چنڈال چوکڑی

ملک کے طول و عرض میںجلسہ ، جلوسوں اور ریلیوں کا موسم شروع ہو چکا ۔ گویا الیکشن کا سمے آن پہنچا۔نواز لیگ نے بڑی ریلی نکالی تو کوئی معرکہ سرانجام نہیں دیا کہ ملک کے ساٹھ فیصد حصّے پر اُن کی حکومت ہے۔ایم۔کیو۔ایم نے چھتیس گھنٹوں کے اندر بڑی ریلی نکال کر ثابت کر دیا کہ کراچی پر ان کا ”رعب “ ابھی تک برقرار ہے ۔یہ ریلی جناب آصف زرداری کی حمایت میں نکالی گئی جو آج کل پی۔پی۔پی سمیت اپنی خوشدامن محترمہ نصرت بھٹو مرحومہ کے سوگ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ شر پسند یہ بھی کہتے ہیں کہ پی۔پی۔پی کی ”مادرِ جمہوریت“ سولہ سال تک ”کومے“ میں رہیں اور خاندان میں کسی نے ان کی خبر نہ لی۔یہاں تک کہ وقتِ دمِ واپسیں ان کے سرہانے کوئی اپنا نہ تھا۔لاشوں پہ سیاست کرنے والی پی۔پی۔پی کو شاید آمدہ الیکشن میں ایک اور ”لاش“ کی اشد ضرورت تھی جو محترمہ نصرت بھٹو کی شکل میں مل گئی۔بات کہیں اور نکل گئی ،میں دراصل یہ عرض کرنا چاہتی تھی کہ حکومت میں رہ کر یا حکومتی مشینری استعمال کرکے جلسے ، جلوس اور ریلیاں نکالنا کوئی بڑی بات نہیں۔بڑی بات مگر عمران خاں نے کی ہے کہ مینارِ پاکستان پر ایک متاثر کن جلسہ کر ڈالا۔ آئی۔ایس۔آئی کے مطابق تعداد ستّر ہزار تھی شاید اس سے بھی زیادہ ہو لیکن تعداد کی کمی بیشی سے قطعِ نظر جلسے میں حاضرین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔بِلا شبہ تحریکِ انصاف کے کارکنان کی گزشتہ دو ماہ سے کی جانے والی کوششیں اور کاوشیں ثمر آور ہوئیں اور عمران خاں کو خود ان کی توقع سے کہیں بڑھ کر پزیرائی ملی۔

محترم عمران خاں نے تقریر سے تقریباََ ڈیڑھ گھنٹہ قبل یہ کہا کہ وہ ایک ایسا اعلان کرنے والے ہیں جس سے ”انقلاب“ آ جائے گا ۔ہم انقلاب کی نوید سننے کے لئے بیتاب ہو گئے ۔ کھانا پینا چھوڑ کر ٹی۔وی پر نظریں جمائے بیٹھے رہے لیکن ”نویدِ انقلاب“ کو کان ترستے ہی رہے اور تقریر ختم۔عمران خاں چین تشریف لے گئے۔شاید چینی وزیرِ اعظم سے مشورے کے بعد وہ شہزاد رائے کے ترانوں کی گونج میں وہ اعلان فرمائیں ۔میری بیٹی کہتی تھی کہ ”ماما“ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ جلسے میں شہزاد رائے نے بھی آنا ہے تو میں بھی چلی جاتی کہ کنسرٹ کا کنسرٹ اور مستقبل کے وزیرِ اعظم کی جھلک مفت میں۔بہر حال یہ طے ہے کہ عمران خاں نے اپنی پوری تقریر میں کوئی نئی بات نہیں کی ۔وہی گھسی پٹی مہنگائی ، کرپشن،بدعنوانی،اور امریکہ ۔ویسے آفرین ہے ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر کہ جو رائی کا پہاڑ بنانے میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں ۔میڈیا نے ذوالفقار مرزا کی ”قُرآنی پریس کانفرنس“ کی طرح اس جلسے کی بھی بھر پور ”لائیو کوریج“ کرکے وہ کمال دکھایا کہ تقریباََ تمام سقّہ لکھاریوں کو جلسے کی تعریف کرتے ہی بن پڑی ۔میں یہاں وضاحت کر دوں کہ بخُدا میں عمران خاں کی ہر گز مخالف نہیں ہوں بلکہ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ عمران خاں جو کچھ کہتے ہیں اس کا حرف حرف سچ ہے اور ان کی آواز ہر غیرت مند پاکستانی کی آواز ہے میں ہزار بار لعنت بھیجتی ہوں ایسے لکھاریوں پر جو جان بوجھ کر کسی کی مدح سرائی کرتے ہیں یا محض خُبثِ باطن کی بنا پر مخالفت۔مانا کہ عمران خاں نے ایک بڑا متاثر کن جلسہ کیا لیکن ہم نے اس سے کہیں بڑے جلسے بھی دیکھے ہیں ۔بھٹو کے دور میں جبکہ ملک کی آبادی آج سے آدھی بھی نہیں تھی اورعوام ان عذابوں میں بھی مبتلا نہیں تھے جن میں آج ہیں تب بھی بھٹو کے جلسے اس سے کہیں بڑے اور حیران کن حد تک جذباتی ہوتے تھے۔ 1986 ء میں محترمہ بینظیر شہید کا والہانہ استقبال اور منٹو پارک میں جلسہ کسی کو بھولا نہیں ہو گا ۔ غا لباََ 1974 ء یا 1975 ء میں جب سیّد مودودی ؒ کافی عرصہ بعد امریکہ سے علاج کروا کر لوٹے تو ان کے قافلے کا ایک سرا ایئر پورٹ اور دوسرا اچھرہ ان کے گھر تک پہنچ چکا تھا ۔ 1970 ء کی جماعتِ اسلامی کے ”شوکتِ اسلام“ کے جلسے اور جلوس کو آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔دور مت جائیے ابھی چند دن پہلے اسلامی جمیعت طلبہ کا اجتماع انتہائی متاثر کن تھا اور تحقیق کہ اگر خُدا میڈیا کو اس اجتماع کی ”لائیو کوریج“ کی توفیق دیتا تو ان جوانوں کی تعداد عمران خاں کے جوانوں سے کسی بھی صورت میں کم نہ تھی۔تو پھر کیا جماعتِ اسلامی بھی یہ اعلان کر دے کہ اس اجتماع کے بعد ان کی ستّر سیٹیں تو پکّی ہو گئیں اور ایسے دو تین اجتماعات کے بعد 272 ء بھی ہو جائیں گی ؟۔ میرے ایک انتہائی محترم بزرگ لکھاری، جنہیں عمران خاں سے والہانہ عشق ہے ،نے فرمایا ہے کہ ”پانی پت کی تیسری لڑائی جیتی جا چکی ہے“ جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں لڑائی تو بہت دور کی بات ہے ، ابھی تو ”ہراول دستے“ بھی آمنے سامنے نہیں آئے ۔ان کی ایسی ”بڑھکیں “ کہیں آنے والے وقتوں میں انہیں ”پانی پانی“ نہ کر دیں۔وہ 30/40 سے 70 سیٹوں تک پہنچ گئے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ 370 تک کب پہنچتے ہیں؟ ۔ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے 270 ہی لکھا ہو لیکن کاتب کی غلطی سے صرف 70 رہ گیا ہو ۔وہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ ”وہ نئی نسلوں کے جلو میں بھڑکتی مشعل اُٹھائے آ پہنچا ہے کہ اس دیارمیں روشنی ہو۔محمد علی جناح کے بعد جو کرن کرن کو ترس گئی تھی“ ۔ شاید میرے بزرگ لکھاری کا حافظہ بہت کمزور ہے وگرنہ وہ عمران خاں کو قائدِ اعظم ثانی ثابت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے کہ قائدِ اعظم کے بعد لیاقت علی خاں بھی تھے اور ہزار اختلافات کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو بھی اور عمران خاں تو ابھی نباضِ وقت ذوالفقار علی بھٹو کی گردِ پا کو بھی نہیں پہنچے ۔اگر میرے محترم لکھاری عمران خاں سے واقعی مخلص ہیں تو خُدا را انہیں بانس پر چڑھانا بند کر دیں اور یہ کام قاف لیگ ، پی۔پی۔پی اور ان کے زرخرید لکھاریوں تک رہنے دیں جو پہلے ہی بطریقِ احسن یہ ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیںتاکہ ”دائیں بازو“ کے ووٹروں کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرکے پی۔پی۔پی کے لئے ایک دفعہ پھر میدان ہوار کر دیں۔

