تھائی لینڈ کے ویزے کے حصول
کیلئے میرے صحافی دوست نے مجھے ہدایت کی کہ اپنے اکائونٹ میں کچھ رقم رکھ
لو تاکہ جس وقت سٹیٹمنٹ کی ضرورت ہو تو اس میں کچھ رقم موجودہوں اور
سفارتخانے والے تمھیں کنگلا نہ سمجھیں-میں نے بھی یہ سن کر دوستوں سے قرض
لینا شروع کردی تاکہ کم از کم تھائی لینڈ سفارتخانے والے کنگلا نہ سمجھیں
ورنہ اس سے تو میری بڑی بے عزتی ہوجاتی خیر میرے دوست بھی میرے طرح کنگلے
ہی تھے دس بیس ہزار روپے بھی ایسے احسان کرکے دے رہے تھے جیسے لاکھوں روپے
دے رہے ہوں لیکن میں نے ان سے رقم لیکر بینک اکائونٹ میں جمع کروادی تاکہ
بینک بیلنس ظاہر ہو-
میرے صحافی دوست اس وقت ایک ٹی وی چینل میں سکرپٹ رائٹر تھے اور اسلام آباد
میں رہائش پذیر تھے جب میں نے اسے کہا کہ میں نے ویزے کیلئے اپلائی کرنا ہے
تو اس نے کہاکہ میں نے بھی اپلائی کرنا ہے ساتھ ویزے کیلئے اپلائی کرتے ہیں
- میں خوش ہوگیا کہ چلو ایک سے دو بھلے-
اسی دوست کے کہنے پر انٹرنیٹ سے تھائی ویزہ کیلئے ویزہ فارم ڈائون لوڈ
کردئیے جو بہت سوچ سمجھ کر اور ڈر ڈر کر پر کردئیے جیسے میں امریکی صدر سے
ملاقات کیلئے درخواست دے رہا ہوں حالانکہ اس سے قبل کتنے امتحانات دئیے
کبھی اتنا ڈر ڈر کے امتحا ن کے فارم بھی پر نہیں کئے اس وقت میرے صحافی
دوست جمشید خان اپنے گھر آئے ہوئے تھے اس نے مجھے کہا کہ پیر کے دن میں نے
واپس ڈیوٹی پر جانا ہے تو ساتھ چلتے ہیں ویزہ فارم بھی جمع کرلینگے اور میں
پھر دفتر چلا جائونگا اور تم اپنے گھر واپس آجانا - اسلام آباد جانے کا
پروگرام بنا لیا ساتھ یہ منصوبہ بندی بھی کرلی کہ وقت پر نکلنا ہے تاکہ لیٹ
نہ ہوں -
پیر کی صبح چھ بجے میں نے اپنے دوست کو فون کیا کہ اٹھ جائو اور تیاری پکڑو
لیکن مجال ہے کہ جو جمشید خان فون اٹھائے میں نے پانچ مرتبہ فون کیا
اورمیرے دل کا زور ختم ہوا تو اس وقت دوست نے فون اٹھا کر جواب دیا کہ اٹھ
گیا ہوں اور تیاری کررہا ہوں بس تم پشاور کے بس ٹرمینل پہنچ جائو میں تیار
ہونے کے بعد گھر سے روانہ ہوا اس وقت اندھیرا بھی تھا اور میں ڈر رہا تھا
کہ جس طرح کے حالات ہیں اگر کسی نے روڈ کنارے پاسپورٹ لے لیا اور ساتھ میں
وہ پیسے بھی لئے جو جیب میں رکھے ہیں تو پھر کیا ہوگا لیکن اللہ تعالٰی نے
خیر کردی اور میں ٹرمینل پہنچ گیا پچیس منٹ میں ٹرمینل پہنچ گیا اور دوست
کا انتظار کرنے لگا- پشاور سے اسلام آباد کیلئے صبح سویرے فلائنگ کوچز سڑک
کنارے کھڑی کی جاتی ہیں تاکہ جو لوگ جلدی میں ہوں وہ گاڑی میں بیٹھ جائے
اور روانہ ہوں زیادہ تر اسلام آباد میں روزگار کے سلسلے میں مقیم افراد ان
کوچز میں جاتے ہیں یہ کوچز روڈ کنارے کھڑی ہوتی ہیں جس کے باعث بعض اوقات
