ہم مرد حضرات بیویوں کے معاملے
میں بڑے ناشکرے واقع ہوئے ہیں۔ دوستوں میں بیٹھ کر قہقہے لگانے والے گھر
میں قدم رکھتے ہی مسکراہٹ کو خود پر حرام کرلیتے ہیں۔ سلام دعا تو ایک طرف،
اگر وہ بے چاری مسکرادے تو مصیبت، منہ بنائے تو جلی کٹی سننے کو ملتی ہے۔
اسی پر بس نہیں، یار لوگوں نے بیویوں کو ”دشمن جاں“ ثابت کرنے کے لیے ایسے
ایسے جملے گھڑ رکھے ہیں کہ اگر پتھروں کو سنائیں تو وہ بھی مرد کی
”مظلومیت“ پر رو پڑیں۔ ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا، پچھلے دنوں تم بڑی ٹینشن
میں رہتے تھے، آج کل کیا کیفیت ہے؟ وہ بولا ”ٹینشن“ میکے گئی ہوئی ہے۔ اگر
محترمہ واقعتا کچھ دنوں کے لیے میکے چلی جائیں تو صاحب! یہ لطیفے اور جملے
بازیاں چند دنوں میں ہوا ہوجاتی ہیں۔
جب ہوٹل میں ویٹر کی ابے تبے سننا اور کچی پکی روٹی جیسے تیسے سالن کے ساتھ
کھانا پڑتی ہیں تو اظہار کرے نہ کرے، وہ ”جی جی“ کرنے والی یاد ضرور آتی ہے۔
سنی سنائی بات نہیں، بہتیروں کو بیوی کی یاد میں آہیں بھرتے اور رو رو کر
”دریا“ بہاتے دیکھا ہے۔ بھرم باز قسم کے لوگ بھی رات کو تکیے میں منہ دے کر
دو چار آنسو تو بہا ہی لیتے ہیں۔ بہر حال بیویوں کی ”فضیلت“ کچھ زیادہ ہی
بیان ہوگئی، اب اگلی بات کرتے ہیں۔
لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کی شادی ہوئی ہی نہیں، یہ ”مجبور چھڑے“
ہیں۔ دوسرے وہ پردیسی چھڑے ہیں، جنہیں دال روٹی کے چکرنے والدین اور بیوی
بچوں سے دور کردیا۔ کسی نے تعلیم کے لیے گھر چھوڑا، کوئی فاقوں کے ڈر سے
بھاگا، کچھ تو سات سمندر پار جا نکلے اور بہت سوں نے بڑے شہروں کا رخ کیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کون سا راگ چھیڑدیا؟ دعا کریں اللہ کسی دشمن کو بھی
”پردیسی چھڑا“ نہ کرے۔ دیار غیر میں کیا بیتی، یہ تو وہاں کے رہنے والے
بتائیں گے، یہاں کراچی میں بھی کم از کم 10 لاکھ افراد ایسے ضرور ہوں گے،
جن کے پیارے ان سے بہت دور رہتے ہیں، یہی حال لاہور اور دیگر بڑے شہروں کا
ہے۔
پردیس کی زندگی رنگین نہیں، بڑی سنگین ہوتی ہے۔ روشن مستقبل کے خواب لے کر
آنے والوں میں سے بیشتر کو ریل گاڑی کے باتھ روم سے ذرا بڑے کمروں میں
سرچھپانے کو جگہ ملتی ہے۔ چھڑوں کی زبان میں ان کھولیوں کو ”ڈیرہ“ کہا جاتا
ہے۔ کئی کئی لوگ مل کر رہتے ہیں، بعض کمروں میں تو زیادہ لوگ ہونے کی وجہ
سے باقاعدہ شفٹیں لگتی ہیں، صبح ڈیوٹی پر جانے والے گئے تو رات کو کام سے
لوٹنے والے سوگئے، وہ اٹھے تو صبح والوں نے بستر سنبھال لیے۔ لگتا ہے
بابائے قوم محمد علی جناح کے ”کام، کام اور کام“ کے فرمان پر سب سے زیادہ
یہ چھڑے ہی عمل کرتے ہیں۔ 20,20 گھنٹے کام کی وجہ سے ان کا کھانا پینا بھی
بھاگتے دوڑتے ہی میں ہوجاتا ہے۔ چوں کہ ان کا پہلا اور آخری مقصد پیسہ
بچانا ہوتا ہے، اس لیے یہ لوگ چائے بھی دوائی کی بوتلوں کے ڈھکنوں جتنے
کپوں میں پیتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے سب سے مشکل مرحلہ کپڑے دھونے کا ہوتا
ہے۔ کپڑوں کو رگڑتے، کھنگالنے اور نچوڑتے ہوئے نانی تو یاد آہی جاتی ہے۔
کئی بار تو بھاگ نکلنے کو بھی دل چاہتا ہے لیکن پاﺅں میں پڑی ”بیڑیاں“ گھر
لوٹنے نہیں دیتیں۔
یہ چھڑے لوگ بھی انسان ہیں پتھر نہیں، کسی کا بچہ دیکھ کر انہیں بھی اپنے
پھول یاد آجاتے ہیں، دل چاہتا ہے وہ انہیں سینے سے لگائیں، چومیں اور گود
