ملیحہ خان لودھی
انصاف درحقیقت ہے کیا ؟ کوئی ایسا فیصلہ جو جانبدارنہ ہو۔ہم باہر کے ملکوں
کوسراھتے ہیں کہ وہ بہتر انصاف کرتے ہیں مگر اپنے ہاں یہ انصاف ہمیںنظر
نہیں آتا ہم کبھی بھی نہیں چاہتے کہ ہمارے لیے انصاف ہو۔اقتدار کا نشہ
انسان کو پاگل کر دیتا ہے ۔ اس نشے میں سب نظر آتا ہے ماسوائے انصاف کے آج
میں ایک ناممکن سی کوشش کرنے جارہی ہوں کچھ سوال من کے آنگن میں گونج رہے
ہیں سوچا پوچھ لوں یہ نہ ہو کہ دکھ رہ جائے ضمیر طعنے دیتا رہے کہ میں کچھ
نہیں کر سکتی تھی تو آواز تو دیتی ۔بھٹو خاندان کے ماضی سے سب واقف ہیں ۔مگر
ان کے المیے کے لیے کوئی آواز ضائع نہیں نہ ہوئی1985میں قتل ہونے والے
شاہنواز بھٹو کسی کے لیے بھی اہم نہیں تھے ؟ کسی نے اس معمے کو حل کیوں
نہیں کیا ؟پھر 1996ءمیں مرتضیٰ بھٹو کے قتل کو کیوں دبایا گیا۔ آخر قاتل
اتنے با اثر تھے کہ بھٹو خاندان کے افراد کو بھی خاموش ہونا پڑا ۔محترمہ
بینظیر بھٹو صاحبہ دو ددفعہ اقتدار میں آئیں مگر انہوں نے بھی اس مسئلے کی
طرف غور نہیں کیا ۔کیا قاتل کوئی اپنا تھا ؟یا اقتدار کے نشے نے توجہ کی
تھالی کو اس طرف لڑھکنے نہیں دیا ۔وہ جو ماں دنیا سے انصاف کی خاطر گزار
گئی وہ بھی جان گئی تھی شاید کہ غاضب سے کہیں ان کا بھی کوئی گہرا رشتہ ہے
جو المناک موتوں پر بھی چپ کی چادر چڑھی ہوئی ہے ۔وہ قصہ تو قصہ رہا
۔2007ءمیں آخر بی بی کو بھی خاموش کر وا دیا گیا ۔پھر کسی نے یہ پوچھا کہ
آخر قتل گاہ کو پانی کا کو غسل کیوںدیا گیا ؟آج اس حکومت کا چوتھا سال شروع
ہے پھر مجرم کیوں نہیں پکڑے گئے ؟آخر اتنی خاموشی کیوں جب اپنے گھر میں
انصاف مہیا نہیں کیا گیا تو عوام کی کون سنتا ۔ہم عوام کو انصاف کون دے گا
جو خود انصاف حاصل نہ کر سکے ۔جنہوں نے اس خوف سے آواز بلندنہ کی کہ قاتل
سے کوئی شناسائی نہ نکل آئے کون ہے منصب یہاں؟ جن کے اپنے بھی گھر محفوظ
نہیں وہ کسی کی حفاظت کیا کریں گے ۔قصہ مختصر جب نصرت بھٹو کے ہاتھ میں
ساری زندگی کشکول رہا وہ انصاف کی بھیک مانگتی رہیں ۔اپنوں کے اقتدار میں
ہونے کے باوجود توعوام کی ماﺅں کی کون سنے گا ۔یہاں صرف ہاتھ بدلتا ہے مگر
کشکول وہی رہتا ہے ۔ |