حج کے پانچ دن ....اور عاشقانہ ادائیں

سرزمین حجاز سے

ویسے تو حج کے سفر کے دوران بہت سے دوست احباب اور قارئین کے فون اور ای میلز آتی رہیں اللہ کی توفیق سے سب کے لیے دعا کا اہتمام کیا مگر گیارہ ذی الحجہ کو پاکستان سے دو فارغ التحصیل نوجوان علماءکرام نے یکے بعد دیگرے فون پر دلچسپ سوال کیا ”آپ ابھی تک مکہ مکرمہ میں ہی ہیں یا مدینہ منورہ چلے گئے ہیں ؟“یہ سوال سن کر ان دوستوں کے لیے بالخصوص اور سب اہل ایمان کے لیے بالعموم دل سے دعا نکلی کہ اللہ سب کو حج بیت اللہ کی سعادت اور حرمین شریفین کی حاضری نصیب فرمائے کیونکہ جب تک یہاں کی حاضری نصیب نہ ہو انسان سمجھ ہی نہیں پاتا کہ حج کی ترتیب کیا ہے ؟ کس دن ،کس وقت اور کس مقام پر حج کا کون سا عمل سرانجام دینا ہوتا ہے؟یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جب لوگ ٹی وی پر میدان عرفات کا خطبہ سن لیتے ہیں اور ظہر وعصر کی باجماعت نماز کی ادائیگی کی جھلکیاں ملاحظہ کر لیتے ہیں تو وہ حج کے لیے آئے ہوئے اپنے عزیزوں کو یوں مبارکباد کے فون کرنے لگتے ہیں جیسے حج نمازِ عید کی طرح ایک خطبہ سننے اور نماز کی ادائیگی کا نام ہے اور پھر یوم عرفہ کا وہ اہم ترین اور قیمتی وقت مبارکبادیں دینے لینے میں صرف ہو جاتا ہے جب اللہ کی رحمت اور مغفرت کے پروانے تقسیم ہورہے ہوتے ہیں۔

جب فارغ التحصیل علماءکرام گیار ہ ذ ی الحجہ کو مکہ یا مدینہ میں ہونے کا سوال کریں تو پھر عام آدمی سے کیا گلہ ؟بہر حال یہ حج کی عبادت کی خصوصیت ہے کہ وہ لوگ جو برسہا برس سے حج کرنے آتے ہیں وہ بھی یہاں کتابوں کی طرف مراجعت کرنے اور کبار علماءسے سوال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں .... اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً یاد دہانی کروادی جائے کہ ابتدائی عمرے کے علاوہ حج کے خاص طور پر پانچ ایام ہوتے ہیں یعنی آٹھ ،نو ،دس ،گیارہ اور بارہ ذی الحجہ .... 8ذی الحجہ یعنی یوم الترویہ کے دن تمام حجاج کرام مسجد حرام اور بیت اللہ شریف سے نکل کر منیٰ آجاتے ہیںیہاں ظہر سے لے کر اگلے دن کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کی جاتی ہیں پھر نو ذی الحجہ کی فجر کے بعد تمام حجاج میدان عرفات کا رخ کرتے ہیں جہاں مسجد نمرہ واقع ہے جہاں خطبہ حج دیا جاتا اور ظہر وعصر کی نمازیں اکٹھی ادا کی جاتی ہیں اور نمازوں کی ادائیگی کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک ذکر واذکاراوردعا کا اہم ترین اور قیمتی وقت ہوتا ہے ،غروب آفتاب کے ساتھ ہی حجاج کرام نماز مغرب اد ا کیے بغیرمزدلفہ کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں جہاں جا کر مغرب اورعشا کی نمازیں اکٹھی ادا کرتے ہیں اور رات کھلے آسمان تلے بسر کرتے ہیں،صبح یعنی دس ذی الحجہ کو فجر سے طلوع آفتاب تک وقوف عرفہ اور دعا ومناجات کا وقت ہوتا ہے پھر طلوعِ آفتاب کے بعد حجاج کرام مزدلفہ سے منیٰ آتے ہیں جہاں بڑے شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں،کنکریاں مارنے کے بعد قربانی کی جاتی ہے ،قربانی ہو چکنے کے بعد حلق یعنی سر کے بال صاف کروانے ہوتے ہیں....