اندھوں کے شہر میں

بنی آدم کا دستور ہے کہ مخالفین کی حق بات کو بھی ناحق گردانتاہے۔اسکے سچ کو جھوٹ کے لبادے میں بیان کرتاہے ۔بے باکی کوبسااوقات اپنے مفاد کی خاطر بے شرمی کہتاہے۔شرافت کو بزدلی کہتاہے۔سخاوت کو ریا کہتاہے۔الغرض جتنے زخم دشمن کے چہرے پر لگا سکتاہے اس میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا۔لیکن قدرت ہمیشہ حق کا ساتھ دیتی ہے۔امتحان تو دیناہی ہوتاہے تب جا کرانسان اگلے زینے پر جگہ پاتاہے۔مصر کی اخوان المسلمین ہو ‘لیبیا کی حزب التحریر ہو یا تیونس کی النہ ضہ سب نے آگ کا دریا ڈوب کے عبور کیا ہے۔سینکڑوں کارکنوں نے جان کی قربانی دی۔پیٹ پر پتھر باندھے کئی کئی سال جیل کی بے رحم فضا میں کاٹے پھر جا کر نرگس کے چمن میں بہارآئی۔اسلامی حکمرانوں نے بس پتھر نہیں تڑوائے باقی تو کم وبیش ہرنوع کی ذہنی وجسمانی تکالیف سے ان اسلامی تحریکوں کو زک پہنچانے کی سعی کرتے رہے۔ایک صحافی کے مطابق جب تیونس کے بارڈر پر تیونسی سپاہیوں سے قبلہ کا رخ پوچھا تو سپاہی ایک دوسرے کا منہ تکنے لگ گئے۔اس وجہ سے نہیں کہ انہیں قبلہ کا رخ معلوم نہیں تھا بلکہ اس وجہ سے کہ اگر کعبہ کی سمت کا تعین کر دیں تو کہیں سرکار کا کوئی خفیہ کارندہ ان پر مذہبی لگاﺅ کا الزام لگا کر نقصان سے دو چار نہ کردے۔مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ تیونس کے حکمران زین العابدین کے دور میں خفیہ دستہ مسجدوں میں جا کر نمازیوں کی جانچ پڑتال کرتا اور باقاعدہ نماز پڑھنے والوں کو ہراساں کیا جاتا۔مصر میں اخوان المسلمین پر کون سا تشدد ہے جو روا نہیں رکھا گیا۔حسن البناءجو اخوان المسلمین کے بانی لیڈر تھے انہیں حادثے کے بعد دو گھنٹے لگاتار بے یارومددگار چھوڑدیاگیا۔مسلسل ایک سو بیس منٹ خون بہنے کی وجہ سے انہوں نے جام شہادت نوش کیا اور یہی سرکار کا مقصود تھا۔پھر ان کے بعد بھی کارکنوں نے نہ حوصلہ ہارا نہ ہی سامراج کے آگے جھکے ۔اور اب مصر کی موجودہ صورتحال اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو اخوان المسلمین بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرے گی۔اس کی مخالف اسٹیبلشمنٹ نت نئے ہتھکنڈے تو ضرور آزمائے گی لیکن انشااللہءمنہ کہ کھائے گی۔

لیبیا میں حزب التحریر کے کارکنوں کا بے دریغ قتل مرحوم قذافی نے کروایا۔مسلمان نہیں گاجر مولی سمجھ کر اس کے کارکنوں کو کاٹ پھینکا۔مگر مجال ہے جو باقی ماندہ کے حوصلے پست ہوئے ہوں کیونکہ محض اسی گروہ یا جماعت کے قدم لڑکھڑاجاتے ہیں جن کے پاس کوئی ویژن (نظریہ)نہیں ہوتا اور وہ محض ایک فرد کی خاطر لڑتے ہیں لیکن جو افراد ایک نظریہ کی خاطر جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں وہ اپنی جنگ خون کے آخری قطرے تک جاری رکھتے ہیں ۔اور باالاآخر کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔

اسوقت لیبیا میں حزب التحریر ‘مصرمیں اخوان جبکہ تیونس میں النہ ضہ 52فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہو چکی ہے۔جب سروے کیا گیا تو اس کے مطابق النہ ضہ 23‘یا 35 فیصد ووٹ حاصل کر سکتی تھی مگر عوام کے جذبات اس جماعت سے اس قدر گہری الفت کا اظہار کریں گے تجزیہ کار سوچ بھی نہ سکتے تھے۔

