ترکی کی اسلامی مملکت ایک گہری
سازش کے تحت برطانوی سامراج کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کروائی گئی۔ سلاطین ترک
اسلام پسند تھے، وہ اسلامی احکام سے متعلق مخالفین اسلام کی زہر افشانی پر
تڑپ اٹھتے تھے، وہ عاشق رسول تھے، ناموس رسالت کے لیے جذبہ صادق رکھتے تھے۔
مسلسل سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے برطانیہ نے ترک سلطنت کی بساط سمیٹ
کر رکھ دی، عرب ترک قضیہ کھڑا کیا، علاقائی، لسانی اور قبائلی عصبیتوں کو
ہوا دی، نتیجہ یہ ہوا کہ ایک صدی کے اندر ہی ترکی کی سلطنت جو سُپر پاور کی
حیثیت رکھتی تھی تقسیم ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھی۔ماضی کی یہ سب سے بڑی
اسلامی مملکت تھی جس کی سرحدیں سندھ و روس اور یورپ و افریقہ سے ملتی تھیں۔
ایک عرصہ کے بعد جب عرب کے وہ علاقے جو برطانوی تسلط سے آزاد ہوئے، وہ اپنی
اسلامی حس کھو بیٹھے تھے، ان پر ایسے حکم راں بٹھائے گئے جن میں اسلامی
غیرت باقی نہیں تھی، پھر فلسطینیوں پر تو ظلم کی انتہا کر دی گئی، انھیں
آزادی ملی اور اس سے قبل ہی اسرائیل کا خاکہ اندرونی طور پر تیار کر لیا
گیا تھا، آزادیِ فلسطین کے ساتھ ہی اسرائیل کا اعلان بھی کروا دیا گیا۔ اسے
بھرپور توانائی دی گئی۔ طاقت پہنچائی گئی۔اسرائیل بہت مختصر مدت میں ایک
بڑی فوجی طاقت بن گیا۔ساری دنیا سے یہودی لا کر اسرائیل میں بسائے
گئے،عربوں پر اسرائیل کا وجود ایک بڑے صہیونی مقصد کی تکمیل کے لیے تھا جس
کے اثرات موجودہ عرب بحران کی شکل میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
عربوں میں وہ غیرت نہیں کہ وہ اسلام کے نام پر متحد ہوں، ان کی اپنی قوت
نہیں، وہ اپنے ہی بھائیوں کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ و برطانیہ کو بلاتے
ہیں۔ دعویٰ توحید کا کرتے ہیں اور تثلیث کے پجاریوں کو موحدین کے قتل پر
ابھارتے ہیں۔ ہتھیار امریکہ و اسرائیل تیار کرتے ہیں اور ان کا استعمال
مسلم آبادیوں پر بے دریغ کیا جاتا ہے۔ کیا یہ المیہ ہماری بیداری کو کافی
نہیں؟.... لیکن غیرت و حمیت کا جب جنازہ نکل جاتا ہے تو وحشت میں ہر نقشہ
الٹا نظر آنے لگتا ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ جب جاپان تباہ ہوا تو اس نے خود کو
سنبھالنے کے لیے ترقیاتی شعبوں میں نئے خیمے نصب کیے۔ دفاعی پوزیشن کو ایسا
سنبھالا کہ ایک قوت بن کر ابھرا....دوسری طرف اسلامی مملکتوں کا حال دنیا
کے سامنے ہے۔ عوام اسلامی اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں،
حکومتیں اسرائیل کے متعین کردہ خطوط پر رعایا کو چلانا چاہتی ہیں۔
اسرائیل نے عربوں کے ذہن و فکر کو ڈائنامائٹ کرنے کے لیے ”بنیاد پرستی“ (Fundamentalism)اور