سر کے بال صاف کروا نے سے آدمی حلال ہو جاتا ہے یعنی احرام کھول سکتا ہے اس کے بعد عام کپڑوں میں بیت اللہ شریف کا طواف کیا جاتا ہے جسے طواف زیارت کہتے ہیں اور یہ بھی وقوف عرفہ کی طرح حج کا رکن ہے اس طواف کے بعد سعی ہوتی ہے اور سعی کے بعد پھر رات گزارنے کے لیے مکہ مکرمہ سے واپس منیٰ آنا پڑتا ہے اب منی میں قیام اور ذکر وتلاوت کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ گیارہ اور بارہ تاریخ کو تینوں شیطانوں کی رمی ہوتی ہے اورگیارہ بارہ کو یہ عمل ہوتا ہے جبکہ تیرہ تاریخ کی رمی اختیاری ہے کوئی رکنا چاہے تو اچھی بات ہے اور اگر بارہ کو ہی جانا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیںیوں ان پانچ دنوں میں یہ سب اعمال ادا کرنے کا نام حج ہے صرف نماز عید کی طرح عرفہ کاخطبہ حج ہوتا ہے اورنہ ہی گیارہ ذی الحجہ کے دن حجاج کرام مدینہ منورہ جاسکتے ہیں ۔

منیٰ میں خیموں کا ایک شہر آباد ہو جاتا ہے ....ایک ویرانہ یوں آباد ہوتا ہے کہ ہر طرف خیمے اورانسانوں کے سر ہی سر نظر آتے ہیں ۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس سال تقریباً پچیس لاکھ حجاج تو باقاعدہ کیمپوں اور خیموں میں اقامت پذیر تھے جبکہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو فٹ پاتھوں ،خالی جگہوں ،پلوں کے نیچے اورجہاں جہاں کسی کو موقع ملے وہ ڈیرے ڈال لیتے ہیں ۔ان لوگوں کو روکنے کی بھی بہت کوشش کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود نہ جانے کیسے اور کہاں سے اتنی بڑی تعداد میں حجاج کرام آپہنچتے ہیں ۔گزشتہ شب ہم رات دو بجے حرم شریف جانے کے لیے نکلے تو ایک چھوٹی سی پہاڑی کو دور سے دیکھا تو یوں لگا جیسے پہاڑی پر سفید کاغذ بکھرے پڑے ہیں لیکن جب قریب پہنچے تو دیکھا کہ اس پہاڑی پر لوگ سوئے ہوئے تھے۔ منی میں پانچ نمازیں اپنے اپنے کیمپوں میں ادا کی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دعاؤں اور ذکر واذکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔نو ذی الحجہ کی فجر کے بعد میدان عرفات کی طرف روانگی ہوتی ہے میدان عرفات میں زوال ِ شمس سے لے کر غروب آفتاب تک کا وقت وقوف کا ہوتا ہے اور یہ حج کا رکن ہے یہاں مسجد نمرہ ہے جہاں سعودی عرب کے مفتی اعظم مفتی عبدالعزیز آل شیخ نماز عید کے اجتماع سے خطاب فرماتے ہیں اللہ کی شان ملاحظہ کیجیے کے عالم اسلام کی اتنی بڑی اور علمی شخصیت بظاہر آنکھوں سے نابینا ہیں لیکن اللہ نے انہیں عجیب علم وحکمت سے نوازااور دلوں کی بادشاہی عطا فرمائی ۔سعودی عرب کی حکومت کی یہ بھی ایک بڑی خصوصیت ہے کہ ان کی طرف سے علماءکرام کو ان کے شایا ن شان قدر ومنزلت دی جاتی ہے چنانچہ حج سے دو دن قبل رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس پر کسی نشست میں تفصیلی بات ہو گی اس کانفرنس کے موقع پر بڑے پروٹوکول کے ساتھ ایک قافلہ آکر رابطہ کے مرکزی دروازے پر رکا ہم سمجھے شاید کوئی گورنر مکہ آئے ہیں یا کوئی اور اہم حکومتی شخصیت لیکن جب گاڑی کا دروزاہ کھلا تو دیکھا کہ شیخ عبدالعزیز مفتی مملکة ہیں ۔