اس کے بانی رہنماءراشد الغنوشی تیونس کے جنگ آزادی کے رہنماءبورقبیہ کے دور میں قید کاٹ رہے تھے جب زین العابدین نے ان کا تختہ اُلٹا تو انہیں رہا کر دیا۔1989میں جب تیونس میں پارلیمانی الیکشن ہوئے تو راشد الغنوشی کی جماعت النہ ضہ نے 17فیصد ووٹ حاصل کیئے تو اہل مغرب کو سانپ سونگھ گیا۔زین العابدین نے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا اعلان کیا۔نتیجتًا انہیں جلا وطن کر دیا گیا۔اب جب عوامی تحریک نے اس اسلام دشمن حکمران کا تختہ الٹ دیاتو راشد صاحب وطن واپس تشریف لے آئے ۔اور اپنی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی ۔قدرت نے انہیں ان کی جانفشانی کا بہترین رزلٹ دیا ۔لیکن انہوں نے کہا کہ وہ خود کوئی عہدہ نہیں لیں گے۔اور نہ ہی ان کی پارٹی صدارتی امیدوار کھڑا کرے گی۔ان کا یہ ارادہ ہمارے ارباب اختیار اور قدیم پارٹی لیڈران کیلئے مشعل راہ ہے۔

ابھی لیبیا اور مصر کا الیکشن باقی ہے امید ہے وہاں بھی اسلامی جماعتوں ہی کی حکومت بنے گی اور استعماری قوتوں کو ایران کی تبدیلی اور ترکی کی جمہوریت کی بحالی ہی کی طرح منہ کی کھانی پڑے گی۔

پاکستان پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور ادھر کی مذہبی جماعتوں کو اپنے اندر تبدیلی لانا ہوگی۔ استعمار کی زبان ‘کھوکھلے نعروں اور اقتدار کے پجاریوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کرنا ہو گا۔رہ گئی سیاسی جماعتیں تو سوا تحریک انصاف کے کسی جماعت کے منشور میں کوئی واضح تبدیلی ہوتی نظر نہیں آتی۔مورثیت کا گھن ان کے ووٹ بینک کو کھائے جا رہاہے۔اور ان کی مقبولیت کو کرپشن کی دیمک عنقریب نیست ونابودکردے گی(اگران میں تبدیلی نہ آئی تو اور تبدیلی کی اُمید آٹے میں نمک کی مقدار کے برابر نظر آتی ہے)۔اتوار کو مینار پاکستان پر ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں عوامی جوش خروش دیدنی تھا۔جوان اور بوڑھے اپنی جگہ لیکن بچوں کی آمد نہایت پر کشش تھی۔تحریک انصاف کے مطابق پانچ لاکھ کے قریب افراد مینار پاکستان کے میدان ‘گلیوں اور سڑکوں پر عمران خان کی تقریر کے الفاظ گوش گزار کرنے کیلئے بے تاب تھے۔حتی کہ بادشاہی مسجد کے صحن اور ایک رپورٹ کے مطابق اس کے میناروں پر بھی لوگ موجود تھے۔ اس سے ملتا جلتا جلسہ محترم ذوالفقارعلی بھٹو صاحب نے اور انکے بعد محترمہ بے نظیر مرحوم نے انیس سو چھیاسی کے لگ بھگ کیا تھا۔اس کے بعد اب اتنی بڑی تعداد میںپہلی مرتبہ لوگ کسی جلسہ کی خاطر گھر چھوڑ کرآئے ہیں ۔

لیکن ایک بات جو میری جان پر گراں گزری وہ آلات موسیقی کا استعمال اور بے حجاب خواتین کا سٹیج پر مردوں کے جھرمٹ میں بیٹھناہے۔(ایک رویت کے مطابق آپ ﷺ کا قافلہ کہیں سے گزر رہا تھا ۔ساز کی آواز آئی تو رحمت اللعالمین ﷺ نے نے انگلیوں سے کان بند کرتے ہوئے فرمایا”جب یہ آواز آنا بند ہو جائے تو مجھے بتا دینا “یعنی جب آواز آنا بند ہو گی تو تب دو جہاں کے سردار کانوں سے انگلیاں نکالیں گے:اوکماقال) اگر سٹیج پر ان کی جلوہ گری لازم ہی تھی تو کم از کم حجاب یا علیحدہ کرسیاں رکھ دی جاتی ۔بہرطور میدان میں خواتین کا جداگانہ بندوبست شائستگی کی علامت تھا۔نیز اذان کا وقفہ بھی ایک اچھا شگون تھا۔

