پاکستان اور بھارت کے مابین
تلخیوں جنگوں اور رنجشوں کی برف دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے۔ ایک طرف بھارت
پاکستان ڈائیلاگ کا دیدہ زیب منظر دیکھنے کو ملا تو دوسری جانب تجارتی
معاہدوں نے دونوں کو ایک دوسرے کا نقطہ نظر دیکھنے سمجھنے اور پرکھنے کے
مواقع میسر آئے ہیں۔قرائن سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ اگرمذاکرات کا تسلسل جاری
رہا تو برصغیر پاک و ہند پر ایٹمی جنگ کے خطرات اور خدشات محدود ہوجائیں گے۔
پاکستان نے حال ہی میں پاک بھارت ٹریڈ کو وسعت دینے کے لئے انڈیا کو
پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دیا۔ وفاقی کابینہ نے پاک بھارت تجارتی حجم کو دو
ارب60 کروڑ کی بجائے6 ارب ڈالر کرنے کی منظوری دی۔ مالیاتی جادوگروں اور
معاشی ماہرین نے رائے دی ہے کہ پاکستان کو800 ملین ڈالر کا فائدہ
ہوگا۔کنٹرول لائن پر 4 دنوں کے لئے تجارت کی اجازت ہوگی۔mfn نے بھارت کی
ایک دیرینہ خواہش پوری کردی ۔ بھارت پاکستان کو 1996 میں favouritve nation
mostکا درجہ دے چکا ہے۔کہا جارہا ہے کہ دونوں ملکوں پاک بھارت کو معاشی
فائدہ ہوگا۔ماہرین کے مطابق پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کا حجم 30 ارب
ڈالر کو چھو سکتا ہے۔2009تا2010 میں دونوں کے درمیان1.4بلین ڈالر کی تجارت
ہوئی تھی جس میں بھارت کا حصہ1.2بلین ڈالر تھا۔دوسری طرف بھارت میں
پاکستانی مصنوعات کی ایکسپورٹ کا ہندسہ268 ملین ڈالر تک پہنچ کر تھم
گیا۔ماضی میں ہمیشہ بھارت کا سٹیٹس اہل پاکستان کے نزدیک ناپسندیدہ ترین
تھا اوراسیstatus کے کارن دونوں نے چار جنگیں لڑیں۔شکسپیر کا فقرہ ہے کہ
دشمن بلاواسطہ آپکا دوست ہوتا ہے اور اسکی رقابت میں محبت کا عنصر ہوتا
ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ اقوام عالم میں کوئی قوم مخالفین کی عدم موجودگی میں
ترقی نہیں کرسکتی۔ حضرت داتا گنج بخش ہجویری وقت کے عظیم ولی اللہ تھے۔
ایران کا ایک شہزادہ آپکے دربار میں پہنچا اور اپنی مشکلات سے آگاہ
کیا۔شہزادے نے بتایا میری حیثیت کانچ کی بوتل ایسی ہے جس کے ارد گرد دائیں
بائیں نوکیلے پتھروں کی دیواریں موجود ہوں۔ میں ہر وقت دشمنوں کے نرغے میں
مبتلا رہتا ہوں میرا سکون غارت ہوچکا۔دل و دماغ پر خوف کی پرچھائیاں مسلط
رہتی ہیں۔ حضرت نے شہزادے کو نسخہ شفا دیا اور گویا ہوئے کہ اپنی سوچ و فکر
کو دشمن کے خوف سے آزاد کر لو۔اپنی سوئی ہوئی قوت کو بیدار کر نے کی مشقت
کرو۔جب پتھر اپنے آپکو کانچ سمجھنے لگتا ہے تو پھر وہ کانچ بن بھی جاتا
ہے۔MFN کی صحت پر شک و شبے کا اظہار کیا جاتا رہے گا۔پاک بھارت ہسٹری پر
نظریں گھمائیں تو مایوسی اورنراسیت کے علاوہ کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ تجارتی
معاہدوں سے بالا تر ہوکر مسئلہ کشمیر اور ابی تنازعات کا حل تلاش کیا
جاوے۔جب تک یہ تنازعات حل نہیں ہوتے اس وقت تک پاک بھارتmfn معاہدہ کبھی
عملی شکل کے سانچے میں نہیں ڈھالے جا سکتے۔ |