میں اٹھائیں لیکن موبائل میں محفوظ تصویر سے دل بہلانے کے علاوہ کچھ نہیں
کرسکتے۔ یہ بے چارے رشتہ ازدواج تک کو گھنٹہ پیکیج کے ذریعے نبھا رہے ہوتے
ہیں۔ ہر روز فون پر شکوے، شکایات، واپسی کے وعدے، اپنے پاس بلانے کے منصوبے
بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ مہینوں اور سالوں بعد گھر کا چکر لگاتے ہیں تو بچے باپ
کو پہچان تک نہیں پاتے، جب کچھ مانوس ہونے لگتے ہیں تو یہ انہیں پھر روتا
پیٹتا چھوڑ کر پردیس کی راہ لیتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا
بہترین حصہ اسی طرح روتے رلاتے گزاردیا۔ میرے ایک جاننے والے 1973ءمیں شہر
آئے اور پچھلے برس دوباہ گاﺅں منتقل ہوئے ہیں، وہ سال میں تقریبا ایک ماہ
کے لیے گھر جایا کرتے تھے۔ گویا ان 37 برسوں میں وہ بیوی بچوں کو 3 سال دے
سکا۔ جب وہ شہر آیا تو 25 برس کا جوان تھا، 62 برس کا بوڑھا ہوکر واپس گیا،
اگر نظر دوڑائیں تو گلی محلوں میں ایسے واقعات بکھرے پڑے ہیں۔
بات ہنسنے ہنسانے کی نہیں ہے، ہزاروں لاکھوں لوگوں کا گھر سے یوں بے گھر
ہوجانا معاشرے کا المیہ ہے۔ آخر لوگ اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑنے پر کیوں
مجبور ہورہے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے اگر حکومت دیہات کو ترقی دیتی، تعلیم اور
روزگار کے مناسب مواقع فراہم کرتی تو لوگ اپنے پیاروں کو یوں نہ چھوڑ کر
جاتے لیکن میرے نزدیک پردیس جانے کی صرف یہی وجہ نہیں ہے۔ اصل میں ہم لوگ
معیار زندگی بلند کرنے کے چکر میں زندگی کو ہی عذاب بنا بیٹھے ہیں۔ جن
چیزوں کے بغیر کام چل سکتا ہے، انہیں بھی ضروریات میں شامل کرلیا گیاہے۔
لازمی بات ہے چیزیں حاصل کرنے کے لیے پیسہ چاہیے اور پیسے کے لیے کولہو کا
بیل بننا پڑتاہے۔ اگر رسومات اور شوشا میں نہ پڑا جائے تواب بھی عزت کے
ساتھ وقت گزر سکتا ہے۔
اگر ہم صرف دو چیزوں میں سادگی اختیار کرلیں تو پیسوں کے لیے اتنے پاپڑ نہ
بیلنے پڑیں۔ کسی بھی شخص سے پوچھ لیں وہ بچوں کی شادی کے اخراجات اور مکان
کے لیے پریشان نظر آئے گا۔ ایک بچے کی شادی کے بعد پھر زیرو سے کمانا پڑتا
ہے، آدمی کماتے اور بیاہتے ہوئے قبر میں جا پہنچتا ہے، پھر بچے اپنے بچوں
کو بیاہنے کے لیے پیسے جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ٹھیک ہے مکان ایسا ہونا
چاہیے جس سے سردی، گرمی، بارش سے بچا جاسکے لیکن یہ کس نے کہا اینٹ روڑوں
پر لاکھوں روپے بہا دیے جائیں؟ 15 برس پہلے ایک صاحب نے مکان کی تیسری منزل
پر گلدان نما پانی کی ٹینکی بنوائی، جس پر 80 ہزار روپے خرچ ہوئے، حالاں کہ
ٹینکی 3 ہزار میں بھی بن سکتی تھی۔ اگر عام پلستر کی دیواروں سے کام چل
سکتا ہے تو اس پر ماربل چڑھانے کا کیا تک بنتا ہے؟ اگر زندگی کو ٹیپ ٹاپ
اور رسومات کی بجائے ضروریات تک محدود کرنے کا فیصلہ کرلیا جائے تو میرا
خیال ہے بہت سارے چھڑے پہلی گاڑی سے ہی گھروں کو روانہ ہوجائیں گے۔
کہنے کو بہت کچھ باقی ہے لیکن کالم کی گنجائش ختم ہوگئی، عید کا دن گھر سے
دوران چھڑوں پر بڑا بھاری ہے، لوگ اپنوں کو گلے لگائیں گے اور یہ ڈیروں پر
پڑے فون پر عید ”انجوائے“ کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہوں گے۔ بہر حال میری
ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ اپنے ایک سابق ”چھڑے“ دوست کی جانب سے عید کی
مبارک باد قبول فرمائیں۔ |