صوبہ سندھ میں نئے بلدیاتی نظام
سے متعلق حکمران پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے
درمیان جمعہ کو ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں بھی کوئی پیشرفت نہ
ہوسکی جس کے بعد گورنر سندھ کی جانب سے 7 اگست کو جاری کیے گئے آرڈیننس اور
اس کے تحت بحال ہونے والا مقامی حکومتوں کا نظام 90 روز کی مدت پوری ہونے
پر 4 نومبر 2011ءجمعہ اور ہفتہ کی شب رات 12 بجے دونوں از خود غیر موثر
ہوگئے ہیں جبکہ پرانا بلدیاتی و کمشنری نظام 5 اگست کی پوزیشن پربحال ہوگیا۔
کراچی کے 5 اضلاع اور حیدرآباد کا پرانا ضلع بھی بحال ہوگیا ہے۔یوں ڈی سی
او کے عہدے ختم اور ڈپٹی کمشنر اور کمشنر بھی بحال ہوجائیں گے۔ جس کے باعث
متحدہ قومی موومنٹ کی اعلیٰ قیادت پریشان ہے۔ جبکہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران
بلدیاتی نظام سے متعلق مسودے کو حتمی شکل دینے کے لیے دونوں جماعتوں کے کئی
مذاکراتی راؤنڈ ہوچکے ہیں لیکن کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ اگرچہ
دونوں جماعتیں نیا نظام لانے پر متفق بھی ہیں لیکن دونوں جانب سے بعض شقوں
پر تاحال اختلافات برقرار ہیں۔ تاہم حکومت سندھ نے متحدہ کی قیادت کو یہ
یقین دہانی کروائی ہے کہ عید کے بعد اتحادی جماعتوںسے مشاورت کے بعد سندھ
اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے 1979ءکے پرانے بلدیاتی نظام میں ترامیم کر کے
2001ءکا ایسا نیا بلدیاتی نظام نافذ کیا جائے گا جس سے ایم کیو ایم کے
تحفظات کم ہوجائیں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پرانانظام بحال ہونے سے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک
متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس نظام کی شدید مخالفت کرتی ہے۔
ہمیشہ اپنی شرائط پر مختلف حکومتوں کا حصہ بننے والی ایم کیو ایم اس بار
پریشانی کا شکار ہے اور پہلی بار اپنی کچھ مجبوریوں کی وجہ سے اختلافات کے
باوجود حکومت کی سب سے بڑی حلیف جماعت ہونے کا کردار ادا کررہی ہے۔ اس نے
اس کا ایک عملی مظاہرہ 30 اکتوبر کو کراچی میں صدر آصف علی زرداری کی حمایت
میں ایک بڑی ریلی نکال کر کیا ہے لیکن ایم کیو ایم کے رہنماﺅں کے بقول ایسا
جمہوری نظام بچانے کے لیے کیا گیا۔
سندھ میں بلدیاتی نظام کے تعین کے متعلق جمعرات کے روز بھی دونوں اتحادی
جماعتوں کا اجلاس وزیراعلیٰ ہاﺅس میں ہوا جس میں صوبائی وزراءنے شرکت کی۔
اجلاس کو صوبائی سیکرٹری قانون نے کسی بھی قانون میں ترمیم اور آرڈیننس کے
اجراءسے متعلق بتایا کہ 18 ویں ترمیم کے تحت اب کسی بھی قانون میں ترمیم کا
آرڈیننس غیر موثر ہوجانے کی صورت میں نہ صرف وہ آرڈیننس دوبارہ جاری نہیں
ہوسکتا بلکہ پہلے سے جاری کردہ آرڈیننس میںترامیم کرکے بھی متعلقہ قانون
میں ترامیم کا دوسرا آرڈیننس جاری نہیں ہوسکتا جس کی وجہ سے متحدہ رہنماﺅں
کی پریشانی بڑھ گئی اور ان کا اصرار رہا کہ شہری و ضلعی حکومتوں کی بحالی
کے متعلق جاری کردہ آرڈیننس 4 نومبر کو غیر موثر ہوجائے گا۔ لہٰذا کوئی
ایسا راستہ نکالا جائے جس سے 5 اگست 2011ءکی پوزیشن پر پرانا بلدیاتی نظام
اور کمشنری نظام جوں کا توں بحال نہ ہو۔ لیکن پی پی پر سندھ کی قوم پرست