ہم نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیااس موقع پرموجود تمام لوگوں حتی کہ ڈیوٹی پر موجود فوجی جوانوں کی آنکھوں میں شیخ کے لیے جو عقیدت ومحبت دیکھی وہ علم اور تقویٰ کی بدولت ہی عطا ہوتی ہے ۔شیخ کے خطبہ اور ظہر وعصر کی نمازوں کی ادائیگی کے بعد لوگ دعاؤں میں موجود ہو جاتے ہیں ہر طرف سے خیموں سے ہچکیوں اور سسکیوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں ....اسی میدان میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے یادگار دعا کی تھی ....طویل دعا ....عاجزی وانکساری کی حدوں کو چھوتی ہوئی دعا جب آپ دیر تک کھڑے رہے ....ہاتھ اس قدربلند فرما رکھے تھے کہ صحابہ کرام فرماتے ہیں آپ کی بغلوں کی سفید ی دکھائی دے رہی تھی ....آہ وزاری کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے مبارک سے چادر گر پڑی تھی ....میں تو جب بھی اس میدان میں آتا ہوں مجھے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم یاد آجاتے ہیں اور سب کچھ مانگنے کے باوجود بھی جب تسلی نہیں ہوتی تو میں اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہوں کو اس میدان میں میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے اس یادگار دعا میں جو کچھ مانگا تھا مجھے اور پوری امت کو وہ عطا فرما دے ....میدان عرفات میں کچھ لوگ جبل رحمت جہاں پر چڑھتے ہیں ....عجیب دیوانگی اور وارفتگی کا عالم ہوتا ہے ،کچھ لوگوں کو ٹکریں تک مارتے دیکھا گیا ہے ....شدید گرمی اور حبس میں ہو کوئی اپنے رب کے سامنے دامن پھیلائے کھڑا ہوتا ہے ....شنید ہے کہ اسی مقام پرمحشرہوگا ....یہی وہ دن ہے جب اللہ اپنے اتنے زیادہ بندوں کو جہنم سے آزادی عطا فرماتے ہیں جتنے بندوں کو اس کے علاوہ کسی دن آزادی کا پروانہ عطا نہیں ہوتا ....میدان عرفات میں ہمارے رفقاءسفر مولانا انوار الحق نائب مہتمم جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک ،مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ناظم اعلی وفاق المدارس ،مولانا ارشاد احمد مہتمم دارالعلوم کبیروالا ،مولانا محمدعابد استاذ حدیث جامعہ خیر المداراس ملتان ،مولانا محمود الحسن اشرف مہتمم دارالعلوم اسلامیہ مظفر آباد ،مولانا مفتی صلاح الدین مہتمم دارالعلوم چمن بلوچستان ،مولانا سید ہدایت اللہ شاہ سابق سینیٹر ،مولانا حفیظ اللہ عثمانی اور دیگر کے خیمے ساتھ ساتھ تھے ۔ غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے سب ساتھی اپنے خیموں سے باہر نکل کر کھلی جگہ دھوپ میں دعا کرنے لگے.... مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے رقت آمیز دعا کروائی ،سب لوگ زارو قطار رو رہے تھے ....عجیب ایمان افروز منظر تھا ....رفتہ رفتہ دعا میں دنیا بھر کے مختلف علاقوں کے کبار علماءکرام اور شیوخ بھی شامل ہوتے گئے ....