پہلے بھارت کا پاکستان کو پھر پاکستان کا
بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا فیصلہ
پاکستان بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے سکتاہے تو پھر اسرائیل سے متعلق....
موجودہ عوامی اور جمہوری حکومت نے تین ، ساڑھے تین سالوں میں سوائے چندایک
کے جتنے بھی کام کئے ہیں سب کے سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے انوکھے ہیں جن
کے فوائدبراہ راست تو عوام تک نہیں پہنچ سکے ہیںمگراِن کے نقصانات کی زد
میں عوام فوراََ سے بیشتر آگئے ہیں جن کی ایک ، دومثالیں ہوتیں تو پیش کی
جاتیں مگر یہاں تو مثالوں کے پہاڑ وں کی ایسے لمبی چوڑی لائین موجود ہے اگر
ہم اِنہیں یہاں بیان کرنے بیٹھ جائیں تو یہ سلسلہ ختم ہی نہ ہو مگر سمجھنے
کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم آپ سے بس یہی کہیں کہ جو مثال آپ کو یاد ہو
اِ س کو دُہراکر آپ خود اندازہ کرلیجئے کہ موجودہ حکومت نے کیا کیا کام کس
انداز سے کئے ہیں کہ اِس کی تعریف نہیں کی جاسکتی ہے اَب اِسی کو ہی دیکھ
لیجئے کہ جیسے گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کاہونے والا وہ اجلاس جو وزیر اعظم
یوسف رضاگیلانی کی زیرصدارت منعقد ہواجس میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط
بڑھانے اور دیگرمعاملات کے حوالے سے اِسے پسندیدہ ملک قرار دینے کی منظوری
دی گئی اِس حکومتی فیصلے سے مہنگائی ، کرپشن اور بنیادی سہولتوں سے عاری
پاکستانی عوام کو کیافائدہ ہوگا اِس کا تو کچھ پتہ نہیں مگر یہاں ہم یہ
بتاتے چلیں کہ بھارت اپنے عوام کو براہ راست فائدے پہنچانے کے خاطر پاکستان
کوتجارتی اعتبار سے پہلے ہی پسندیدہ ملک قرار دے چکاہے اوراَبحکومت پاکستان
نے بھی یہ فیصلہ کسی بیرونی طاقت کے دباؤ میں آئے بغیرخطے میں دائمی امن
اور استحکام کے جذبوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے عوام کوپہنچائے جانے
والے فوائد سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات کے خاطر بھارت کوبھی پسندیدہ ملک
قرار دے دیاہے تاکہ بھارتی حکمرانوں، سیاستدانوں، عوام اور تاجر برادری میں
کسی حد تک پاکستان مخالف پایا جانے والا نفرت کا جذبہ کم کیاجاسکے اور
بھارتی افواج پر چڑھا جنگی جنون بھی ختم ہوسکے ہم سمجھتے ہیں کہ حکمرانِ
پاکستان نے تو بھارت کی ہر غلطی اور خطاکو درگرز سے کام لیتے ہوئے اِس کی
پاکستان کو پسندیدہ ملک قراردینے کی صرف ایک اچھی پیشکش کے جواب میں اِسے
بھی خطے کا ایک پسندیدہ ملک اِس لئے قراردے دیاہے کہ اِن کے اِس عمل سے
جہاں اِنہیں کچھ سیاسی اور معاشی فائدے حاصل ہوں گے تو وہیں بھارتیوں میں
بھی اپنائیت کا جذبہ بیدار ہوگاتو ساتھ ہی ہمیں بھی اپنے دلوں میں بھارتیوں
کے لئے نیک جذبات کو پروان چڑھائے کا موقع ملے گااور اِس کے ساتھ ہی اپنے
اِس فیصلے پر حکومت پاکستان بھارتی حکمرانوں سے بھی پُرامید ہے کہ وہ بھی
ہمارے اِس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ہماری طرح دوقدم آگے بڑھ
کر ہمارے اِس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے خطے میں امن وامان کے استحکام
