شکر خورے کو کہیں نہ کہیں سے شکر
مل ہی جاتی ہے۔ ٹی وی چینلز کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ علامہ اقبال نے
فرمایا تھا
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
یہ بات چینل والوں نے مضبوطی سے، بلکہ اپنے نوکیلے دانتوں سے پکڑ لی ہے! جس
طرح کسی گھر میں بچے کی ولادت کا خواجہ سراؤں کو کسی نہ کسی طور پتہ چل ہی
جاتا ہے اور وہ آ ”تِھرکتے“ ہیں، بالکل اُسی طرح کہیں بھی کچھ ہو جائے تو
چینلز والوں کو ”خفیہ نیٹ ورک“ کے ذریعے معلوم ہو ہی جاتا ہے اور وہ کیمروں
اور ڈی ایس این جیز کے ساتھ بھاگم بھاگ ”اسپاٹ“ پر پہنچ جاتے ہیں!
آپ کو یاد ہی ہوگا کہ گزشتہ سال لاہور کے چڑیا گھر سے ایک بندر بھاگ نکلا
تھا۔ عوام میں آکر جب اُس نے جنگل سے بھی بھیانک ماحول دیکھا تو جان اور
اخلاق بچانے کے لیے ایک بُلند درخت کی بُلند ترین شاخ پر جا بیٹھا۔ چار
پانچ چینلز والوں نے گاڑیاں بھیجیں اور کئی گھنٹوں تک کوریج کرکے بندر کو
سیلیبریٹی میں تبدیل کردیا!
ایک بار سکھر کے نزدیک دریائے سندھ سے ایک مگر مچھ باہر کیا نکل آیا، بے
چارے کی شامت ہی آگئی۔ چند افراد نے مل کر اُس مگر مچھ پر قابو پالیا اور
واپس دریا میں پھینکنے ہی والے تھے کہ کِسی نے ٹی وی والوں کو اطلاع دے دی۔
اب جناب مگر مچھ کو جب تک سیلیبریٹی میں تبدیل نہ کردیا جاتا اُسے واپس
دریا میں کیونکر ڈالا جاسکتا تھا؟ دیکھتے ہی دیکھتے دریا کنارے کیمروں کی
قطار لگ گئی۔ مگر مچھ بے چارا حیران اور پریشان کہ کرے تو کیا کرے اور جائے
تو کہاں جائے!
گزشتہ دنوں ہم آفس سے گھر جا رہے تھے کہ سڑک پر ایک میلہ سا لگا دیکھا۔ جسے
دیکھیے وہ مُتجسس دکھائی دے رہا تھا۔ بھیڑ تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ لوگ
کہیں جمع ہوں اور ہم بس یوں ہی آگے بڑھ جائیں، یہ بات شائستگی اور صحافت کے
تقاضوں سے میل نہیں کھاتی۔ ہم بھی رُک گئے۔ سب نیچے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
ہم سمجھے شاید سرکس والوں کی سمجھ میں بات آگئی ہے اور اب اُنہوں نے لکڑی
کے تختے جوڑ کر زمین پر موت کا کنواں بنانے کے بجائے زمین کھود کر اصلی تے
وڈا موت کا کنواں بنایا ہے! بھیڑ کو چیرتے ہوئے ہم جب ”اسپاٹ“ پر پہنچے تو
معلوم ہوا کہ خشک برساتی نالے میں گائے گرگئی ہے!
اشرف المخلوقات میں سے کوئی ہیرو اگر ہیروئن کے نشے میں چُور ہوکر نالے میں
گرے تو لوگ ”اہل زبان“ ہونے کا مُظاہرہ کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں! اور ایک
گائے کے نالے میں گرنے کو ایونٹ میں تبدیل کیا جارہا ہے! اِنسانوں کی یہ
جانور پرستی دیکھ کر ہمارے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ گائے قُربانی کے لیے
خریدی گئی تھی، اُس بے زبان کو تو ہم کیا کہتے۔ لوگوں کی عقل پر لعنت
بھیجی۔ پھر اپنی حماقت کا بھی ماتم کیا کہ ٹکٹ کے بغیر یہ میلہ دیکھنے رُکے
ہی کیوں! جی چاہا کہ لاحول پڑھ کر جائے وقوع سے غائب ہو جائیں مگر ایسا
کرنے سے اجتناب برتنا پڑا کیونکہ ٹی وی چینلز کی گاڑیاں وہاں پہنچ چکی
تھیں! چند ہی لمحات میں ہمیں معلوم ہوگیا کہ ہماری طرح اور بھی کئی
شرفاءجائے وقوع سے جانا چاہتے تھے مگر چینلز والوں کی آمد کا سُن کر رُک
گئے تھے!