عمران خان نے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے ریلے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پٹواری نظام کی بوسیدہ دیواروں کو گرا دیں گے ۔تھانیدار الیکشن کے ذریعے منتخب ہو گا۔گاﺅں کی سطح پر بلدیاتی نظام متعارف کروائیں گے۔اثاثے ظاہر کیئے بغیر کوئی سیاست میں حصہ نہ لے سکے گا۔وعدے تو نہایت دلکش ہیں ۔لیکن جہاں تک جلسہ اور الیکشن کا تعلق ہے اس میں واضح فرق ہے۔مگر اگر ابتداءایسی ہے تو انشااللہ انتہاءعروج ہی ہو گا۔عمران خان کو اپنے کارکنان اور خصوصی طور پر نمائندگان کا انتخاب چھان پھٹک کر کرنا ہو گا۔اور عوام میں جڑیں گہری کرنے کیلئے یونین کونسل کی سطح تک کارکنان کی اخلاقی و سیاسی تربیت کرنا ہوگی ۔نیز ان کالی بھیڑوں سے ہوشیار رہنا ہوگا جو ظاہری طور پر اپنی پارٹی سے ناراض ودلبرداشتہ ہو کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کریں گی مگر درحقیقت وہ اپنی آبائی پارٹی ہی کی نمک خوار رہیں گی اور عمران خان کو ایسے مشوروں سے نوازیں گی کہ جس سے ان کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔یہ نہ ہی مجھ سے ادنی صحافی کی بڑہے اور نہ ہی پیشن گوئی بلکہ تاریخ کا سبق ہے۔اور عمران خان کو ہر حال میں چندر گپت موریہ کے چانکیہ سے خبردار رہناہوگا۔ماناکہ تحریک انصاف کہ سربراہ میں اورنگزیب عالمگیر سا حوصلہ ہے مگر مخالف چالاک ‘نوسرباز اور اوچھے وسستے ہتھکنڈوں کا رسیاہے۔کسی نے کیا خوب کہاہے
کیا حال پوچھتے ہو میرے کاروبار کا
دیے بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں

کپتان کا حال بھی ایسا ہی لگتا ہے۔وہ ایسی سرزمین پرخلوص لیئے نبردآزما ہے جہان سیاسی چال باز تو اپنی جگہ قلم بھی بکتاہے‘عمامے بھی رنگ دارہیں ‘پائل کی جھنکار بھی مسلسل بادشاہی مسجد کی ہمسائگی میں گونج رہی ہے‘علم پیچ در پیچ الجھا ہوا ہے‘مغنیہ ہونا اعزاز ہے‘حفاظ وقاری بے روزگارہیں‘غربت گالی ہے‘امارت زدہ فرعونیت کا زعم لیئے ہوئے ہیں‘بھکاری اور سخی کا رشتہ ریا کا ہے‘سماجی حلقے سیاست میں نہارہے ہیں‘نیکی ہنر ہے‘ فن ہے‘ عیب ہے ‘فلاح انسانیت کا بیڑہ بیشتر مذموم مقاصد کے واسطے اٹھایا جاتاہے۔۔عبادت گاہوں میں ہو کا عالم ہے۔کلب ‘سینما‘تھیٹر‘قحبہ خانوں کا کاروبار عروج پر ہے۔

الغرض نفسانفسی ہے ۔ایسے معاشرے کیلئے دریا کی سی فطرت اپنے اندر پیدا کرنا ہوگی۔جو اپنے طاقت سے نہیں مسلسل چوٹ سے پتھر کو ریزہ ریزہ کر دیتاہے۔تب جا کر اس اولوالعزم مسلمان کو منرل نصیب ہو گی۔خدا کرے اس کے عزم میں کمی نہ آئے اور اسی طرح تن تنہا لڑتا ہوا باطل کی قوتوں کو پاش پاش کردے ۔آمین۔

بنی آدم کا دستور ہے کہ مخالفین کی حق بات کو بھی ناحق گردانتاہے۔اسکے سچ کو جھوٹ کے لبادے میں بیان کرتاہے ۔بے باکی کوبسااوقات اپنے مفاد کی خاطر بے شرمی کہتاہے۔شرافت کو بزدلی کہتاہے۔سخاوت کو ریا کہتاہے۔الغرض جتنے زخم دشمن کے چہرے پر لگا سکتاہے اس میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا۔لیکن قدرت ہمیشہ حق کا ساتھ دیتی ہے۔امتحان تو دیناہی ہوتاہے تب جا کرانسان اگلے زینے پر جگہ پاتاہے-
G.M.Khan
About the Author: G.M.Khan Read More Articles by G.M.Khan: 3 Articles with 2195 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.