِپس، حساس پرزہ جات اور اہم خام مواد میں خود انحصاری حاصل کی جا سکے۔ یہ طریقہ کار نہ صرف جغرافیائی سیاسی خطرات کو کم کرتا ہے بلکہ بنیادی تحقیق اور عملی اطلاق کے امتزاج کے ذریعے پائیدار جدت کو فروغ دیتا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کے وسیع اطلاق کو معیشت کے حقیقی شعبوں تک پھیلانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ صنعت، رسد، صحت اور صارف خدمات جیسے شعبوں میں اے آئی کے استعمال سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور آبادیاتی دباؤ کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چین کا منفرد ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام، جہاں سپر ایپس اور اے آئی پر مبنی حل تیزی سے اپنائے جا رہے ہیں، اس عمل کو مزید تقویت دیتا ہے۔
چین کی موجودہ پیش رفت اس مضبوط بنیاد پر قائم ہے جو گزشتہ برسوں میں مارکیٹ پر مبنی اصلاحات، عالمی انضمام اور عملی تجربات کے ذریعے استوار کی گئی۔ صنعتی پالیسیوں نے عملی علم اور مہارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں چین نے جدید ٹیکنالوجی کو تیزی سے سیکھ کر مقامی حالات کے مطابق اپنایا۔ بڑے پیمانے کی پیداوار، جامع سپلائی چین اور تربیت یافتہ افرادی قوت نے ابھرتی ہوئی صنعتوں کے فروغ کے لیے مضبوط سہارا فراہم کیا۔
مینوفیکچرنگ کے شعبے میں چین آج بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور عالمی مینوفیکچرنگ ویلیو ایڈیشن میں اس کا حصہ تقریباً 30 فیصد ہے۔ کم لاگت اور محنت کش صنعت سے نکل کر چین اب برقی گاڑیوں، بیٹری ٹیکنالوجی اور روبوٹکس جیسے اعلیٰ قدر والے شعبوں میں عالمی قیادت کر رہا ہے۔ نئی توانائی کی گاڑیوں کی تیز رفتار ترقی، صنعتی خودکاری اور روبوٹکس میں بڑھتی ہوئی مقامی پیداوار اس تبدیلی کی واضح مثالیں ہیں۔
ابھرتے ہوئے شعبوں میں چین کی پیش رفت بھی قابلِ ذکر ہے۔ مصنوعی ذہانت کے میدان میں بیرونی پابندیوں کے باوجود چین نے الگورتھم کی بہتری، اوپن سورس ماڈلز اور عملی اطلاق کے ذریعے مضبوط ماحولیاتی نظام قائم کیا ہے۔ روبوٹکس میں چین نہ صرف سب سے بڑی منڈی ہے بلکہ آئندہ نسل کے روبوٹس کی جدت کا اہم مرکز بھی بنتا جا رہا ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی چین عالمی سطح پر تیزی سے اپنا مقام بنا رہا ہے۔
ماضی کے پانچ سالہ منصوبوں میں تزویراتی صنعتوں کے ساتھ روایتی شعبوں کی جدید کاری کو یکجا رکھا گیا، جبکہ آئندہ مرحلے میں مصنوعی ذہانت کو اس تبدیلی کی مرکزی قوت بنایا جا رہا ہے۔ ڈیٹا سینٹرز، سبز توانائی اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری مستقبل کی ڈیجیٹل معیشت کے لیے بنیاد فراہم کر رہی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پندرہواں پانچ سالہ منصوبہ چین کی ترقی کے اس نئے مرحلے کی عکاسی کرتا ہے جہاں مقدار کے بجائے معیار، رفتار کے بجائے پائیداری اور جدت کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ نہ صرف چین کی داخلی معاشی مضبوطی کا ذریعہ بنے گا بلکہ عالمی معیشت میں ٹیکنالوجی پر مبنی تعاون اور استحکام کے لیے بھی ایک اہم حوالہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چین کی یہ سمت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ مستقبل کی ترقی علم، تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں، اور اسی حقیقت کو بنیاد بنا کر چین آئندہ دہائی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ |
|