اور دونوںممالک (پاک بھارت)کے درمیان سیاسی، اخلاقی، معاشی واقتصادی ،
ثقافتی وتجارتی اور دیگر معاملات میں روابط کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں
بھی اپنااپنا مثبت اور تعمیری کام کریں گے جس کے لئے حکومت پاکستان نے پہل
کرتے ہوئے اپنے قومی واقتصادی بالخصوص اسٹرٹیجک مفادات بشمول کشمیر کے
معاملے پر اصولی موقف کو مدِّنظررکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارتی حجم
2ارب60کروڑ ڈالرسے بڑھاکر6ارب ڈالرکرنے کا فیصلہ کرکے بھارت کو قریب کرنے
اور ہاتھ ملاکر شانہ بشانہ چلنے کی زبردست پیشکش کردی ہے اِس کے جواب میں
اَب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکمران، سیاست دان، اپوزیشن لیڈر، اتنہاپسندی
ہندؤ تنظیم کے رہنمابال ٹھاکرے،بھارتی افواج، ایک ارب بیس کروڑ بھارتی عوام
اور تاجربرادری پاکستان کے اِ س خیرمقدمی اقدام کا کیاجواب دیتے ہیں....؟
اِبھی ہم اپنے اِس سوال کے جواب میں گم ہی تھے کہ ایک خبر نے ہمارے اِس
سوال کا تفصیلی جواب کچھ اِس طرح دے دیاکہ ہم یہ سوچتے رہ گئے کہ پاکستان
بھارت کے لئے کچھ بھی کرڈالے مگر بھارتیوں کی خصلت کبھی نہیں بدلے گی اِس
کا اندازہ ہمیں تب ہواجب ایک برطانوی عدالت سے کرکٹ کرپشن اسکینڈل میں تین
پاکستانی کھلاڑیوںسلمان بٹ، محمدآصف اور محمدعامر کو دی جانے والی سزا کو
بنیاد بناکر برطانوی میڈیا کی طرح بھارتی میڈیا نے بھی پاکستان کے خلاف
اپنی بھرپورشرانگیز پروپیگنڈامہم کچھ اِس طرح سے شروع کردی کہ ایسالگاکہ
شائد بھارت یہ بھول گیاکہ ابھی ایک روز قبل ہی تو پاکستان نے اِسے پسندیدہ
ملک قراردیاتھا اور یہ بھارت ہے کہ اِس نے برطانوی عدالت سے پاکستانی
کرکٹرز کو سزائیں سُنائے جانے کے بعد برطانوی میڈیا کی طرح اپنے یہاںبھی
اِس خبر کو سنسنی خیز بناکر اِسے یوں بریکنگ نیوز کے طور پر جاری کیاکہ
جیسے بھارتی میڈیا پہلے سے ہی اِس انتظار میں تھا کہ جیسے ہی پاکستانی
کرکٹرز کے خلاف اِس کی توقعات اور مرضی کے مطابق فیصلہ سامنے آئے تو یہ
پاکستان اور پاکستانی کرکٹرز کے خلاف اپنی منفی اور من گھڑت پروپیگنڈامہم
ایک برطانوی میڈیاہی کے طرز کی نہیں بلکہ اِس معاملے کو ساری دنیا کے میڈیا
سے ہٹ کر انتہائی جدیداور منفرد انداز سے کچھ یوں پیش کرے گا کہ ہر طرف
بھارت اور ہندوستانی میڈیا کی واہ واہ ہوجائے گی جس کے لئے ہندوستانی میڈیا
نے ایک لمحہ ضیائع کئے بغیر پاکستان اور پاکستانی کرکٹرز کے خلاف ساری دنیا
میںاپنی ایک ایسی میڈیا مہم شروع کی کہ دنیا برطانوی میڈیا کو تو بھول گئی
مگربھارتی میڈیا کواِسے یادرہا کیوں کہ اِس معاملے میں ہندوستانی میڈیا نے
تینوں پاکستانی کھلاڑیوں کی سزاؤں کو بنیاد بناکر پاکستان کے خلاف کھلم
کھلا ایسی شرانگیز جملے بازی کی جس میں صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانی
کھلاڑیوں کی تضحیک کا عنصر غالب رہا جس کی وجہ سے دنیا ہندوستانی میڈیا کو
فوقیت دینے لگی اِس منظر اور پس منظر میں یہ بات اَب واضح ہوجاتی ہے کہ
پاکستان بھارت سے متعلق خواہ کتناہی نرم گوشہ کیوں نہ رکھ لے مگر بھارت
اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان سے کسی بھی معاملے میں کوئی سمجھوتہ