جماعتوں سمیت اے این پی، فنکشنل لیگ اور سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار
مرزا کا دباﺅ تھا کہ پرانا بلدیاتی و کمشنری نظام ہی بحال کیا جائے۔ واضح
رہے کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے 13 جولائی کو منظور کردہ قانون میں ترمیم کے
متعلق پہلے 6 اگست کو آرڈیننس جاری کیے گئے جس کے تحت صرف کراچی اور
حیدرآباد میں شہری و ضلعی حکومتوں کے نظام کو 8 جولائی کی پوزیشن پر بحال
کیا گیا اور ساتھ ہی کمشنری نظام کو ختم کیا گیا تھا جس پر اندرون سندھ
فوری طور پر شدید احتجاج کے بعد 7 اگست کو ایک اور آرڈیننس جاری کرکے صوبے
بھر میں کمشنری نظام کو ختم اور شہری و ضلعی حکومتوں کے نظام کو بحال کیا
گیا تھا۔
اُدھر سندھ کی قوم پرست قیادت نے کہا ہے کہ چند ماہ قبل جون میں کمشنری
نظام کی بحالی اور کراچی و حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال کرنے کا جو فیصلہ
کیا گیا تھا وہ صوبہ بھر کے عوام کے لیے انتہائی قابل قبول فیصلہ تھا لیکن
پی پی نے صوبے اور وفاق میں اپنی حکومت کو استحکام اور طول دینے کے لیے ایک
جماعت کے مطالبے پر اگست میں پرویز مشرف کا جاری کردہ 2001ءکا نظام بحال
کردیا جو کہ سندھ کے عوام کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ بلدیاتی نظام سے متعلق اتحادی جماعتوں میں اتفاق رائے اس
لیے نہیں ہورہا کہ اس معاملے میں پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے
مفادات کا ٹکراﺅ ہے لیکن دونوں جماعتیں اپنی اپنی مجبوریوں کے باعث ایک
دوسرے کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔ ماضی میں ایم کیو ایم کمشنری نظام اور
حیدرآباد کی پرانی حیثیت بحال کرنے پر حکومت سے علیحدہ بھی ہوئی تھی تاہم
سردست اگرچہ 1979ءکے بلدیاتی نظام کی بحالی سے متعلق متحدہ کی اعلیٰ قیادت
میں بے چینی پائی جاتی ہے لیکن متحدہ کی صدر کی حمایت میں ریلی نکالنے کے
بعد وہ فوری طور پر حکومت کی مخالفت مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بلدیاتی نظام سے متعلق کوئی بھی جماعت عوامی مفادات
مقدم نہیں رکھ رہی کہ کس نظام سے عوام کو زیادہ ریلیف مل سکتا ہے بلکہ ہر
ایک کی کوشش ہے کہ وہ نظام بحال ہو جس سے اسے فائدہ ہو۔ اس تناظر میں کہا
جاسکتا ہے کہ سندھ کی اتحادی جماعتیں نان ایشوز میں الجھ گئی ہیں اور قوم
کے مسائل کا حل اور ان کی مشکلات میں کمی، مہنگائی و بیروزگاری جیسے ایشوز
پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ عوام نے ان سیاسی جماعتوں کو اس لیے تو مینڈیٹ
نہیں دیا تھا کہ وہ ذاتی مفادات میں الجھ کرعوامی ایشوز کو نظر انداز
کردیں۔ ساری جماعتیں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں لگی ہوئی ہیں۔ کوئی دھرنا
سیاست اور کوئی سب سے بڑی احتجاجی ریلی نکال کر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ
کررہا ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیا ہمارے سیاست دان ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا
دکھانے اور ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر انقلاب لانے کے خواب دیکھتے رہیں گے یا
کبھی اس ملک کے مجبور و بے بس عوام کی حالت زار بدلنے کے لیے بھی خلوص دل
سے عملی اقدامات کریں گے؟ |