محترم لکھاری نے اپنے کالموں میں عمران خاں اور ان کے ووٹروں کو ”پندو نصائح“ کی بھرمار کرکے سر سیّد احمد خاں ثانی ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ان کا لکھا سر آنکھوں پر لیکن عالم وہی اچھّا جوعامل بھی ہو ۔وہ خود تو نرگسیت کے شکار ہیں جو یہ کہتے ہیں ”فیصلہ یہ کہ اتوار کو ٹی۔وی سے گریز۔پیر کو بارہ بجے تک پانچ دعوت نامے مل چکے تھے مگر گریز۔ چنڈال چوکڑی والے فارغ ہو چکیں تو عرض ہم بھی کریں“ اللہ کرے کہ پانچ نہیں ، پانچ سو دعوت نامے ملیں لیکن جس ”پیر“ کا وہ ذکر کر رہے تھے اسی پیر کو ایک ٹی۔وی چینل پر میں نے خود انہیں ”احسن اقبال“ پر گرجتے برستے اور انہیں لتاڑتے دیکھا جس کا احسن اقبال نے گلہ بھی کیا۔۔۔۔۔ اور ہاں ۔۔۔۔ یہ ”چنڈال چوکڑی“ ؟ ۔۔۔۔ غالباََ چنڈال چوکڑی کا مطلب فسادیوں ، کمینوں ، اور بد ذاتوں کا گروہ ہوتا ہے ۔ قُر آن و حدیث کے بغیر لقمہ نہ توڑنے والے محترم صحافی کیا یہ بھول گئے کہ ربِّ کردگار تو مشرکین کے بتوں کو بھی برا نہ کہنے کا حکم دیتا ہے ۔ تحقیق کہ اگر یہی ”چنڈال چوکڑی“ بد زبانی اور بد کلامی پر اتر آئی تو آپ اور آپ کے مدوح کو بھاگتے راہ نہیں ملے گی ۔اس لئے ایک نصیحت میں بھی کر دوں کہ ”نادان دوست“ کا کردار ادا کرنا بند کر دیجئے کہ اگر آپ ایسے ہی گرجتے برستے رہے تو آپ کا تو کچھ نہیں بگڑے گا لیکن آپ کا کپتان ضرور غیروں کی گُگلی کا شکار ہو جائے گا۔ ۔۔۔۔ اور چلتے چلتے انتہائی معذرت کہ میرا یہ مزاج نہیں لیکن پتہ نہیں کیوں میں بھی گرج برس گئی۔۔۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 866 Articles with 560714 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More