تہذیبی ورثے کا تحفظ

تہذیبی ورثے کا تحفظ
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

پانچ ہزار برس سے زائد پر محیط تہذیبی تاریخ رکھنے والا چین اپنے ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک منظم، جامع اور مستقبل بین حکمتِ عملی پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔ مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچے، جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال، عوامی ثقافتی خدمات کے فروغ اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے چین نہ صرف اپنے تاریخی ورثے کو محفوظ بنا رہا ہے بلکہ اسے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک زندہ اور متحرک اثاثے میں بھی تبدیل کر رہا ہے۔

2021 سے 2025 کے دوران چین کے چار اہم ثقافتی مقامات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا، جن میں بیجنگ کا تاریخی مرکزی محور، یوننان کے جِنگ مائی پہاڑ کے قدیم چائے کے جنگلات، گیارہویں سے تیرہویں صدی کے مغربی شیا شاہی مقبرے، اور قدیم بحری تجارتی مرکز چھوان جو شامل ہیں۔ اس اضافے کے بعد چین میں عالمی ثقافتی ورثے مقامات کی تعداد 60 ہو گئی ہے، جس کے ساتھ وہ دنیا میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے، جبکہ اٹلی 61 مقامات کے ساتھ سرفہرست ہے۔

چین کی قومی ثقافتی ورثہ انتظامیہ کے مطابق مزید مقامات کو عالمی فہرست میں شامل کرانے کے لیے کام جاری ہے۔ ان میں جیانگ شی کے شہر جِنگ دہ ژن کی ہاتھ سے تیار کردہ چینی مٹی کے برتنوں کی صنعت، سچوان میں سان شِنگ دُوئی اور جِن شا کے آثارِ قدیمہ، دریائے یانگسی کے جنوب میں واقع قدیم آبی قصبات، اور بحری شاہراہِ ریشم سے وابستہ مقامات شامل ہیں۔

عالمی ورثے کی فہرست میں توسیع دراصل چین میں ثقافتی ورثے کے تحفظ کے حوالے سے بڑھتے ہوئے قومی عزم کی عکاس ہے۔ آئندہ پانچ سالہ ترقیاتی مدت (2026-2030) کے لیے چین نے ثقافتی ورثے کے تحفظ کو مزید منظم انداز میں آگے بڑھانے اور اسے یکساں نگرانی و جانچ کے نظام کے تحت لانے کی تجویز دی ہے۔ یہ حکمتِ عملی گزشتہ برسوں کی اصلاحات کا تسلسل ہے، جس کے تحت صرف ہنگامی مرمت کے بجائے بچاؤ اور احتیاطی تحفظ کو یکجا کرتے ہوئے ثقافتی آثار کے بامعنی استعمال پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے قانونی سطح پر بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ چین میں ثقافتی آثار کے تحفظ سے متعلق ایک جامع قانونی نظام قائم کیا جا چکا ہے، جس کی بنیاد ثقافتی آثار کے تحفظ کے قانون پر ہے اور جسے متعدد انتظامی، وزارتی اور مقامی ضوابط کی حمایت حاصل ہے۔ رواں برس مارچ میں اس قانون میں ترمیم نافذ کی گئی، جس میں تحفظ کو اولین ترجیح دینے، انتظامی نظم مضبوط بنانے اور ثقافتی ورثے کی سماجی قدر کو اجاگر کرنے کے اصولوں کی توثیق کی گئی۔

ٹیکنالوجی نے بھی ثقافتی ورثے کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ، ڈرون کے ذریعے فضائی سروے اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ڈیٹا تجزیے نے تاریخی مقامات کی مسلسل نگرانی کو ممکن بنا دیا ہے، جس سے خطرات کی بروقت نشاندہی اور تدارک ممکن ہو رہا ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے عوامی رسائی میں بھی انقلاب آیا ہے۔ مثال کے طور پر صوبہ حہ نان کے لونگ مِن غاروں میں بدھ مت کے مجسموں کی تفصیلی ڈیجیٹل دستاویزات تیار کی گئی ہیں، جبکہ دون ہوانگ کے موگاؤ غاروں کی اعلیٰ معیار کی تصاویر جاری کر کے دنیا بھر کے افراد کو ورچوئل دورے کی سہولت دی گئی ہے۔

عوامی ثقافتی خدمات کے فروغ نے بھی ثقافتی ورثے کو زیادہ قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ چین بھر میں سات ہزار سے زائد عجائب گھر فعال ہیں، جن میں سے 91 فیصد سے زیادہ میں داخلہ مفت ہے، اور سالانہ تقریباً ڈیڑھ ارب افراد ان کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ 65 قومی آثارِ قدیمہ پارکس اور 200 سے زائد موضوعاتی ثقافتی سیاحتی راہداریاں قائم کی گئی ہیں، جن کے ذریعے شہری اور دیہی علاقوں کو مشترکہ تاریخی ورثے سے جوڑا گیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر چین نے ثقافتی ورثے کے تحفظ میں تعاون کو بھی وسعت دی ہے۔ ایشیا میں ثقافتی ورثے کے لیے بین الحکومتی اتحاد کے قیام میں چین نے قائدانہ کردار ادا کیا، جبکہ ثقافتی تحفظ سے متعلق عالمی معیار سازی کے ادارے میں بھی سرگرم شمولیت اختیار کی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں چینی ماہرین نے چار ممالک میں تحفظ و بحالی کے منصوبے مکمل کیے اور 28 ممالک کے ساتھ مشترکہ آثارِ قدیمہ کے درجنوں منصوبے شروع کیے گئے۔

اسی عرصے کے دوران بیرونِ ملک سے گمشدہ ثقافتی نوادرات کی واپسی میں بھی قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل ہوئیں، اور مجموعی طور پر 537 تاریخی اشیا اور فن پارے چین واپس لائے گئے۔

مجموعی طور پر چین کا تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ثقافتی ورثے کا تحفظ محض ماضی کی یادگاروں کو محفوظ رکھنے کا عمل نہیں، بلکہ یہ قومی شناخت، سماجی شعور، سائنسی جدت اور عالمی ذمہ داری کا مربوط اظہار ہے۔مضبوط اداروں، جدید ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج کے ذریعے چین نہ صرف اپنے تہذیبی اثاثوں کی حفاظت کر رہا ہے بلکہ عالمی ثقافتی ورثے کے تحفظ میں بھی ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1726 Articles with 988906 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More