اسلامک ٹیررزم(Islamic Terrorism)جیسی اصطلاحات کو رواج دیا جب کہ اسلام
ایسی تمام اصطلاحوں کو رد کرتا ہے۔ مسلمان مسلمان ہے، اس کی زندگی اسلامی
احکام کی تابع ہے۔ اس سے انحراف ہرگز گوراہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل نے
عربوں کی سرزمین پر صرف قبضہ ہی نہیں کیا، طاقت و قوت سے لیس ہونے کے ساتھ
ساتھ عربوں کے حالات پر نظر رکھی، اندرونی طور پر اپنے ایجنٹوں کو پورے عرب
میں پھیلا دیا۔ عربوں کی طاقت، قوت، اتحاد، اسلامی جذبہ سبھی کو پیش نظر
رکھا۔ہر سازش پر اسرائیل نے عمل کیا۔
ارتقا کی جانب رواں خوش حال مملکتوں میں حکمران اور عوام میں دوریاں پیدا
کیں تا کہ اسلامی ممالک ترقی نہ پا سکیں۔ اسلام کی طرف مائل حکومتوں کو جب
زیر نہ کر پائے تو ان کی فوج کو لبرل (Liberalization)اور جدت
پسندی(Modernization) کی تعبیر دے کر اسلامی فکر و خیال کے خلاف ابھارہ،
تخت و تاج پر قابض کروایا۔یہ کارڈ ترکی و مصرمیں تجربہ کیا گیا۔ جب دیکھا
گیا کہ خطے میں عراق و ایران طاقت بن کر ابھر رہے ہیں تو عراق ایران جنگ
کروا دی گئی کہ خود ہی تباہ و برباد ہوتے رہیں گے، سر نہ ابھار سکیں گے۔
ایک عرصے تک لڑنے کے بعد جب انھیں احساس ہوا کہ ہم اسرائیلی سازشوں کا شکار
ہیں تب وہ بیدار ہوئے ، ترقیاں کیں، خوش حالی کا دور دورہ ہوا، عراق کے صدر
صدام حسین کے اندر ایک حساس دل تھا، اسے فلسطینیوں کا غم تھا، ان کے لیے اس
نے ہم دردی کا ماحول سازگار کیا۔
عراقی صدر نے دیکھا کہ ہماری دولت پٹرول ”ڈالر“ میں عالمی مارکیٹ میں فروخت
کی جارہی ہے، اس زر مبادلہ کے نتیجے میں امریکہ مضبوط ہو رہا ہے، امریکہ جو
اسرائیل کا حامی ومعاون ہے وہ اسی ”ڈالر“ سے اسرائیل کو مسلسل توانائی
فراہم کر رہا ہے، عراق نے عربوں کو تیل بہ طور طاقت استعمال کا مشورہ
دیا،عالمی مارکیٹ میں تیل کے دام امریکی کرنسی میں طے کرنے کی مخالفت کی
اور ”یورو“ میںتیل کی قیمت وصول کرنے کی تجویز رکھی،تیل کے دام میں اضافے
کی تجویز رکھی، یہ دانش مندانہ قدم تھا، اس کی حمایت کی جانی چاہیے تھی،
اسی کو لے کر اس نے کویت پر دباؤ بنایا، کسی دور میں کویت عراق کا ہی ایک
شہر ہوا کرتا تھا، صدام نے کویت پر قبضہ کیا، یہ اس کاایک طرح سے ملکی
مسئلہ تھا لیکن! بجائے اس کے کہ عراق کا ساتھ دیا جاتا اسی کو بہانا بنا کر
(اسرائیلی سازش کے تحت) سعودی عرب نے امریکی فوج کو اپنا مہمان بنایا، اپنی
پاک سرزمین پر انھیں شراب و شباب فراہم کر کے مسلم ملک عراق کو تباہ
کروایا، صرف اس لیے کہ عراق نے اسلامی معیشت کو تیل کے ذریعے ترقی دینا
چاہا تھا، اسرائیل کے وجود سے فلسطین کو پاک کرنا چاہا تھا، اسرائیل نے
عربوں کی ہی سرزمین کو عراق کی تباہی کے لیے استعمال کروایا، گویا اپنے
ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سعودی عرب کو استعمال کیا، عقیدت کے غلاف میں
ہم سعودی کے اس اسرائیل نواز قدم کی حمایت نہیں کر سکتے۔
اسرائیل نے اسلام کی بات کرنے والوں کو پھانسی دے کراور مروا کر عالم اسلام
کو غیر اعلانیہ دھمکی دے دی کہ جب بھی کوئی اسلامی استحکام کی بات کرے گا،
فلسطین کی حمایت کرے گا اسے ایسے ہی انجام سے دوچار کر دیا جائے گا۔
اسرائیل کی اسلام دشمنی کا یہ حال کہ اس نے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازہی کو
ختم نہیں کیا بلکہ صدام کی نسل کو بھی چن چن کر ختم کر دیا کہ کہیں کوئی
چنگاری شعلہ نہ بن جائے اور جس سے اسرائیل کا وجودخطرے میں پڑ جائے۔
کرنل قذافی جیسا بھی تھااسے فلسطینی مسلمانوں سے ہمدردی تھی، اس کے دور میں
لیبیا کی اسلامی دانش گاہیں اور درس گاہیں پھل پھول رہی تھیں، وہ رعایا کو
بنیادی سہولیات مفت فراہم کرتا تھا، وہ فلسطین کے مظلوموں سے محبت کرتا
تھا، وہ ان کے حقوق کی بات کرتا تھا، عربوں کی غیرت کو آواز دیتا تھا، ان
کی حمیت کو ابھارتا تھا، اس کی یہی غیرت اسرائیل کو گوارہ نہ ہوئی، سازشوں
کے ذریعے اس کی مخالفت پر کچھ لوگوں کو خریدا گیا، بکنے والے کم زور تھے،
قذافی قد آور سربراہِ مملکت تھا، اس لیے ناٹوکی خدمات حاصل کی گئیں اور
قذافی کی آڑ میں لیبیائی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ مسلم نسل کشی
کی یہ داستان جس طرےقے سے اسلامی ممالک میں دہرائی جا رہی ہے یہ عالمی سازش
کا حصہ ہے، جس کے خلاف سعودی عرب کو مسلم ممالک کو متحد کر کے بیداری کا
مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کرنی چاہیے تھی، سفارتی
طور پر اسلام مخالف قوتوں سے تعلقات منقطع کرنے چاہئیں تھے لیکن! ایساکچھ
بھی نہیں ہوا۔ عرب بکھرے رہے، مجتمع کیوں ہوتے؟ عربوں کے اتحاد سے اسرائیل
کے وجود کوخطرہ ہے، پھر کیوں اسرائیل کے ہم درد عرب حکم راں متحد ہونے
لگیں!
دونوں حکمرانوں کو شہید کرنے کے ان کی منفی شبیہ پیش کی گئی۔ ان حکم رانوں
کو اسلام سے ہم دردی تھی اس لیے مسلمانوں کے دل ان کے لیے نرم تھے، مخلص
تھے تو ذرائع ابلاغ(Media) نے یہ کیا کہ ان کی خود ساختہ تصویریں دنیا کے
سامنے پیش کی جن میں انھیں عیاش بتایا گیا، ظاہر ہے کہ مسلمان عیاش حکمراں
کو پسند نہیں کرے گا ایسا صرف مسلمانوں کے ذہنوں کو ان سے پھیرنے کے لیے
کیا گیا، کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں کہ حقایق کا پتا لگائیں، اسرائیلی
سازشوں سے باخبر ہو کر اپنی قومی عظمت کو آواز دیں۔ اردو میڈیا کی بھی یہ
ذمہ داری ہے کہ کسی مسلم حکم راں کی منفی شبیہ پیش کرنے سے قبل تحقیق کر لے
کہ اس طرح کی خبر کے حصول کا ذریعہ مغربی و صہیونی میڈیا تو نہیں! ورنہ
بصورت دیگر ہمارا جرم قوم معاف نہیں کرے گی۔ |