دعا ختم ہوئی تو سب حضرات نے اس موقع پر موجود مسجد کے اقصی ٰ کے خطیب شیخ یوسف جمعہ سلامہ سے گزارش کی کہ آپ دعا کروائیں انہوں نے مولانا حنیف جالندھری کے بارے میں کہا کہ شیخ کی رقت آمیز دعا کے بعد اب کسی دعا لیکن جب سب نے بہت اصرار کیا تو انہوں نے دعا کروائی اور ایک مرتبہ پھر سماں باندھ دیا غروب آفتاب تک میدان عرفات میں مناجات کی عجیب عالم رہا اور پھر ہم وہاں سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوگئے مزدلفہ میں جا کر مغرب اور عشا کی نمازیں اکٹھے اد اکیں ،یہاں مجھے اللہ نے عرب وعجم کے کبار اہل علم کی امامت کا اعزاز عطا فرمایا ،نمازوں کی ادائیگی کے بعد رمی کے لیے کنکریاں بھی یہیں سے چننی ہوتی ہیں اور اس کے بعدکھلے آسمان تلے رات بسر کرنی ہوتی ہے۔ اس ٹھنڈی اور خواشگوار رات کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے ۔عاشقانِ خدا اپنے اللہ کی محبت اور پنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میںفقیرانہ انداز سے پڑے ہوتے ہیں اسی رات شیطان کو مارنے کے لیے مزدلفہ سے کنکریاں جمع کی جاتی ہیں صبح نماز فجر سے پہلے اور بعد دعاو ¿ں کا اہتمام ہوتا ہے اور پھر طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ پر رمی کے لیے روانگی ....جمرہ پر رمی کرتے ہوئے عجیب کیفیت ہوتی ہے ،انسان معمول کی رفتا چلتے ہوئے جب جمرہ کے سامنے پہنچتا ہے تو قدم خود بخود تیزی سے اٹھنے لگتے ہیں بعض لوگوں کی حالت یوںلگتی ہے کہ اگر یہاں فائرنگ کی اجازت ہوتی تو وہ اس سے بھی گریز نہ کرتے ....میرے پھوپھی زاد بھائی یہیں سعودی عرب میں مقیم ہیں کہتے ہیں ایک پاکستانی خاتون رمی کرتے ہوئے اللہ اکبر کہنے کے بجائے غصے سے لرزتی آواز میں کہتی جا رہی تھی ”تو نے میری بیٹی کا گھر اجاڑہ؟....تو نے میری بیٹی کا گھر اجاڑہ؟“ دس ذی الحجہ کو صرف بڑے شیطان کی رمی ہوتی ہے اس کے بعد قربانی کی جاتی ہے اور قربانی کے بعد حلق یعنی سر کے بال صاف کروائے جاتے ہیں۔زندگی بھر بالوں کو سنوارنے ،سجانے اور سنبھالنے والے بھی اس دن حلق کروا رہے ہوتے ہیں ....حلق کرواتے ہوئے ہلکے پھلکے مزاح کا سلسلہ جاری رہا۔ سردارذولفقار کھوسہ کے بیٹے اور قومی اسمبلی کے ممبر سردار سیف کھوسہ نے حلق کرواتے ہوئے دلچسپ بات بتائی کہ حجام کے سامنے سب کو سر جھکانا پڑتا ہے جب ہم اپنے علاقے کے حجام سے شیو کرواتے اور وہ استرہ حلق کے بالکل قریب لے جا کر کہتا ”سائیں ! اس سال ہمیں گندم نہیں دی ؟“تو مجبوراً ہمیں کہنا پڑتا کہ” آکر لے جاناتمہارا حصہ رکھا ہوا ہے“حلق کے بعد آدمی حلال ہو جاتا ہے اور احرام اتار کر غسل کر کے عام لباس پہن کر پھر اگلے مرحلے میں طواف زیارت کرنا ہوتا ہے یہ طواف بھی حج کا رکن ہوتا ہے ۔ طواف زیارت اور سعی اس لحاظ سے ذرامشکل ہوتے ہیں کہ اس دن رش زیادہ ہوتا ہے طواف زیارت کے بعد پھر واپس آکر منی میں دو راتیں اور دو دن گزارنے ہوتے ہیں ان دنوں میں معمو ل کے ذکر واذکار اور تلاوت ومناجات کے علاوہ گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو تینوں شیطانوں کی رمی ہوتی ہے اور آج یعنی بارہ کو رمی کر کے چلے جانے کی بھی اجازت ہے اور کل یعنی تیرہ ذی الحجہ کی رمی کرنے کے بعد اگر مسجدخیف میں نوافل اد اکیے جائیں تو زیادہ بہتر ہے یوں ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد حج مکمل ہوتا ہے ۔