ٹریفک بھی جام ہوجاتا ہے لیکن چونکہ ڈرائیور وہاں پر تعینات ٹریفک اہلکاروں
کو صبح کا ناشتہ کراتے ہیں اس لئے ان اہلکاروں نے بھی آنکھیں بند کی ہوتی
ہیں-اور انہیں ان گاڑیوں کی بے قاعدگی نظر نہیں آتی-
خیر ایک کوچ میں بیٹھ گیا اور اپنے دوست کیلئے سیٹ بھی بک کردی کہ وہ پہنچ
جائے گا تو ساتھ چلے جائینگے لیکن مجال ہے کہ موصوف کا پتہ بھی چلا ہو -
ایک گاڑی مسافروں سے بھر گئی اور پھر گاڑی کا ڈرائیور آکر مجھے کہنے لگا کہ
بھائی اگر نہیں جانا ہے تو سیٹ چھوڑ دو اور میں نے شرم کے مارے وہ گاڑی
چھوڑ دی دل ہی دل میں اس دوست کو وہ سنا رہا تھا کہ اگر وہ اب بھی سن لے تو
کان بندکرلے- خیر دوسرے کوچ میں بیٹھ گیا اور یہی تہیہ کیا کہ اگر نہیں
پہنچا تو اکیلے اسلام آباد جا کر تھائی ویزے کیلئے اپلائی کرلونگا لیکن شکر
ہے کہ دس منٹ کے اندر وہ دوست بھی پہنچ گیا اس وقت ہلکی سی بوندا باندی
شروع ہوگئی اور ہم بوندا باندی کے مزے لیتے ہوئے روانہ ہوگئے-میرا دوست
مجھے بتا رہا تھا کہ تمھارے چھ بجے فون کرنے کی وجہ سے میری بیگم کی آنکھ
کھل گئی تھی اور چونکہ میں ایک ہفتے بعد آتا ہوں اپنے گھر اس لئے بیگم نے
مجھ پر بہت غصے کئے کہ یہ تمھارا کیسے دوست ہے جسے یہ تمیز نہیں کہ کس وقت
فون کرنا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ جس طرح تم اس کے فون پر جلدی جلدی
بھاگ کر جارہے ہوں اس سے تو مجھے مسرت اپنی سوتن لگ رہی ہے- یہ سن کر غصہ
بھی آیا کہ ایک تو وقت پر اٹھا دیا اور آگے سے یہ حال ہے لیکن مجھے پتہ تھا
کہ میرا یہ دوست بیگم کے مقابلے میں ذراکمزور ہے اس لئے میں نے بھی سن لی
کہ چلو ہمیں کون سی سے بے عزتی لگنی ہے -
کراچی کمپنی اسلام آباد میں کوچ سے اترے اس وقت وہاں سے ایک ٹیکسی حاصل کی
اور اسے تھائی لینڈ کے سفارتخانے جانے کا کہا موصوف ہمارے کپڑے اور حالت
دیکھ کر کہنے لگا کہ کرایہ تین سو روپے ہوگا حالانکہ ڈیڑھ سو روپے کرایہ
تھا میں نے اپنے دوست کو پشتو میں کہا کہ اسے دیکھو شائد یہ سمجھ رہا ہے کہ
ہم کہیں کے چوہدری ہیں جس پر ٹیکسی ڈرائیور ہنسنے لگا میں نے پوچھا ہنس
کیوں رہے ہو تو اس نے پشتو میں جواب دیا کہ خیر ہے بھائی آپ اپنے علاقے کے
ہیں جتنی مرضی دیدے لیکن بیٹھ جائیں اس کی پشتو سن کر حیران بھی ہوا لیکن
شکر ادا کیا کہ اور کچھ نہیں کہا ورنہ پتہ نہیں کیا ہوتا -
مجھے یاد ہے کہ جب 1998 ء میں اسلام آباد کے ایک نیوز ایجنسی میں کام کررہا
تھا اس میں زیادہ تر لوگ کشمیر کے تھے جب وہ کوئی راز کی بات کرتے تو
کشمیری زبان میں کرتے ان کی دیکھا دیکھی ہم پشاور کے کچھ دوستوں نے باتیں
پشتو زبان میں کرنا شروع کردی پھر کشمیر ی لوگوں کو برا لگتا کہ یہ پشتو
