شیخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت
میں لکھتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کی آواز اچھی نہ تھی بہت بلند آواز میں
قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتا تھا ایک دن ایک دانش مند شخص اس طرف سے گزرا
تو اس نے پوچھا
”بھائی تجھے اس کام کاکیا معاوضہ ملتاہے ؟“
اس نے جواب دیا
”کچھ بھی نہیں “
دانش مند نے کہا کہ ”پھر اس قدر مشقت کیوں اٹھاتاہے “وہ قاری بولا ”خدا کے
لیے پڑھتاہوں “دانش مند نے کہا کہ ”خدا کے لیے مت پڑھاکر اگر تو اسی طرح
قرآن کی تلاوت کرتارہا تو ایک دن اسلام کی رونق کم ہوجائے گی ۔
اس حکایت میں شیخ سعدیؒ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نیکی اور بھلائی کے
کاموں میں بھی شائستگی او راحسن طریقہ اپنا نا ضروری ہے ورنہ دوسری صورت
میں اصلاح پر آمادہ لوگ بھی بدک جاتے ہیں ا ور ان کی طبیعت اپنے حال میں
مست رہنے کی طرف مائل ہوجاتی ہے دین کو مشکل بنا کر پیش کرنا بھی اسی نوعیت
کی بات ہے ایسا کرنے سے اسلام کی رونق زیادہ نہیں کم ہوتی ہے ۔
قارئین ہم نے گزشتہ کالم میں پوری دنیا کے لوگوں کے سامنے پاکستان میں ایک
انتہائی طاقتور ملک کی ایمبیسی کے اندر پاکستانی بچیوں کے ساتھ ”میرج ویزہ
انٹرویو “کے نام پر کی جانے والی شرمناک بدمعاشی اور بدسلوکی پر مبنی رویے
کو رکھا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیس بک پر چوبیس گھنٹوں کے اندر ہزاروں
لوگوں نے اس کالم کو پڑھا اس رویے کی مذمت کی اور لاکھوں لوگوں کے ساتھ یہ
کالم شیئر کردیا اب صورتحال یہ رخ اختیار کرتی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں
میں پاکستان کا سب سے بڑا ایشو اس سفارت خانے میں کی جانے والی اخلاقی
بدمعاشی اور ان کا شرمناک سلوک ہوگا جو انہوںنے نجانے کب سے پاکستانی بچیوں
کے ساتھ روا رکھا ہواہے ۔
قارئین جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ فاتح جنگ جو اقوام جب بھی
کسی علاقے یا ملک پر قبضہ کرتی تھیں تو وہ وہاں کی دولت ،سونا ،چاندی اور
دیگر وسائل لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے مفتوحہ علاقے کی بچیوں اور عورتوں کو
اپنی داشتہ بنا لیتے تھے تاکہ شکست خوردہ فوج اور قوم سرا ٹھانے اور منہ
دکھانے کے قابل نہ رہے اور مستقبل میں کبھی بھی مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہ
سکے سوچا جائے تو آج پاکستان کے ساتھ بھی تقریباً وہی سلوک کیا جارہاہے
زرادیکھیئے تو سہی کہ ہمارے ساتھ کیا کیا ہورہاہے 1971ءمیں ہمارے ملک کے دو
ٹکڑے کردیئے گئے اس کے بعد افغانستان پر سوویت یونین کی یلغار کے بعد
پاکستان کو لالی پاپ دیتے ہوئے ایک جنگ میں الجھایا گیا ،روس کے ٹوٹنے کے
بعد پاکستان میں گروہی ،لسانی اور مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دیا گیا اور
ہوتے ہوتے آج صورتحال یہاں تک آپہنچی ہے کہ آزادکشمیر کے سابق وزیر اعظم
سالارجمہوریت سردار سکندر حیات خان نے راقم کو آزادکشمیر ریڈیو ایف ایم
93پر براہ راست انٹرویو دیتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ کشمیر کو اب
چھوڑیئے پاکستان کی فکر کیجئے کیوں کہ پاکستان کی سالمیت کو شدید ترین
خطرات درپیش ہیں اور بہت سی قوتیں پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں اگر پاکستان
ہے تو کشمیر ہے اگر پاکستان نہ ہوا تو کشمیر کیس بھی ختم ہوجائے گا ۔
قارئین انکل سام نے سات آزادیوں کا پرچم لہراتے ہوئے افغانستان پر حملہ کیا
تھا آج اس کا لہراتاہوا پرچم افغان مجاہدوں نے چیتھڑوں میں بدل دیاہے اور
افغانستان میں امریکی فوجیوں اور نیٹو میں شامل دیگر اقوام کے فوجیوں کی
بہت بڑی تعداد میں ہلاکت نے کھلبلی مچادی ہے حتیٰ کہ تازہ ترین خبریہ ہے کہ
امریکہ کے اندر اس وقت عوام میں شدید ترین غم وغصے کی لہر پھیل گئی ہے جس
کی وجہ وہ خبر بنی ہے جس کے مطابق لاتعداد امریکی فوجیوں کی لاشوں کو جلاکر
یا سمندر برد کرکے ان کے لواحقین کو بتانے تک کی زحمت نہیں کی گئی کہ ان کے
پیارے زندہ ہیں یا افغان جنگ کی نذر ہوچکے ہیں یہ اتنا بڑا سکینڈل ہے کہ