ان تمام مراحل میں آدمی اگرچہ تھک جاتا ہے ....رُل جاتا ہے....کیا امیر کیا غریب ؟....کیا چھوٹے اور کیا بڑے ؟....کیا مرداور کیا عورتیں ؟....ناز ونعم میں پلے ہوئے بھی اور مفلسی کے دور سے گزرے ہوئے بھی.... سب اپنے رب کے سامنے عاجزانہ انداز سے آکر ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں....لیکن اس تھکن ،اس مسکنت ،اس مجاہدے ،اس عاجزی اور اس بھاگ دوڑ میں اپنا ہی لطف ہے ....پاکستان میں کسی گاڑی کے پیچھے لکھا ہوا پڑھا تھا”رُل تے گئے آں پر چَس بڑی آئی اے“ یعنی رُل تو گئے مگر زندگی کا مزہ بڑا آیا ....یہاں حج کا بھی یہی معاملہ ہے ....اللہ قبول فرمائے
بقول زکی کیفی
راہ دفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم

حج کے اعمال تو اگرچہ اس کے ساتھ ساتھ مکمل ہوجاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اللہ کے ہاں وہ حج مقبول بھی ہے یا نہیں ؟وہ حج مبرور ہے یا مردود اس کا فیصلہ تو اللہ نے کرنا ہے دعا فرمائیں اللہ تعالٰی ہم سب کے حج کو قبول فرمائیں اور سب کو باربارحج مبرور نصیب فرمائیں ۔آمین

اس پورے سفر میں جب اللہ کے فضل وکرم سے ہر طرح کی سہولتیں موجود ہیں ....سفر کے لیے آرام دہ اور اے سی والی گاڑیاں ،ٹرینیں....انتہائی پرسکون خیمے ....خیموں میں میسر ہر سہولت ....نرم وگداز بستر ....انواع واقسام کے کھانے ....ہر قسم کا بندوبست ....طرح طرح کے مشروبات ....جگہ جگہ بنی دکانیں ....عربوں کی سخاوت کے مظاہر ....حکومت کی طرف سے کیے گئے حیرت انگیز انتظامات ....لیکن اس کے باوجود حج کا سفر بہت مجاہدے کا سفر ہوتا ہے ....انسان ٹوٹ کر رہ جاتا ہے مجھے قدم قدم پر اور لمحہ بہ لمحہ اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب ؓ یا دآتے رہے جب تگدستی کا عالم تھا ....سفر کے ذرائع موجود نہیں تھے ....لق ودق اور دہکتے ہوئے صحراءتھے ....پانی تک میسر نہ ہوتا تھا ....لیکن اللہ کے وہ عظیم بندے کس کمال سے ان تمام مراحل سے گزرتے رہے ....اور پھر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفر ....سبحان اللہ ....ہم پاکستان میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا ایک ساتھ نام سنتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ دونوں شہر بھی ساتھ ساتھ ہوں گے پھر جب گاڑیوں والے ”مدینہ مدینہ “کی صدائیں لگتے ہیں توقرب کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے اور شاید اس قرب کے گمان میں دل کا بھی کوئی دخل ہے لیکن حقیت میں مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک بہت طویل تھکادینے والا سفر ہے ....وہ سفر کرنے کے بعد آکر حج کے اعمال پیدل اور اتنے مجاہدے سے ادا کرنے والے میرے آقاصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقا ءپر ان کے سہل پسند اور عیش کوش امتیوں کا ان صحراؤں میں بکھری ہوئی ریت کے بے شمار زروں ،درختوں کے پتوں اور پانی کے قطروں سے بھی زیادہ سلام پہنچے -
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 142388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.