میں کیا بات کرتے ہیںجب انہیں سمجھ نہیں آتی تو پھر کہتے تم ہمیں گالیاں
دیتے ہوں پشتو میں ` پھر مجبورا ہم رابطے کی زبان اردو پر آجاتے اور ہم بھی
انہیں کہتے کہ رابطے کی زبان بولو گے تو ہم بھی اردو بولیں گے ورنہ ہم سے
یہ امید مت رکھو کہ تم کشمیری زبان میں بات کرو اور ہم پشتو میں بات نہ کرے
سو وہ لوگ بھی ہماری وجہ سے اردو پر آگئے-
خیر کہاں کی بات کہاں تک آئی ٹیکسی ڈرائیور کیساتھ گپ شپ کی تو پتہ چلا کہ
تخت بھائی کا رہائشی ہے اور کئی سالوں سے راولپنڈی میں مقیم تھا اسی وجہ سے
اس کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ پٹھان ہے موصوف یہ جا ن کر زیادہ شکایات شروع
کردی کہ دونوں صحافی ہے اور وہ ملکی حالات کا رونا رونے لگا میں نے اپنے
دوست کو اشارہ کیا کہ چپ رہو زیادہ باتیں مت کرو اور صرف سنو ٹیکسی ڈرائیور
نے بیس منٹ میں تھائی سفارتخانے پہنچا دیا لیکن اتنی باتیں صبح سویرے کی کہ
مجھے تو پروا نہیں تھی لیکن میرے دوست نے ناشتہ نہیں کیا تھا اس کے سر میں
درد ہوگیا اس وقت میں نے اپنے دوست کو اور بھی چھیڑا کہ تم زن مرید ہو
تمھاری بیوی نے تمھے ناشتہ نہیں دیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ گھر میں تمھاری
کتنی اوقات ہے اور وہ غریب ہنس رہا تھا کہ اگر اور کچھ کہا تو مزید بے عزتی
ہونی ہے -
تھائی لینڈ کے سفارتخانے پہنچے اندر داخل ہونے سے قبل سیکورٹی گارڈ نے
موبائل فون رکھو ادئیے جیسے اس میں ہم بم فٹ کرکے لے جارہے ہوں اور ساتھ ہی
چٹ دی کہ واپس آکر چٹ دکھا دینا اور اپنا موبائل لے لینا - اندر چلے گئے تو
ایسا لگا جیسے سارے پاکستان کے لوگ تھائی ویزے کے خواہشمند ہیں بہت زیادہ
لوگ آئے ہوئے تھے ریسپشن پر ایک پاکستانی موٹی عورت بیٹھی تھی اور انتہائی
بد اخلاقی سے لوگوں سے سوال کررہی تھی جب میری باری آئی تو کاغذات دیکھ کر
کہنے لگی کہ تمھارے کاغذات نامکمل ہیں اور واپس پھینک دئیے میں نے پوچھا
کونسے کاغذات ضروری ہے تو کوئی جواب نہیں دیا اور کہا کہ پیچھے ہٹو کسی اور
کو موقع دو -سخت غصہ آیا کہ نہ تو بات کرنے کی تمیز ہے ا ور نہ ہی معلومات
دے رہی ہے پیچھے ہٹ کر وہاں پر موجود لوگوں سے معلومات حاصل کی کہ اور کیا
ضروری ہے ان کی طرف سے معلومات کی روشنی میں درخواست لکھی یہ الگ بات کہ اس
وقت میرے بال پوائنٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ایک صاحب سے منت کرکے بال
پوائنٹ لیا کہ درخواست لکھنی ہے کاغذات مکمل کرنے کے بعد دوبارہ لائن میں
کھڑا ہوگیا اور آدھ گھنٹے بعد نمبر آیا تو کاغذات دیکھنے کے بعد مجھ سے
مطالبہ کیا کہ چھ ہزار روپے دو اتنی رقم کا سن کر میرے تو دماغ بھک سے اڑ