کرنے کو تیار نہیں ہے اِس کی مثال آپ نے دیکھ لی کہ بھارت کوجہاں پاکستان
کو بدنام کرنے اور اِس کے وقار کو مجروح کرنے کاکوئی موقع ملااِس نے بڑھ
چڑہ کر اِس میں اپنا حصہ ڈالا اور پاکستان کو بدنام کیایہ بات شائد ہمارے
سیاسی اور ذاتی مفادپرستی کے کیچڑ میں لت پت رہنے والے ہمارے حکمرانوں ،
سیاستدانوں اور اُن دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں اُس وقت تو نہ ہو جنہوں نے
بھارت کو تجارت اور دیگر معاملات کے حوالے سے پسندیدہ ملک قرار دیاہے ۔
جبکہ اُدھر بھارتی حکمران، سیاستدان ، افواج کے سربراہان اور ہندوستانی
عوام یہ بات خوب جانتے تھے کہ جب اُنہوںنے پہلے پاکستان کو پسندیدہ ملک
قرار دیاتھاتو اِنہوں نے ساتھ ہی ساتھ اپنے مفادات اور اپنی خصلت اور جبلت
کابھی تحفظ کرلیاتھا اور اِنہیں اِس بات کا بھی پورایقین تھاکہ آج نہیں تو
کبھی نہ کبھی پاکستان بھی اِنہیں اِسی طرح پسندیدہ ملک قرار دے ہی دے گا جس
طرح اُنہوں نے اِسے پہلے پسندیدہ ملک قرار دیاتھا۔اور اِسی کے ساتھ ہی یہ
بھی حقیقت ہے کہ بھارت کی پاکستان سے متعلق چلی جانے والی ہر چال اور ہر
اٹھتے قدم کے پیچھے پہلے ہندوستانیوں کے اپنے مفادات مقدم ہوتے ہیں پھر
اِنہیں امریکیوں کی طرح کوئی اور نظر آتاہے اِس بار بھی ہندوستانیوں نے جب
پہلے پاکستان کو پسندیدہ ملک قرار دیاتھا تو اِس میں بھی ہندوستانیوں کے
اپنے عظیم سے عظیم تر مفادات پوشیدہ تھے جن کو اَب یہ کھل کر حاصل کرلیں گے
اور ہمارے حصے میں وہی لولی پاپ یا اِس کی ڈنڈی ہی آئے گی جِسے دیکھ کر ہم
روتے رہیں گے کہ اِس کا کیاکریں....؟؟یاکیانہ کریں....؟؟
جبکہ ہمارا پڑوسی اورازلی دشمن ملک ہندوستان جو ہم سے ماضی میں کئی جنگیں
لڑچکاہے اور اَب بھی جنگی جنون میں مبتلارہنے کی وجہ سے اِسی تاک میں لگا
رہتاہے کہ کوئی موقع اِس کے ہاتھ آئے تو یہ پاکستان پر چڑھ دوڑے اور اِسے
نیست تونابود کرڈالے مگر ہمارے جذبہ جہاد اور ملی یکجہتی اور اتحاد ویگانگت
کے رنگ و بو کی وجہ سے اِس میں ہمت نہیں ہوتی کہ یہ کوئی جارحانہ قدم
اٹھائے اور اِس کے ساتھ ہی اِسے ہماری ایٹمی طاقت ہونے کا احساس بھی اِس کے
حوصلے پست کردیتاہے اگر ہم میں یہ ساری خصوصیات نہ ہوتیں تو یہ کب کا ہمیں
کسی تر نوالے کی طرح ہضم کرچکاہوتا .... ایسے میں ہم نے پھربھی اِسے
پسندیدہ ملک قراردے دےا ہے تو پھرہم اِس موقع پر اپنے حکمرانوں ،
سیاستدانوں، اپوزیشن کے لیڈروں،افواج پاک کے سربراہان، مذہبی رہنماؤں اور
عوام کو بھی اپناایک یہ مشورہ ضرور دیناچاہیں گے کہ اسرائیل جس کا قصور یہی
ہے کہ اِس نے ہمارے فلسطینی بھائیوں کو نصف صدی سے بھی زائد عرصے سے اپنے
طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایاہواہے اور اِن کے علاقوں پر قبضے کرکے
یہاں اپنی ناجائز آبادیاں بسائی ہوئیں ہیں اور اِنہیں بے دردی سے قتل
کررہاہے اوراِس کی غنڈہ گردی کے پیچھے بدمعاشِ اعظم امریکا کا ہاتھ ہے جس
کی وجہ سے یہ ہمارے فلسطینی بھائیوں پر اپنے مظالم کے پہاڑڈھارہاہے اِس کے
اِن ہی کرتوتوں اورگناہوں کی وجہ سے ہی توہم اِس کو تسلیم نہیں کررہے ہیں
اور اِس سے ہر طرح کے رابطے منقطع کئے ہوئے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ بھی
