پاکستانی بھی بہت عجیب قوم ہیں۔
جو کچھ ہم کماتے ہیں اُس کا نِصف سے زیادہ کھانے پینے پر اُڑا دیتے ہیں۔
اور چونکہ آمدنی زیادہ ہے نہیں اِس لیے اِتنا کچھ بچتا ہی نہیں کہ ہم سوچیں
کہ اِس کا کیا کریں!
ابھی کل کی بات ہے۔ ہم صدر سے گزرے تو سوچا لگے ہاتھوں کچھ خریداری ہی
کرلیں۔ قریبی ذرائع جانتے ہیں کہ ہم کھانے پینے کی اشیاءخریدنے ہی کو
خریداری میں شُمار کرتے ہیں! اِس اعتبار سے صدر بہت ظالم علاقہ ہے کیونکہ
ہم وہاں سے روز گزرتے ہیں اور روز ہی رُکنا پڑتا ہے! ڈیری پروڈکٹس کی ایک
دُکان پر رُک کر ہم نے اصلی گھی کے دام پوچھے۔ پہلے تو دُکاندار نے ہمیں
سَر سے پیر تک گھور کر دیکھا جیسے ہم صدر کے بجائے مویشی منڈی میں کھڑے ہوں!
پھر دُکان سے ایک ملازم باہر آیا اور گھوم پھر کر ہمارے وجود کا جائزہ لیا۔
ہمیں غصہ بھی بہت آیا اور حیرت بھی ہوئی۔ غصہ اِس بات پر کہ وہ پتہ نہیں
ہمیں کیا سمجھ رہے تھے۔ اور حیرت اِس بات پر کہ کوئی ہمیں اِس قدر انہماک
سے کبھی کبھار ہی دیکھتا ہے! کالج کے زمانے میں تو حسرت ہی رہ گئی کہ کوئی
ہمارا جائزہ اور زائچہ لے۔ خیر، جو زمانہ گزر ہی چکا ہے اب اُسے یاد کرکے
جی کو جلانا کیا! ہم نے دُکاندار سے پوچھا بھائی اِس قدر گھور کر کیوں دیکھ
رہے ہو؟ کیا کوئی انوکھی چیز مانگ لی ہے؟ یا ہم انوکھے ہوگئے ہیں؟
دُکاندار نے ہنستے ہوئے کہا ”آج کل دیسی گھی کھانے کا موسم اِنسانوں کے لیے
نہیں۔“
ہم نے حیرت سے پوچھا تو پھر کِس کے لیے ہے؟
دُکاندار نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا ”جناب! آج کل دیسی گھی پر صرف
قربانی کے جانورں کا حق ہے۔ ہمارا 90 فیصد اسٹاک مویشی منڈی کے وی آئی پی
بلاک والے لے گئے ہیں۔ اب دیسی گھی وہ کھا سکتا ہے جس کا نام شہنشاہ،
بادشاہ، بھولا، کالو، ببلو، طوفان، بادل، دبنگ، چلبل پانڈے وغیرہ ہو اور
قیمت لاکھوں میں ہو۔“
یہ وضاحتی بیان سُن کر ہماری تو سِٹّی گم ہوگئی۔ اچھا ہوا کہ ہم نے اپنے
علاقے میں کہیں دیسی گھی خریدنے کی کوشش نہیں کی ورنہ جان پہچان والے ہمیں
پتہ نہیں کِس فارم کا سمجھتے!
میڈیا والوں میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ بال کی کھال نکالنے کے معاملے میں
یہ وکیلوں سے بھی دو چار ہاتھ آگے ہیں۔ وکلاءقانون سے چاہے جتنی کِھلواڑ
کریں، قانون ہی کی آڑ لیتے ہیں۔ میڈیا والے اپنے قوانین خود وضع کرلیتے ہیں!
میڈیا والوں کو اِس بات کی زیادہ فکر اور پروا نہیں کہ اِنسان کیا کھا رہے
ہیں، سیلاب زدگان بے چارے کس طور پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں۔ اگر تجسس ہے تو
بس اِس بات کا کہ قربانی کے جانوروں کی اوجھڑی میں کیا انڈیلا جارہا ہے!
جانور سبز چارا، سُوکھی گھاس، چنے، دالیں اور چوکر ہی تو کھاتے ہیں۔ یہ
کوئی ایسا معاملہ تو ہے نہیں کہ تحقیق اور تفتیش کی جائے۔ مگر جب میڈیا کے
طفیل ہمیں قربانی کے جانوروں کی خوراک کا علم ہوا تو ہم نے دِل اور سَر
دونوں کو مضبوطی سے تھام لیا۔ اور کر بھی کیا سکتے تھے؟
جس طرح سینیٹ یا قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد باہر آنے والے سیاست
دانوں کو میڈیا والے پارلیمنٹ ہاؤس کے کونے میں بنے چَھجّے کے نیچے گھیر
لیتے ہیں اُسی طرح مویشی منڈی میں بھی میڈیا والے ہر تگڑے مویشی پر نظر
رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کھا رہا ہو تو فوٹیج بنائی جاتی ہے، جگالی کر رہا ہو
توفوٹیج بنائی جاتی ہے۔ اِسی طور اگر مویشیوں کی مالش کی جارہی ہو تو میڈیا
والے فوراً متوجہ ہوتے ہیں! جب صورت حال یہ ہو تو ہر بیل سیلیبریٹی کا درجہ
کیوں نہ پائے!
