آخربھائی بول پڑے کہ آج تین چار
دن سے آپ کے معمول میں تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے کیا وجہ ہے؟او ہ سوری میں
آپ کو بتانا بھول گیاکہ حقیقت کیا تھی اور بھائی جان نے میرے اندر کون سی
تبدیلی دیکھ لی تھی، اصل بات یہ تھی کہ ایک حسینہ دلربا نے اپنی
آنکھوں کے وار سے ہمیں چارو ں شانے چت کر دیا اور ہمارے زخمی دل پر جب ایک
وار اور لگا تو سوچا کہ شاید اب کی بار ہم ناکام نہ ہو ں گے اس لئے آج
چوتھا دن تھا اس حسینہ کی آنکھوں کا دیدار کرتے کرتے (کیونکہ سر سے لے کر
پاﺅں تک وہ نقاب میں ہوتی تھی)البتہ اب ہم یہ جاننے میں کامیاب ہوگئے تھے
کہ فلاں ٹائم پر اس نے یونیورسٹی کی بس پر بیٹھنا ہے اسی لئے ہم دیر تک
سونے والے دن چڑھے اٹھنے والے اپنے معمول سے پہلے اٹھ جایا کرتے ،تیار ہوکر
،بال بنا کراور آنکھوں میں فینسی چشمہ لگا کر ہم بس سٹاپ پرپہنچ کر اس مہ
جبیں کا انتظار کرنا شروع کردیتے ،اس انتظار کا بھی الگ مزہ تھا پھر وہ
حسینہ اپنے باپ کے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر بس سٹاپ پر آتی تو ہمارے بے قرار
دل کو قرار آجاتا اور دل سے دعا مانگنے لگ جاتے کہ آج بس وقت پر نہ آئے اور
ہم اسی طرح حسینہ مہ جبیں کی سمندر جیسی گہری آنکھوں میں کھوئے رہیں ،لیکن
یونیورسٹی کی بس ظالم سماج کی طرح وقت پہ آتی اور حسینہ جب لپک کر بس میں
سوار ہوتی تو ہم اس کی سادگی بھری ادا پر دل پکڑ کر بیٹھ جاتے اور بس کو
جاتے ہوئے دیکھتے رہتے ، اس طرح تین دن گزر گئے ،چوتھے دن ہمارے ساتھ بہت
برا ہوا ،ہم وقت پر بس سٹاپ پر پہنچ گئے آج معمول سے کم رش نظر آرہا تھا بس
سٹاپ تو ویران پڑا تھا آج ہم سوچ کر آئے تھے کہ حسینہ سے سلام دعا کریں گے
اور اسے بتائیں گے کہ تیری چاہت میں ہم بہت آگے نکل آئے ہیں کہ جہاں سے
واپسی کا کوئی راستہ نہیں، بس سٹاپ کی ویرانی نے ہمارا حوصلہ اور بڑھا دیا
ہم انتظار کرتے رہے اور بات کرنے کے بارے سوچتے رہے کہ بات کیسے شروع کریں
گے لیکن بس اور حسینہ نے آنا تھا نہ ہی آئے انتظار کرتے کرتے جب سورج ڈھلنے
لگا تو ہم بھی تھک ماندے ،دل ہارے ،کئی وسوسوں اور سوچوں میں گھرے گھر کی
طرف چل دیا۔ کبھی ذہن میں یہ خیال آتا کہ شاید اس نے ہماری وجہ سے سٹاپ بدل
لیا ہو تو کبھی ذہن میں اس کے ساتھ کسی حادثے یا بیماری کا تصور دل کو
مغموم کر دیتا لیکن جب ہم گھر پہنچے تو دیکھا بھائی جان گھر میں تھے ہم نے
بھائی جان سے آفس سے جلدواپس آنے کے بارے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آج تو
میں آفس گیا ہی نہیں کیونکہ آج تو اتوار ہے اور پھر ہمیں حسینہ کے نہ آنے
کی ساری وجہ سمجھ آگئی۔
لیکن آج جیسے ہی ہم تیار ہو کر گھر سے نکلنے لگے تو بھائی جان جو ہمارے
معمول کی تبدیلی کوبھانپ چکے تھے پوچھنے لگے کہ صبح صبح بال بنا کر ،چشمہ
لگا کر اور تیار ہو کرکہاں جاتے ہو؟،اک بار تو ہم پریشان سے ہوگئے کہ شاید
بھائی جان نے ہمیں بس سٹاپ پر منڈلاتے دیکھ لیا ہے لیکن پھر ہم سنبھل گئے
اور جواب دیا کہ ڈینگی مچھر کے خلاف مہم میں ہم دوستوں نے ایک کمیٹی بنائی
ہے تو لوگوں کو آگاہی کے سلسلے میں ہم سب دوست صبح صبح اکٹھے ہو کر اس پر
ڈسکس کرتے ہیں بھائی جان کو ہمارے جواب نے مطمئن کیا یا نہیں لیکن ہم نے دل
ہی دل میں مچھر کا شکریہ ضرور ادا کیا کہ اس کی وجہ سے آج جان بچ گئی ، ہم
جلد سے جلد بس سٹاپ پر پہنچے اورحسینہ مہ جبیں کے خیالوں میں کھوئے انتظار
کی گھڑیاں گننے لگے آج موسم بہت سہانا تھا آسماں پر بادل چھائے ہوئے تھے
اور ہمارے دل میں توان دنوں ویسے بھی موسم بہار تھا آخر موٹر سائیکل کی صور
اسرافیل کی طرح آواز سنائی دی اور حسینہ بس سٹاپ پر پہنچ گئی ،آج حسینہ وقت
سے پہلے بس سٹاپ پر آگئی تھی میرے دل میں یہ خیال آیا کہ شاید اس حسینہ کو
میرے بارے معلوم ہو گیا ہے اور اسے بھی مجھ سے عشق ہونے لگ گیا اس لئے وہ
اپنے وقت سے پہلے آئی ہیں لیکن اس وقت میرے ساری خوش فہمی خاک میں مل گئی
جب حسینہ کا باپ بھی بائیک کھڑی کر کے اس کے پاس کھڑا ہوگیا اور وہ دونوں
باتیں کرنے لگ گئے ادھر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا اور ادھر آسمان کو
بھی شایدمجھ پر رحم آیا اوراس نے میری اندر لگی عشق کی آگ کو بجھانے کے لئے
آسماں سے پانی برسانا شروع کردیا، ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوگئی جو جلد
ہی تیز بارش میں بدل گئی بس سٹاپ پر کوئی چھت وغیرہ نہیں تھی سو ہم بھیگنے
لگے اس کا نقاب بھی بھیگنے لگا اچانک ایک فقرہ میرے کانوں میں سنائی دیا جس
سے میرے ہوش و حواس کام کرنا ساتھ چھوڑ گئے جب مرد نے اسے یہ کہاکہ بیگم
صاحبہ اگر آج کوئی ضروری لیکچر نہیں دینا ہے توواپس گھر کو چلیں اس نے سر
ہلایا نقاب کو چہرے سے ہٹایا اس سے چہرے کو صاف کیا میک اپ جب اترا تو یہ
راز کھلا کہ وہ کوئی پینتالیس سالہ لیکچرار تھی۔۔ |