حقیقت ہے اِس نے بھارت کی طرح ہم سے براہ راست کوئی جنگ بھی نہیں کی ہے اور
نہ ہی اِس نے بھارت کی طرح ہم (پاکستان) کوبدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے
جانے دیاہے مگر اِس کے باوجود بھی ہم نے اِس کی جانب سے اپنے یہاں 2005میں
آنے والے زلزلے کے متاثرین کی مددکے لئے بھیجے جانے والے امدادی سامان کو
قبول کیا اور نہ ہی اِس کے کسی خیرسگالی کے جذبے کا اچھے اندا ز سے کوئی
جواب دیا اِس صورت حال میں ہم یہ کہناچاہیں گے کہ جب ہم مسلسل اپنے حریف
ملک بھارت کی جانب سے براہ راست معاشی واقتصادی،سیاسی اور اخلاقی طورپر
پہنچائے جانے والے نقصانات کو بھلاکر اِسے پسندیدہ ملک قرار دے سکتے ہیں تو
پھر اسرائیل سے متعلق بھی کچھ سوچناہوگا تاکہ ہمارے کسی عمل سے اسرائیل کو
ندامت ہو اور وہ اِسی بناپر ہمارے فلسطینی بھائیوں پر رحم کھاجائے اور
اسرائیل اپنی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے ا نہیں آزادی دے کر دنیاکی تاریخ
میں اپنی کوئی اچھی مثال قائم کرجائے ۔مگراِن تمام باتوں کے باوجود بھی ہم
یہی کہیں گے کہ بھارت چاہئے ہم کوپسندیدہ ملک قرار کرنے میں پہل کرتاتو
کرتاہمیں بھارت کو کسی بھی حالات میں اِس انداز سے پسندیدہ ملک قرار نہیں
دیناچاہئے تھاجس طرح ہم نے اِسے بیٹھے بیٹھائے پسندیدہ ملک قرار دے کر اِس
کی شان و شوکت خطے میں خود ہی پہلے سے زیادہ بڑھادی ہے۔اَب تویہ سوچنے اور
غورکرنے کا مقام ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ہے کہ وہ اپنے اِس فیصلے
کے بعد بھارت سے ملک اور قوم کے بہتر مفادات کے حصول میں کہاںتک کامیابیاں
حاصل کرتے ہیں۔اور کہاں تک اِنہیں ناکامیاں ہوتی ہیں.....؟؟
اوراَب آخر میں ہم اپنے آج کے موضوع سے ہٹ کر چلتے چلتے اِس حوصلہ افزا خبر
کا بھی ضرورتذکرہ کرناچاہیں گے جس سے کم ازکم ہمیں تو یہ اُمیدہوچلی ہے کہ
یہ حکومت جو اَب اپنے اختتام کی جانب تیزی سے روادواں ہے اِس نے اپنی مدت
پوری کرنے سے پہلے تو کوئی ایک اچھاکام کیا ہے جس سے متعلق ہمارے وفاقی
وزیرخزانہ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ نے بڑے پُرتباک انداز سے اپناسینہ چوڑااور
گردن تان کر باآواز بلند شائد پہلی بار اِس بات کا دوٹوک الفاظ میں ملکی
اور عالمی میڈیاکے سامنے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ اَب پاکستان معاشی طور پر
ایک مستحکم ملک ہوگیاہے اِسے کسی بھی صورت میں ادائیگیوں کے توازن کو
بہتربنانے کے لئے آئی ایم ایف سے مزید قرضہ لینے کی کوئی ضرورت نہیںہے اِس
لئے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام مکمل ہوچکاہے اور اَب صرف آئی ایم ایف
سے آرٹیکل 4کے تحت مشاورت ہورہی ہے جس کے لئے ہم نے کُلی طور پر یہ تہیہ
کررکھاہے کہ اصلاحات کا عمل ہمیشہ جاری رہناچاہئے اور پاکستان خودہی وہ
اصلاحات لائیگاجو ملکی مفادمیں ہوں گی اور ہم ملک کو معاشی طورپر
مزیدمستحکم کریں گے ایسے میںہم یہی کہیں گے کہ جب ہماراملک معاشی طور پر
مستحکم ہوچکاہے تو پھر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی کیا....؟اور کیوں
ضرورت پیش آگئی تھی....؟؟ |