جب ہم نے سُہراب گوٹھ کی منڈی میں وی آئی پی بلاک کے مویشی دیکھے تو یقین
آگیا کہ طبقاتی کشمکش صرف اِنسانوں کی پیدا کردہ نہیں۔ مویشی منڈی میں
تیسری دنیا کے عوام۔۔۔ معاف کیجیے گا، جانور نارمل چارا چر رہے تھے۔ پیروں
میں کنگن، نہ گلے میں ہار اور نہ ہی سینگوں کی سجاوٹ کا اہتمام۔ اُنہیں
پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ دوسری طرف وی آئی پی بلاک کے شامیانے میں بندھے
تگڑے اور نخریلے بیل اور بچھیائیں بہترین مال اُڑا رہی تھیں۔ اُن کی خدمت
پر کئی افراد مامور دکھائی دیئے۔ یہ لوگ مویشیوں کو خوراک دیتے ہیں، اُنہیں
نہلاتے اور چہل قدمی کراتے ہیں۔ ایسی خدمت تو اب لوگ اپنے ماں باپ کی بھی
کم کم کرتے ہیں! ماں باپ پیر دبانے کے لیے بُلائیں تو جان جاتی ہے اور
آسٹریلین نسل کے پہاڑ جیسے بیل کی مالِش کرنے میں موت نہیں آتی!
کل تک بزرگ ہم سے کہا کرتے تھے میاں! ذہن کو تیز کرنا ہے تو بادام کھایا
کرو۔ کِسی کا مشورہ یہ ہوتا تھا کہ ہمیں انجیر کھانے چاہئیں۔ کوئی دودھ
پینے پر زور دیتا تھا۔ لیجیے، اب ہم اِن تمام چیزوں سے گئے۔ قربانی کے
جانور کچھ چھوڑیں گے تو ہم کھائیں گے، پئیں گے نا! ڈرائی فروٹ کے نرخ ویسے
ہی اِس قدر تھے کہ سُن کر خون خُشک ہو جایا کرتا ہے۔ دیسی گھی میں اب اُتنی
جان نہیں جتنی اُس کے نرخ میں ہے! دیسی گھی کی خوشبو ہمیں ویسے بھی پسند
نہیں تھی۔ اور جب یہ سُنا ہے کہ دیسی گھی قربانی کے جانوروں کو کِھلایا
جارہا ہے، ہمیں اِس گھی سے الرجی سی ہوگئی ہے۔ یہ نہ سمجھیے گا کہ انگور
کھٹّے ہیں!
اخبارات میں شائع ہونے والے مویشی منڈی کے آنکھوں دیکھے احوال نے ہمارے ذہن
کے چودہ طبق روشن کردیئے ہیں۔ اب تک تو ہم یہ سمجھتے آئے تھے کہ دیسی گھی،
مکھن، بادام، پستے وغیرہ صرف پہلوان کھایا کرتے ہیں۔ پہلوانوں کی قابل رشک
صحت دیکھ کر ہم بھی کبھی کبھی یہ تمام اشیاءچَکھنے کا سوچا کرتے کہ چلو،
اِس بہانے شہیدوں میں نام لِکھوا لیں تاکہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں کہ اُن
کے خاندان میں بھی کِسی نے دیسی گھی، مکھن، بادام، پستے وغیرہ کھائے تھے!
مگر صاحب! قربانی کے مویشی ہم سے یہ ممکنہ اعزاز بھی لے اُڑے! اب ہم یہ
تمام مُقَوّی چیزیں اِس خوف سے نہیں کھا سکتے کہ کہیں ہمیں بھی قربانی کی
غرض سے پالا ہوا نہ سمجھ لیا جائے! بہت سے معاملات میں قربانی کے بکرے تو
ہم پہلے ہی سے ہیں مگر قربانی کا بیل سمجھے جانے سے رہی سہی آبرو بھی ذبح
ہو جائے گی!
ویسے دیسی گھی، بادام پستے اور مکھن وغیرہ پہلوانوں کے ساتھ ساتھ قربانی کے
جانور بھی کھائیں تو صورت حال میں کچھ خاص فرق واقع نہیں ہوتا۔ قربانی کے
جانور بھی اب ذبیحے سے زیادہ دنگل ہی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں! |