غرارے۔ ۔ ۔ گیس چوری اور راجہ صاحب

پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی فیصل آباد والی فیکٹری میں گیس چوری کاواقعہ منظر عام پر آنے کے بعد یہ خبر بھی سنی گئی کہ صدرصاحب نے اس خبر کے سامنے آنے پر ان کی خبر لیتے ہوئے کہا کہ بل کیوں نہیں ادا کرتے ؟؟´جس پر راجہ صاحب نے بھی انہیں وجہ بتا دی ۔ایک سال قبل محکمہ گیس نے ایک کروڑ روپے کے بل ادا نہ کرنے پر راجہ صاحب کی فیکٹری کی گیس کاٹ دی تھی ۔ ایک سال بعد محکمہ گیس کو پتہ چلا کہ راجہ صاحب توپھر سرکاری گیس استعمال کر رہے ہیں اور بل بھی نہیں دے رہے یعنی گیس چوری کر رہے ہیں جس پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر راجہ صاحب کی فیکٹری کی گیس کاٹ دی ۔راجہ صاحب اپنی پارٹی کے وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین سے ملے اور یوں ایک مرتبہ پھر ان کی فیکٹری کے لیے گیس کی فراہمی شروع ہو گئی اس مرتبہ راجہ صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ وہ محکمہ گیس کو بل کی ادائیگی اقساط میں کر دیں گے ۔اب سوال یہ ہے کہ اگر راجہ صاحب کی بجائے مجھ جیساکوئی عام شہری ایسی حرکت کرتا تو کیا اس کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھا جاتا؟ کیا وزیر پیٹرولیم اسے ملاقات کا وقت عنایت کرتے اور اس کے لیے بھی گیس بحال کروا دیتے؟ میں وزیر پیٹرولیم سے کبھی نہیں ملا اس لیے مجھے ان سوالوں کے جواب بھی نہیں معلوم لیکن میرا خیال ہے کہ شاید ایسی جسارت کرنے پر مجھے بھی بڑے اعزاز سے قریبی تھانے لیجایا جاتا اور کم سے کم بھی پانچ ”چھتروں “ کی سلامی تو ضرور دی جاتی۔وزیر پیٹرولیم سے نہ ملنے کی وجہ سے میں یہ بات اندازے سے ہی کہہ سکتا ہوں لیکن پنجاب اسمبلی کی رپورٹنگ کے دوران راجہ صاحب کا قریبی جائزہ لینے کی وجہ سے مجھے یہ یقین کافی عرصہ سے تھا کہ راجہ صاحب کے حوالے سے ایسی کوئی خبر ضرور سننے کو ملے گی ۔

ان دنوں میں پنجاب اسمبلی کی رپورٹنگ کررہا تھا ۔راجہ صاحب پنجاب کی حکمرانی سے نئے نئے اپوزیشن کی حکمرانی کی گدی پر جلوہ افروز ہوئے تو میں نے راجا صاحب کا انٹرویو کرنے کا فیصلہ کیا ۔ان دنوں راجہ صاحب اسمبلی ہال کے اندر اور باہر خوب بڑھکیں لگایا کرتے تھے ۔ ایک دن جب میں انٹرویو کی نیت سے پنجاب اسمبلی میں راجہ صاحب کے کمرے میں گیا تو راجہ صاحب اپنی پارٹی کے کچھ سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ میں خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گیا اور ان کی باتیں سننے لگا۔ اس دوران جن جن امور پر گفتگو ہوئے وہ کم از کم میرے لیے حیرت کا باعث تھی ۔ میں نے اپنے کیمرہ مین کو کہا کہ راجہ صاحب اصل حکومت میں تو اب آئے ہیں ۔اب کس کی مجال جو ان کی کوئی بات رد کر نے کی جرات کرے ۔ مختلف MPA راجہ صاحب کے اس دربار میں حاضر تھے اور راجہ صاحب کسی کا کام وہیں بیٹھے بیٹھے کروا رہے تھے اور کسی کو یقین دلا رہے تھے کہ جلد ہی اس کا کام ہو جائے گا بہرحال اس دربار سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جا رہاتھا ۔ اس دوران راجہ صاحب نے کچھ” نیک “کام بھی کیے جو ان کے ”نامہ اعمال“ میں یقیناََ سنہری حروف میں لکھے جائیں گے ۔ ان کاموں میں ”اپنے“ لوگوں کو عمرہ کروانا سر فہرست تھا۔ درمیان میں راجہ صاحب سے کچھ ایسی حرکات بھی سرزدرد ہوئیں کہ میں بے اختیار یہ گننے لگ گیا کہ اس وقت کتنے لوگ اس کمرے میں موجود ہیں جنہوں نے یہ سب دیکھا ہے ۔راجہ صاحب کے پی اے کو نکال کر 17 ایم پی اے اور تین پولیس آفیسر کمرے میں موجود تھے جبکہ میں اور میرا کیمرہ مین ان کے علاوہ تھے۔ راجہ صاحب نے پانی منگوایا اور اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے غرارے شروع کر دیے اورمیز کے نیچے پڑی باسکٹ پانی سے بھرنا شروع کر دی ۔راجہ صاحب کے غراروں کی آوازیں کمرے میں گونج رہی تھیں ، ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتے رہے ، درمیان میں کبھی کبھی ناک میں بھی انگلی گھماتے جاتے ۔ میرے ساتھ بیٹھے کیمرہ مین نے مجھے کہا کہ راجہ صاحب کا شمار ہمارے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو بہت سادہ مزاج ہیں اور آفس اور گھر میں فرق نہیں رکھتے ۔میںنے اس کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے کہا کہ اس وقت سے ڈرو جب یہ خبر آئے گی کہ یہ سادہ مزاج گھر اور ملک میں بھی کوئی فرق نہیں رکھتے اور ملکی دولت کو گھر کی دولت سمجھتے ہیں ۔یہ کہہ کر میں کمرہ سے باہر آگیا ۔مجھ پر عجیب سی اداسی طاری ہو گئی اور اس دن میں نے وہ انٹرویو نہیں کیا ۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اگر ہمارے پڑھے لکھے سیاست دان ایسے ہیں تو اس سے بہتر تھا ہم ان پڑھ سیاست دانوں سے ہی کام چلا لیتے ۔ ہماری اسمبلی میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کی شرائط پر پورا اترتے ہیں ۔ان آرٹیکلز کے مطابق کوئی ایسا شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا جو کرپٹ ، زانی ،شرابی، بدکار اور جرائم پیشہ ہو۔ پھر آخر کیوں ہم آئین کے یہ آرٹیکل نافذ نہیں کرتے؟کیا یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں ؟ کیا اس لیے کہ اگر یہ آرٹیکل نافذ ہو جائیں تو ہماری اسمبلی میں بیٹھے سیاست دان اسمبلی سے باہر ہو جاتے ہیں ؟؟ اور اگر آئین کے یہ آرٹیکل نافذ ہیں تو پھر ایسے لوگ اسمبلی میں کیسے ہیں جن کی کرپشن اور جرائم سب کے سامنے ہیں ؟؟؟
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 50035 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.