گیا کہ یہ کیا آن لائن انٹرنیٹ پر دو ہزار روپے فیس لکھی ہے اور مجھ سے چھ
ہزار روپے مانگے جارہے ہیں لیکن شکر ہے کہ جیب میں پیسے تھے فیس تو جمع
کروادی لیکن دل کا حال اللہ جانتا تھا میرے دوست کی جب باری آئی تو اس نے
کاغذات جمع کروا دئیے تو اسے کہاگیا کہ تمھیں فیس دینے کی ضرورت نہیں
کیونکہ تم سیاح ہو میں حیران رہ گیا یا اللہ کیا ماجرا ہے میں ٹریننگ کیلئے
جارہا ہوں تو مجھ سے دوگنے بھی زیادہ پیسے لئے اور جو سیاحت کیلئے جارہا ہے
تو اس سے کوئی فیس نہیں غصہ تو بہت آیا لیکن خاموش رہا کرتا بھی کیا -
تھائی سفارتخانے کے اہلکاروں نے ہدایت کی کہ ایک ہفتے بعد واپس آکر اپنا
پاسپورٹ لے جانا جس وقت سیکورٹی اہلکاروں سے واپس موبائل فون لے رہے تھے جو
کہ نجی سیکورٹی کے اہلکار تھے نے میرے دوست کو کہا کہ اب تو ہمیں بھی خوش
کردو میں نے پوچھا کس چیز کی خوشی میں تو میرے دوست نے اسے کہا کہ ویزہ لگ
جائیگا تو پھر تمھیں خوش کردونگا -اور وہ سیکورٹی گارڈ سائیڈ پر ہوگئے مجھے
بہت غصہ آیا کہ اس کو دیکھو جیسے ہمارے پاس کروڑوں کا مال ہے اور ان رشوت
خوروں کیلئے ہم نے رکھا ہو میں نے اپنے دوست سے کہا کہ چلو جاتے ہیں ان کی
شکایت کرتے ہیں تو دوست نے کہا کہ چھوڑا یار کس کس کو رئو گے یہاں کا سسٹم
ہی خراب ہے اور میں اس کی بات سن کر خاموش ہوگیا کہ اس کی بات سچی تھی-
اس وقت میرے دوست کی بیوی کا فون آیا دوست نے اپنی بیگم کو بتایا کہ مجھ سے
پیسے نہیں لئے اور مسرت سے چھ ہزار روپے فیس لی ہے تو اس کی بیگم بہت خوش
ہوئی کہ تمھارے اس دوست نے صبح سویرے میری نیند خراب کی تھی سو اللہ تعالٰی
نے اس سے بدلہ لے لیا اس کی بات سن کر میں نے اپنے صحافی دوست کو مزاح میں
کہا کہ "تمھاری بیگم پہنچی ہوئی بزرگ ہے آئندہ خیال رکھونگا"
اس وقت دوست نے کہا کہ ملائشیاء ویزے کیلئے بھی معلومات کرنی ہے تو چلو
وہاں سے بلیو ایریا میں واقع ایک پوائنٹس پر گئے جہاں پر ملائشیا کے ویزہ
فارم جمع ہورہے تھے وہاں سے معلومات حاصل کی کہ پندرہ سو روپے ویز ہ فیس ہے
سو میرے دوست نے کہاکہ تھائی ویزہ لگنے کے بعد ملائیشیاء کا ویزہ بھی لگوا
دینگے تاکہ پاسپورٹ پر ایک اور مہر بھی لگ جائے وہاں پر ناشتہ کیا اور دوست
کیساتھ اسلام آباد کے مختلف مقامات پر آوارہ گردی کی جس کے بعد وہ دوست
اپنے دفتر روانہ ہوگیا اور میں پشاور جانے والی گاڑی میں بیٹھ گیا موٹر وے
پر صوابی کے مقام پر پہنچا تھا کہ اس وقت موبائل فون پر اطلاع ملی کہ گورنر
پنجاب سلمان تاثیر کو اس کے سیکورٹی گارڈ نے گولی مار دی ہے گھر سے فون آیا
کہ کہاں ہو میں نے اپنی خیریت سے آگاہ کیا اس واقعے پر دل بہت اداس ہوا
اورعجیب سا ذہنی تنائو لیکرواپس پشاور پہنچ گیا- |