آزادکشمیر میں صدارت ، وزارت
عظمیٰ کی بہاروں کے مزے لوٹ کر بزرگ سیاستدان کے عہدہ پر فائز سردار سکندر
حیات خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اِنہوں نے جو بھی تمنا کی خدا تعالیٰ
نے پوری کی خاندان کریلوی کا روشن ستارہ ان دنوں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ
(ن) کے متازعہ ترین راہنما کی صورت اختیار کر چکے ہیں، کبھی مجاہد اوّل کے
خلاف لب کشائی کرتے رہے اور کبھی برق رفتار وزیراعظم کو ریشماںجوان ہو گئی
کا طعنہ دیتے ہیں ،26جون 2011کے عام انتخابات سالار جمہوریت کوکچھ دینے کا
پراپیگنڈہ کرنے والوں نے مسلم لیگ (ن)کے سیکرٹری جنرل شاہ غلام قادر کے
دورہ ِ میرپورکے دوران ارشد غازی کی جانب سے دوبارہ فعال ہونے کے خلاف محاز
بنا لیا ہے بڑے تجارتی مرکز کے ملازمین کو ساتھ رکھ کر کامیاب کا رنر
میٹنگز کرنے والوں کو ارشد غازی کی دوبارہ فعالیت ایک آنکھ نہیں بھائی خود
کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باعث سالار جمہوریت کے ساتھ جذباتی
وابستگی رکھنے والے مخلص کارکنوں کو تھپکی دیکر آگے کر دیا گیا ہے ، میرپور
میں (ن ) لیگ کو اقتدار کے ایوانوں تک لیجانے کا گُر صرف سابق وزیر صحت ہی
جانتے ہیں ، بیرسٹر سلطان محمو دچوہدری کا سامنا تاجرانہ ذہن رکھنے والے ہر
گز نہیں کرسکتے ، 26جون 2011کے عام انتخابات میں سالار جمہوریت کے کردار
کومتنازعہ بھی سب سے زیادہ تاجرانہ ذہن رکھنے والوں نے کیا آل جموں وکشمیر
مسلم کانفرنس کے سربر اہ سردار عتیق احمد خان نے اندرون خانہ و اُوپن
مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا ، جبکہ سالار جمہوریت نے دبے دبے انداز میں
بیرسٹرسلطان محمود چوہدری کو اپنے ورکروں کی جانب سے میرپور میں سپورٹ کر
ایا ، اور نتیجہ حاصل کر لیا ، آزا دکشمیر میں مسلم لیگ(ن) میں سالار
جمہوریت سردار سکندر حیات خان راجہ فاروق حیدر ، شاہ غلام قادر ، چوہدری
طارو ق فاروق جیسی قدآور شخصیات نے بھرپور انداز سے جلاّ بخشی جبکہ قائد
(ن) لیگ میاں نواز شریف کی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث سواد اعظم کے ٹکڑے
ہوئے اور بڑا ٹکڑا موجودہ (ن ) لیگ کی شکل میں موجود ہے ، سیاست میں کوئی
بھی چیز حرف آخر نہیں ، ن لیگ کے نوجوان کارکنوں کے سامنے مستقبل ہے اُنہیں
طویل سفر کرکے اپنا مقام حاصل کرنے کی لازوال جدوجہد جاری رکھنی چاہیے ،
ارشد محمود غازی کو فعال کردار ادا نہ کرنے کا عندیہ سیاسی تخریب کاری ہے
اور اس کا کردار تاجر سنٹر میں بیٹھا فارغ البال سر پر ہاتھ پھیر تے ہوئے
محظوظ ہو رہا ہے ، آزا دکشمیر کی سیاست میں بیس کیمپ کو پراگندہ بنا چکی ہے
، کشمیر کی آزادی کےلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے اس خطہ کو
آزا دکشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اپنا اکھاڑ ہ بنا رکھا ہے پاکستان میں
دھاندلی کے تجربات کو پہلے بے کس و ناتواں کشمیریوں پر آزمایا جا تا ہے ،
اور پھر کارروائی پاکستان میں ڈال دی جاتی ہے ، 26جون کے انتخابات میں
مبینہ دھاندلی پر راجہ فاروق حیدر ، سردار سکندر حیات خان ، سردار عتیق
احمد خان ، سردار خالد ابراہیم خان ، عبدالرشید ترابی سمیت تمام اہم سیاسی
راہنماﺅں نے آواز لگا ئی لیکن دھاندلی کرنے والوں کو ٹف ٹائم دینے کے بارے
میں کسی نے بھی نہیں سوچا بعض قائدین نے تو چیف الیکشن کمشنر کی پھانسی تک
کا بھی مطالبہ کیا لیکن وہ آج مفاہمت کی گاڑی میں بیٹھے کر اقتدار کی آئس
کریم سے انجوائے کر رہے ہیں ، مسلم لیگ ن کے نوجوان کارکنوں کے جذبات و
احساسات اپنی جگہ ارشد محمود غازی کو اُوپر والے قبول کرتے ہیں یا نہیں یہ
مستقبل کی بات ہے اُنہیں اپنا حال کسی اور کےلئے قربان کرنے کی بجائے دیکھو
سنو اور فیصلہ کرو کے قول پر عمل کرنا چاہئے تاجر انہ ذہن رکھنے والے ہر
چیز میں منافع کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اگر انہیں ایک کے بدلے دس گناہ
منافع نہ ملے تو وہ دوکان بند کردیتے ہیں ، ملک و قوم تاجرانہ روش والوں کے
ہاتھ میں نہیں کاروباری سنٹر کے ملازمین کو استعمال کر کے حلقہ میں سیاسی
طوفان برپا کر دیں یہ لوگ تو جیل کی ہوا سے بھی دور بھاگتے ہیں نظریاتی
کارکنوں کا غصہ اپنی جگہ درست ہے مگر فیصلہ اوپر کی قیادت نے کرنا ہے اگر
قیادت کسی کو تسلیم کرتی ہے تو پھر کارکنوں کو بھی پارٹی ڈسپلن کو سامنے
رکھتے ہوئے ”آوے ای آوے “کے نعرے لگا کر میاں نواز شریف کے ہاتھوں کو مضبوط
کرنا پڑے گا اور سالار جمہوریت تو ہی سالار جمہوریت ان کا مقابلہ کوئی ان
سا ہو تو کر ے وہ تو جوڑ توڑ کے بادشاہ مانے جاتے ہیں ، یقین نہیں تو سردار
عتیق سے پوچھ لیں- |