تم سے پہلے گذرنے والی اقوام میں
کسی شخص نے نناوے (99) آدمی قتل کئے ، اور لوگوں سے پوچھا اس زمانے میں
روئے گیتی پر کون بہت بڑا عالم فاضل ہے؟ لوگوں نے ایک راہب کے متعلق بتایا
وہ اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ میں نناوے آدمی قتل کرچکا ہوں کیا میرے لئے
توبہ کی گنجائش ہے؟ راہب نے کہا نہیں! اس نے راہب کو بھی قتل کردیا اور
تعداد پوری سو (100) ہوگئی پھر پوچھا کہ روئے زمین پر اب کون عالم ہے ؟ تو
اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا وہ ان کے پاس گیا اور کہا کہ میں سو افراد
کا قتل کرچکا ہوں کیا میری توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ عالم نے کہا کیوں
نہیں!تمہارے اور تمہاری توبہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں. تم فلاں جگہ چلے
جاؤ ! وہاں اﷲ کے کچھ بندے ہیں جو اﷲ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں . تم بھی
ان کے ساتھ اﷲ کی عبادت میں مصروف ہوجاؤ اور اپنے وطن لوٹنے کا خیال دل سے
نکال دو کہ وہ سرزمین بدی کا گہوارہ ہے ! وہ شخص بتائے ہوئے پتہ پر روانہ
ہوگیا. راہ ہی میں تھا کہ موت آگئی. اب رحمت و عذاب کے فرشتوں میں باہم
تنازع ہوا کہ اس کی روح کو ن قبض کرے . ملائکہ رحمت کا کہنا تھا کہ یہ دل
سے توبہ کرکے اور اﷲ سے لو لگا کر آرہاتھا . مگر فرشتہ عذاب کہہ رہے تھے کہ
اس نے تو زندگی بھر نام کی کوئی نیکی نہیں کی. اس تنازعہ کا فیصلہ کرنے کے
لئے ایک فرشتہ بصورت آدمی ان کے پاس آیا. جس کو انہوں نے ثالث مان لیا. تو
اس نے کہا زمین کی پیمائش کر لو،جس زمین کے یہ قریب ہو انہیں میں شمار کرلو،
زمین کی پیمائش کی گئی تو نیک لوگوں سے اس کا فاصلہ قریب نکلا لہٰذا فرشتہ
رحمت اس کی روح لے گئے.
( بخاری 3283 مسلم2766 )
صحیح روایت میں ہے کہ نیک لوگوں کی طرف اس کا فاصلہ بقدر ایک بالشت فریب
نکلا . اس لئے اس کو بھی ان ہی میں شمار کر لیا گیا.
صحیح ہی ایک اورروایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اول اﷲ تعالیٰ نے زمین اشرار
سے کہا کہ تو دور ہٹ اور زمین اخیار کو حکم ہوا کہ تو قریب سرک! اس کے بعد
پیمائش کا حکم دیا گیا تو وہ شخص زمین اخیار سے بقدر ایک بالشت نزدیک نکلا
. اسی پر اﷲ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرمادی. ایک اور روایت میں ہے کہ وہ
مرتے مرتے سینہ کے بل سرک کرزمین شر سے دور ہوگیا!
ریاض الصالحین ، |