قذافی کا قتل : ایک شرعی جإئزہ

تحریر: ڈاکٹر صلاح سلطان ۔
عربی سے ترجمہ: ابوالاعلی سید سبحانی

فقیہ العصر علامہ یوسف القرضاوی کے سلسلہ میں یہ بات معروف ہے کہ وہ اپنے فتووں میں حددرجہ احتیاط سے کام لیتے ہیں، علامہ قرضاوی جیسے محتاط عالم اور مفکرنے لیبیا کی تحریک انقلاب کی ابتداء ہی میں قذافی کے قتل کا فتوی دے دیا تھا،اس وقت جبکہ ناٹو کا لیبیا میں دور دور تک نام بھی نہیں تھا اور پرامن احتجاجی تحریک کے خلاف قذافی کی جانب سے سخت ترین کاروائیاں کی جارہی تھیں، روزانہ ایک بڑی تعداد میں پرامن مظاہرین جام شہادت نوش کررہے تھے، علامہ کا یہ منفرد انداز کا فتویٰ قذافی کی جارحیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔ ناٹو کی آمد کے ایک طویل عرصہ کے بعد قذافی ایک عبرتناک موت مارا گیا۔ ڈاکٹر صلاح سلطان عالم اسلام کے ایک معروف فقیہ ہیں اورعالمی تحریک اسلامی کے عظیم قائدین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ عالم اسلام کو درپیش چیلنجز اور مسائل کو آپ نے بہت ہی قریب سے دیکھا ہے، مصر کے تحریر اسکوائر سے لے کرتحریک آزادیٔ لیبیا اور دیگر محاذوں کا آپ نے بہت ہی قریب سے مشاہدہ کیاہے۔ عالم اسلام کے ایک اہم نمائندے کی حیثیت سے ظالم وجابر لیبیائی حکمراں کرنل قذافی کے قتل کے سلسلہ آپ کا فتوی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ذیل میں آپ کے فتوی کا ترجمہ بعض حذف واضافہ کے ساتھ پیش ہے۔ قذافی کے قتل کے سلسلہ مغربی میڈیا، اور خود ہندوستانی میڈیا میں کافی غلط فہمی پائی جاتی ہے، یہ فتوی جہاں قذافی کے قتل سے متعلق اٹھنے والے بہت سے اشکالات کو رفع کرتا ہے، وہیں قذافی کے قتل سے متعلق شریعت کے صحیح موقف کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔فی الواقع قذافی کے سلسلہ میں یہ موقف محض یوسف القرضاوی اور صلاح سلطان کا فتوی نہیں، بلکہ یہ عالمی تحریکات اسلامی کے موقف کی ترجمانی ہے۔(مترجم)
20 اکتوبر2011ء کو 42! سال یعنی یکم ستمبر 1969ء سے لیبیا کے اقتدار پر قابض کرنل قذافی کے عبرتناک قتل کے بعد مختلف سوالات اٹھنا شروع ہوگئے، اس سلسلہ میں چند باتیں قابل غور ہیں:
اس نے اپنی قوم کے خلاف سخت سے سخت ہتھیار استعمال کیے، جب سے وہ اقتدار پر قابض ہے، اس نے ہمیشہ اپنی قوم سے ہتھیاروں کی زبانی بات کی، اس نے خواہ ظاہری عدالتوں کے ذریعہ یا بغیر کسی عدالتی فیصلہ کے ہر اس شہری اورفوجی کو تہہ تیغ کرڈالا، جس نے اس سے اختلاف کیا۔ لیبیا میں شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد اس نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی قوم کا ہر شہر، ہر گلی، ہر محلہ اور ہر مقام پر شمشیر کے زور پرمقابلہ کرے گا۔اور حقیقت دیکھی جائے تو اس انقلابی تحریک کے بعد دسیوں ہزار لیبیائی نشانہ بنائے گئے۔ اس کے نتیجہ میں نہ جانے کتنے لیبیائی ادارے برباد ہوکر رہ گئے، جس کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ فی الواقع ایک بہت ہی خطرناک جنگی مجرم تھا۔ اس کے علاوہ قذافی اور اس کے اہل خاندان نے اپنے مخصوص مزاج کے مطابق لیبیا کی ایک بہت بڑی دولت پر قبضہ کیا ، اور اسے شراب وکباب اور فتنہ انگیزی میں بے دریغ صرف کیا۔ لاکربی کے نزدیک ایک پین امریکن طیارے پر حملہ کرکے اس نے بعض امریکیوں کو قتل کیا، جس کے نتیجہ میں لیبیا کے خزانے سے اس نے تین ارب امریکی ڈالر کا معاوضہ دیا۔ ملک کی صورتحال یہ ہے کہ وہ ترقیاتی اور تمدنی طور پر حددرجہ پستی کا شکار ہوا جارہا ہے، حالانکہ لیبیا کے پاس تیل کا ایک بہت ہی بڑا ذخیرہ موجود ہے، تیل کے اس ذخیرہ پراس طویل دوراقتدار میں صرف اسی کا تصرف تھا۔ اس کے علاوہ مختلف عقائد، افکار، لباس، اور امور کے تعلق سے اس کی بیان بازیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ اگر عرب کے بے عقل حکمرانوں کا سردار نہیں تو ان میں کا ایک بے عقل حکمراں ضرور تھا۔

رہی بات اس کے قتل کی تو اصولی طور پر اس کا قتل تحقیق مناط(مقصد کے حصول کی رعایت) کے ذیل میں آتا ہے، اس بات پر ہم سب کا یقین ہے کہ وہ ایک جنگی مجرم تھا، اس کے قتل سے قبل اس کو گرفتار کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں، ایسا نہیں ہے کہ اس کو مکمل طور سے اپنی گرفت میں لے لینے اور اس سلسلہ میں اطمینان حاصل ہونے کے بعدقتل کیا گیا تھا بلکہ گرفتاری کی کوشش کے دوران میدان ہی میں اس کا قتل کیا گیا، اس طرح میری نظر میں اس کے قتل میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سلسلہ میں چند شرعی دلائل ملحوظ رکھنے چاہئیں:
نبی کریمﷺ نے فتح مکہ کے روز ۹ بڑے مجرموں کے سلسلہ میں حکم دیا تھا کہ ان کو قتل کردیا جائے، خواہ وہ کعبہ کے پردہ سے کیوں نہ چمٹے ہوئے ملیں، اور ہوا بھی یہی کہ ابن اخطل کو اس حالت میں قتل کیا گیاکہ وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹا ہوا تھا۔ اسی طرح ایک مغنیہ اور نضر بن حارث کا بھی قتل کیا گیا۔ اگر ان ۹ افراد کے جرائم کو دیکھا جائے تو وہ سب اپنی سنگینی میں قذافی کے ایک دن کے جرم کے برابربھی نہیں ہوپائیں گے، خواہ انقلاب سے پہلے کی صورتحال دیکھی جائے یا انقلاب کے بعد کی صورتحال۔اس طرح دلیل کی روشنی میں یا قیاس اولی کی رو سے اس کو پکڑلینے کے بعد قتل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قذافی کے قافلہ پر جب حملہ کیا گیا تو قذافی اور اس کے ساتھ موجود حواریوں اور اس کی اولاد اس لیے نہیں چھپے تھے کہ وہ اپنے آپ کو حوالہ کردیں یا اس خطرناک جنگ کے خاتمہ کا اعلان کردیں، اور نہ ہی انہوں نے اس بات کا اعلان کیا تھا، بلکہ وہ اس موقع کی تلاش میں تھے کہ کیسے موقع ملے اور پلٹ کر حملہ آور ہوں۔ اور جب انقلابیوں نے اس کو میدان میں گرفتار کیا،تو انہوں نے اس کو کسی محفوظ مقام تک پہنچانے سے قبل میدان کے باہر سے آتش بازی کی آواز سنی، میدان میں ادھر ادھر سے آتش بازی کی آوازوں سے انقلابیوں نے یہ بھانپ لیا کہ یہ لیبیائی حکمراں کس قدر سیکورٹی رکھتا ہے، کس قدر تربیت یافتہ اور وظیفہ خوار لوگوں کا گھیرااس کے ارد گرد موجود رہتا ہے، اس صورتحال میں ضروری تھا کہ فوری طور پر کوئی فیصلہ لیا جائے، اور اس سلسلہ میں سورہ انفال کی آیت ۵۸ میں صاف رہنمائی ان کے سامنے موجود تھی: ’’اور اگر تمہیں کسی قوم سے دغا بازی کا خوف ہو تو اُن کا عہد انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دوکچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا‘‘، یہ آیت عہد ومیثاق کے سلسلہ میں رہنمائی کرتی ہے، اس سلسلہ میں اعتبار الفاظ کی عمومیت کا کیا جاتا ہے نہ کہ کسی مخصوص سبب کا، اس طور پر دیکھا جائے تو انقلابیوں نے حالات کا اندازہ لگایا، کہ وہ میدان جنگ میں ہیں اور قذافی کے وظیفہ خواروں نے سخت گھیراؤ کررکھا ہے، اور ممکن ہے کہ وہ اس کو ان سے واپس چھین لے جائیں، اور اس قسم کے اندیشے ایک غالب گمان میں تبدیل ہوئے جارہے تھے، اور غالب گمان تو یقین کا درجہ رکھتا ہے، چنانچہ انہوں نے اسے قتل کردیا، اس خدشہ کی بنیاد پر کہ وہ فرار نہ ہوجائے یا اس کے حواری اسے واپس چھین کر نہ لے جائیں۔

قذافی کے قتل کا واقعہ اس کی گرفتاری اور گرفتاری کے سلسلہ میں اطمینان کے بعد نہیں ہوا، بلکہ میدان جنگ کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ گرفتاری کے سلسلہ میں اطمینان کے بعد قتل سے مختلف نوعیت رکھتا ہے۔ اس واقعہ کو دیکھا جائے تو حماس کی جانب سے گزشتہ دنوں شالیط کی گرفتاری کے واقعہ سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے، انہوں نے میدان جنگ میں ٹینک کے اندرموجود ۲!صہیونیوں کو قتل کیا، اسی دوران شالیط ان کے ہاتھ آگیا، انہوں نے دیکھا کہ وہ اس کو لے کر بھاگ سکتے ہیں، چنانچہ اس کی گرفتاری کے سلسلہ میں ان کو اطمینان ہوا ، اس کو حفاظت کے ساتھ رکھا اور بعد میں اس کو اس کے اہل خانہ کے حوالہ بھی کردیا، ایک بڑے معاہدے کے نتیجہ میں جس کی رو سے انہوں نے1027! فلسطینیوں کو آزاد کرالیا۔ اگر حماس کے لوگوں نے اس کو ٹینک سے گرفتار کرنے کے بعد خندق میں لے جاتے ہوئے اسرائیلی طیاروں کے خوف سے قتل کردیا ہوتا تو وہ ایک قیدی کے قاتل نہیں کہلاتے بلکہ ایسا اس وقت ہوتا جبکہ ان کو اس کی گرفتاری کے سلسلہ میں اطمینان ہوجاتا۔ اس واقعہ پر قذافی کے قتل کے واقعہ کوقیاس کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قذافی اور اس کے بچوں کے ہاتھ میں ہتھیار تھے، اور جب ان سے ہتھیار لے لیے گئے تو ان کے وظیفہ خوار فوجی چاروں طرف منڈلانے لگے، اس طور پر ان کا قتل اس اندیشے کی بنا پر ہوا کہ وہ اس کو چھین کر واپس نہ لے جائیں ، اس طرح اس کے قتل میں شرعا کوئی قباحت نہیں اور اس کے قتل کا واقعہ قیدی کے قتل کے ذیل میں نہیں آتا ۔ اس بات کی مزید تاکید اس سے ہوجاتی ہے کہ انقلابیوں نے قذافی کے بہت سے حواریو ں کو بھی گرفتار کیا، تاہم کسی کو بھی قتل نہیں کیا۔ بلکہ ان کو قید کرنے پر ہی اکتفاء کیا۔ کیونکہ ان کو قید کرنے میں اس بات کا خوف نہیں تھا کہ کوئی ان کو چھڑانے کے لیے حملہ کردے گا، یا ان کے سبب سے لڑائی کی نوبت آجائے گی۔ ان افراد کو قیدکرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ انقلابیوں نے قذافی کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، صحیح کیاہے۔