یقین رکھیئے کہ اوباماانتظامیہ کے لیے جواب دینا ناممکن ہے اسامہ بن لادن
کی ہلاکت اور ڈرون حملوں کے ذریعے اوبامااینڈ کمپنی کی یہ کوشش تھی کہ
امریکی الیکشن میں ان ایشوز کے ذریعے کامیابی حاصل کی جائے لیکن ان
انکشافات نے اوباما اور ان کی پارٹی کے تابوت پر آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے
۔۔۔ہورچوپو گنے (یہ پنجابی کا محاورہ ہے جس کا اردو ترجمہ ہے کہ اور چوسیئے
گنے )
قارئین اس وقت پاکستانی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر ہونے والی
ان بدمعاشیوں کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدام اُٹھاتی ہے یا بے غیرتوں کی
طرح اسی تنخواہ پر کام کرتی رہتی ہے ہم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ پاکستانی قوم
اس وقت ذلت والی اس زندگی سے تنگ آچکی ہے اورتبدیلی چاہتی ہے ہم نے گزشتہ
دنوں آزادکشمیر ریڈیو ایف ایم 93پر ایک تاریخی انٹرویو کیا جس میں پاکستان
مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال ،سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار سکندرحیات
خان ،سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان،ڈپٹی سپیکر شاہین کوثر ڈار ،سردار
عثمان عتیق مسلم کانفرنس ،سردار خالد ابراہیم جموں وکشمیر پیپلزپارٹی اور
دیگر مہمانوں نے شرکت کی اس انٹرویو میں ”قومیت “کے موضوع پر گفتگو کی گئی
اس انٹرویو کا خلاصہ یہ تھا کہ احسن اقبال نے ایک سوا ل کا جواب دیتے ہوئے
کہا کہ پاکستانی قوم ظلم وستم سے تنگ چکی ہے اور تبدیلی کے لیے دائیں بازو
کی تمام جماعتیں اتحاد کرسکتی ہیں حتی ٰ کہ نوازشریف اور عمران خان کا
اتحاد بھی کوئی دور کی کوڑی نہیں بلکہ قرین از قیاس ہے یہ ایک بریکنگ نیوز
ہے ۔
قارئین خیر یہ تو وہ بلبلے ہیں جو پانی کی تہہ میں ہیں جب اوپر آئیں گے تو
دنیا بھی دیکھے گی اور ہم بھی دیکھیں گے ابھی تو ہم آگ کے ان شعلوں کو دیکھ
رہے ہیں جو غیر ملکی سفارت خانے کی اس بدمعاشی کی صورت میں بلند ہورہے ہیں
فیس بک پر لاکھوں لوگ یہ خبر کروڑوں لوگوں تک پہنچائیں گے اور پھر اربوں
لوگوں تک یہ بات پہنچے گی اور اس کے بعد ”تہذیبوں کے درمیان جنگ “کے عنوان
سے جس آخری لڑائی کی بات کی جاتی تھی شاید وہاں تک نوبت جاپہنچے ۔
دل اس حد تک جل رہاہے کہ سمجھ نہیں آتاکہ کس ویرانے کا رخ اختیار کرلیں کہ
جہاں کم از کم انسان کی ناموس تو محفوظ ہو ہمارے بے غیرت حکمرانوں ،سیاست
دانوں اور مقتدر طبقا ت نے زلت کی وہ انتہائیں ہم پر مسلط کردی ہیں کہ سوچ
اور عقل تک ماﺅ ف ہوکر رہ گئے ہیں بقول غالب یہی کہیں گے
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زبان کوئی نہ ہو
بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو او رپاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے اگر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور گر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
قارئین ہمیںپورا یقین ہے کہ اس ایشوپر اور کوئی بولے یا نہ بولے تحریک
انصاف کے کپتان عمران خان اور مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ضرور
بولیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی امید ہے کہ ”غیرت بریگیڈ“کا طعنہ جن
کالم نویسوں کو دیا جاتاہے وہ ہماری کمزور آواز کو ضرور تقویت پہنچائیں گے
ورنہ بقول اقبال
ہے عیاں یورش ِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
اگر ہم اللہ کے دین پر عمل پیرا نہ ہوں گے تو اللہ ہماری جگہ کسی دوسری قوم
کو لے آئے گا نقصان اس صورت میں ہمارا ہی ہوگا
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک آدمی جوتوں کی دوکان پر جلدی میں آیا او رکہنے لگا یار جلدی سے ایک
زنانہ چپل دے دینا
دوکان دار نے پوچھا جناب سائز تو بتادیں
آدمی نے کہا
”وہ تو لانا میں بھول گیا خیر میری کمر سے لے لیجئے “
قارئین ہمیں جس سائز کے جوتے پڑرہے ہیں ان کا ناپ لینے کی ضرورت نہیں ہے
کیونکہ مقصد صرف اور صرف ذلت ہے اور یقین کیجئے کہ اس شرمناک سلوک کے بعد
ذلت کی انتہا مسلط ہوچکی ہے ۔۔۔ |