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق گائے کے نالے میں گرنے سے مفت میں
کمپنی کی مشہوری ہوگئی۔ یعنی علاقے کے بھاگ جاگ اٹھے، چینلز والوں نے
گاڑیاں بھیج دیں۔ ناظرین گائے کے ساتھ ساتھ نالے اور علاقے کی حالت سے بھی
واقف ہوگئے! کچھ ہی دیر میں یہ ہوا کہ چینلز والے لوگوں سے گائے کے بارے
میں رائے لے رہے تھے۔ چینلز والوں کی مہربانی ہے کہ گائے کو بخش دیا ورنہ
اُس سے بھی تاثرات لیے جاسکتے تھے!
ایک زمانہ تھا کہ جب کوئی لڑکی گھر سے بھاگ جاتی تھی تو محلے، بلکہ علاقے
والے ہفتوں اِس ایونٹ کو ”ڈِسکس“ کرتے رہتے تھے اور چہ مگوئیوں کا بازار
گرم رہتا تھا۔ یہ گویا غیبت خور خواتین کے لیے شکر خورے کو شکر ملنے والا
معاملہ ہی تھا! اب گھر سے لڑکیوں کے بھاگنے کو لوگوں نے توجہ کے قابل
سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ ہاں، قربانی کا جانور رَسّی چُھڑا یا تڑا کر بھاگ نکلے
تو علاقے میں کہرام مچ جاتا ہے! جانور جتنا مہنگا ہو، کہرام اُسی قدر زیادہ
مَچتا ہے! جس طرح قُربانی کے جانور کو منڈی سے گھر تک لانا ایک باضابطہ
رَسم کی شکل اختیار کرگیا ہے بالکل اُسی طرح بھاگے ہوئے جانور کو پکڑ کر
گھر واپس لانا بھی اب ایونٹ سے کم نہیں! ٹارگٹ کِلرز کی گرفتاری کے لیے
ٹیمیں تشکیل دینا تاخیر کا شِکار ہوسکتا ہے، گائے یا بیل کے معاملے میں
ایسی تاخیر کی گنجائش نہیں! جس طرح قُربانی کے جانور کی خریداری میں مدد
دینے والے جہاں دیدہ افراد کی ایک الگ ہی شناخت ہے، بالکل اُسی طرح قُربانی
کے بھاگے ہوئے جانور کو پکڑ کر لانے والے جوانوں کی بھی نرالی شان ہے!
بھاگے ہوئے جانور کو پکڑ کر لانے کے معاملے میں اِن کا جوش و خروش قابل دید
ہوتا ہے۔ کل کو اگر آپ کی گلی میں چینلز کی گاڑیاں کھڑی ہوں تو سمجھ لیجیے
گا کہ کسی بھاگی ہوئی گائے کو کان پکڑ کر واپس لانے کے عمل کو سیلیبریٹ کیا
جا رہا ہے!
آج کل تو یہ کام فی سبیل اللہ کیا جا رہا ہے، کل کو ہوسکتا ہے کہ اِس کام
کے لیے بھی باضابطہ ادارے معرض وجود میں آ جائیں۔ پھر یہ ہوگا کہ قُربانی
کی گائے نالے میں گرے تو لوگ ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ کیٹل مینیجمنٹ سروس
والوں کو بھی فون کریں گے! کیٹل مینیجمنٹ سروس والوں کے ساتھ ماہر نفسیات
بھی ہوسکتا ہے جو یہ بتائے کہ جانور کو نفسیاتی پیچیدگی سے بچانے کے لیے
نالے سے کِس طرح نِکالا جائے! یہی ماہرین ہمیں یہ بھی بتائیں کہ قُربانی کے
جانور کو کِس طور گھمائیں، پھرائیں کہ اُن کے لیے رَسّی تُڑاکر بھاگنا ممکن
نہ رہے۔ مغرب میں کنسلٹنٹس یعنی ماہروں اور مشیروں نے ہر معاملے کو مشاورت
کے موقع میں تبدیل کردیا ہے۔ مغرب کی تقلید میں ہم بھی ایسا کر گزریں تو
کچھ حیرت کی بات نہ ہوگی! |