سورہ انفال کی آیت57! میں ہے:’’اگر تم اُن کو لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ اُن کے پس پشت ہیں وہ اُن کو دیکھ کر بھاگ جائیں، عجب نہیں کہ ان کو اس سے عبرت ہو‘‘۔ اسی طرح سورہ محمد کی آیت 4! میں ہے: ’’جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اڑا دو یہاں تک کہ جب ان کی طاقت توڑ دو توجو زندہ پکڑے جائیں ان کو مضبوطی سے قید کر لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ فریقِ مقابل لڑائی کے ہتھیار ہاتھ سے رکھ دے‘‘۔پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں اصل چیز اثخان یعنی طاقت توڑ دینا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ محارب اور بڑے مجرموں کی سخت تادیب کی جائے، اس کی صورت اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے کہ ان کا خون اس طرح بہایا جائے کہ دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو۔ دوسری آیت سے معلوم ہوا کہ ان کو اس قوت سے ماربھگایا جائے کہ ان کے پیچھے جو مجرم ہیں وہ بھی عبرت حاصل کرلیں، اگر اللہ تعالی نے سورہ انفال میںنبیﷺ کو اس بات پر تنبیہ کی کہ انہوں نے طاقت توڑدینے سے قبل فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا ، حالانکہ ان میں ابوجہل کے جیسے افراد بھی موجود تھے، لیکن ان میں کوئی بھی نہیں تھاجس نے قذافی کے جیسے بے دریغ قتل کیا ہو، نہ تو انہوں نے ایسی تعذیب کی تھی، اور نہ ہی فتنہ انگیزی، میں یہ نہیں کہتا کہ قذافی اور اس جیسے افراد کو قتل کردیا جائے، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ قرآنی مقاصد میں اس طرح طاقت توڑدینا بھی شامل ہے کہ دوسرے مجرموں کے لیے باعث عبرت ہو۔

اسلامی فقہ میں ایک مسئلہ’دفع الصائل‘ کے عنوان سے موجود ہے، صائل اس شخص کو کہتے ہیں جو زیادتی اور چیرہ دستی کا مرتکب ہوا ہو، خواہ قتل کے ذریعہ، یا عصمت دری کے ذریعہ، یا کسی کے مال ودولت پر دست درازی کے ذریعہ۔ فقہ میں صائل کے تعلق سے مسلم اور غیرمسلم کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ فقہاء شریعت کی جانب رجوع کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ اس صائل کے قتل کو جائز ٹھہراتے ہیں، بشرطیکہ کہ اس فتنہ کی سرکوبی قتل کے بغیرممکن نہ ہو۔فقہ کے اس مسئلہ کی روشنی میں اگر قذافی کے قتل کے واقعہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ قذافی گزشتہ چاردہائیوں سے لیبیائی قوم کے اوپر صائل بنا بیٹھا تھا، اس نے پچاس ہزار سے زائد لوگوں کو قتل کیا، جبکہ ہزاروں ہزار لوگ زخمی ہوئے، اس طور پر اس کا قتل لازم ہوگیا تھا، یہی وجہ ہے کہ فقیہ العصر ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے لیبیا کی تحریک مزاحمت کی ابتداہی میں اس کے قتل کا فتوی دے دیا تھا، کہ وہ ایک ظالم، چیرہ دست، اور لیبیائی قوم کے اوپر ایک جابر حکمراں ہے، اس طرح قذافی کے خلاف جو کچھ ہوا وہ شریعت کی رو سے اپنے اندر جواز رکھتا ہے۔(یوسف القرضاوی کا یہ فتوی ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔مترجم)

مغرب اور بعض عرب ممالک کے قانون میں یہ بات شامل ہے کہ اگر ایک زانی شخص کسی عورت سے ہم بستری کی حالت میں اس کے شوہر کو سامنے دیکھ لے، اور اپنے دفاع میں اس کے شوہر کا قتل کردے تو ایسے زانی قاتل کو قتل عمد کی سزا نہیں دی جائے گی، کیونکہ اس صورت میں وہ زانی ان کے مطابق قانونی طور پراپنا دفاع کررہا تھا، وہ زانی قاتل کو اس عورت کے شوہر کے قتل کے سلسلہ میں صرف اس وجہ سے نہیں پکڑتے کہ اس کو اپنی جان کا خطرہ تھا، مغرب اور بعض عرب ممالک کا قانون زانی قاتل کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے لیکن اہل مغرب لیبیا کے ان انقلابیوں کے بارے میں اندازہ نہیں لگاسکتے، جن کے چاروں طرف قذافی کے حواری صرف اس لیے موجود تھے کہ وہ اس کو ان سے چھڑانے میں کامیاب ہوجائیں، اس خوف کا اندازہ ہم اس میدان میں لگائیں جہاں ہرقسم کے ہتھیارہیں۔ فتح ونصرت کی امید لگائے ہوئے پورا ایک ماحول، جہاں آٹھ ماہ سے بہتا ہوا خونی سلسلہ روکنا مقصود ہو، یہ ماحول قذافی کے قتل کے سلسلہ میں ایک ایسا عذر ہے، جسے قبول کیا جانا چاہئے۔ یہ بات کوئی دلیل کے طور پر نہیں کہی جارہی ہے بلکہ ان لوگوں کے خلاف حجت کے طور پر پیش کی جارہی ہے جوان چیزوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں جو اگران کے قوانین میں موجود بڑے بڑے جرائم کے سامنے رکھی جائیں تو بہت ہی معمولی معلوم ہوں گی۔
ہماری تو تمنا یہ تھی کہ کاش کہ انقلابی قذافی کو کسی طرح قید کرنے میں کامیاب ہوجاتے، اور بغیر کسی اہانت آمیز سلوک کیے اور برابھلا کہے، اس کو گرفتار کرلیتے، اس کو ایک مبنی بر عدل عدالت میں پیش کیا جاتا، اور اس صورت میں ان بہت سارے رازہائے سربستہ سے واقفیت حاصل ہوجاتی، جو اسی کے ساتھ چلے گئے، ممکن ہے کہ وہ راز ہمارے لیے بہت ہی کام کے ہوتے، اس کے نتیجہ میں پورے عالم اور بالخصوص عرب کے ظالم حکمراں عبرت کا سبق لیتے۔ اسی طرح یہ بھی کسی صورت مناسب نہیں تھا کہ اس کے لاشہ کے ساتھ اس قسم کا سلوک کیا جاتا، جو کچھ کیا گیا ، کیونکہ یہ مثلہ کی نوعیت کا عمل ہے جس سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح یہ بھی مناسب نہیں تھا کہ تین دن تک اس کے لاشہ کو برف میں رکھا جاتا، اور لوگ آکر اس کا اور اس کے پاس لیٹے اس کے بیٹے کا فوٹو کھینچتے پھرتے۔ لازم ہے کہ ہم ہمیشہ معمولی اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے پرہیز کریں اور اعلی کردار کا ثبوت پیش کریں۔ لیکن میرے خیال میں انقلابیوںنے انقلاب سے پہلے اور اس کے بعد جن حالات کا سامنا کیا ہے، وہ ان کو معذور قرار دینے کے لیے کافی ہیں، مجھے اس سلسلہ میں کچھ تردد ہورہا تھا، لیکن جب میں نے قطر کے ایک اخبار ’الشرق‘ استاد فہمی ہویدی کا مضمون ’جعلونی ارہابیا‘ دیکھا تو مجھے اطمینان ہوا، وہ لکھتے ہیں: ’’قذافی کو پکڑنے کے بعد کی جو تصاویر شائع ہوئی ہیں، اس میں دکھایا گیا کہ اس کے ساتھ کافی اہانت آمیز سلوک کیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک بھیانک موت مرا۔ لیکن گزشتہ چار دہائیوں میں اس شخص نے جن جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ’ سمجھتے‘ ہیں کہ یہ وہاں کے نوجوانوں کا ردعمل تھا۔ میں نے ایک ٹیلی ویژن پر انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ میں اس شخص کا کوئی دفاع نہیں کرسکتا، اس کے ساتھ رحم دلی کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہ گیا، اس کے ساتھ جو کچھ بھی کیا گیا ہے، وہ محض سمندر کے ایک قطرے کی مانند ہے، ان جرائم کے بالمقابل جن کا ارتکاب اس نے اپنی قوم اور اپنے ملک کے حق میں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس کو ہٹانے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں بہت ہی جذباتی تھا، اور میں نے اس کے انجام کے سلسلہ میں کسی بھی قسم کی مذمت نہیں کی، اور نہ ہی میں نے اس کی تائید کی، میں تو محض ان انقلابیوں کے حالات کا اندازہ لگاسکتا ہوں جو اس کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے خلاف ثابت قدم رہے یہاں تک کہ اس کا کام تمام کرڈالا۔‘‘

میں چاہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں عربی کا وہ مشہور قصہ سنادوں، جس کے سبب ’سبق السیف العزل‘ کی مثل مشہور ہوگئی۔ ایک باپ کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی، وہ نوجوان اس کے اس بیٹے کا کپڑا پہنے ہوئے تھا، جو چند سال قبل شکار پر نکلا تھا اورکئی سال گزرنے پر بھی واپس نہیں آیا۔ باپ نے اس شخص سے دریافت کیا: یہ کپڑا کہاں سے آیا؟اس نے کہا: میں نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ اس کو پہنے ہوئے تھا، میں نے اس سے کہا کہ یہ لباس مجھے دے دو، اس نے انکار کیا، تو میں نے اس کا قتل کیا اور اس سے لے لیا۔ باپ نے کہا: پوری بات سناؤ، دلچسپ واقعہ ہے۔ باپ نے کہا: کیا اسی تلوار سے تونے اس کا قتل کیا تھا؟ اس نے کہا: ہاں۔ اس پر باپ نے کہا: تیزدھار معلوم ہوتی ہے۔ اس شخص نے کہا کہ کبھی میرے وار نے خطا نہیں کی۔ باپ نے کہا: لاؤ، میں ذرادیکھوں۔ باپ نے تلوار لی، اور اسی سے اس شخص کا کام تمام کردیا۔ لوگوں نے کہا: تم نے حرمت کے مہینے میں اس کا قتل کیا۔ اس پر اس باپ نے کہا: سبق السیف العزل۔ یعنی تلوار اپنا کام کرگئی اب باپ کو ملامت سے کیا فائدہ۔یہی حال ہے، ایک شخص کے قتل پر لوگ ان نوجوان انقلابیوں کو ملامت کررہے ہیں، جن کے ناحق خون میں قذافی نے غوطے لگائے تھے۔ اس مجرم کے ساتھ یہ اظہار ہمدردی کیوں کیا جارہا ہے؟ کہاں تھی تمہاری ہمدردی ان 42 سالوں تک جب قذافی ناحق خون بہائے جارہا تھا، اور ظالم وسرکش لوگوں کی مدد کیے جارہا تھا!! اس پوری مدت میں کہاں چلے گئے تھے انسانی حقوق؟!
Ishteyaque Alam Falahi
About the Author: Ishteyaque Alam Falahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Falahi: 32 Articles with 32131 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.