گفتگو کے دوران جون ایلیا اور
چائے بناتے ہوئے سفید سر والے رام لعل کی چھیڑ خانی مستقل جاری رہی۔
” یار رام لعل، چہرہ تو تیرا معشوق کی طرح حسین ہے مگر بال بالکل تیرے باپ
جیسے ہیں۔“
رام لعل نے مجلس کے قہقہوں میں شریک ہوتے ہوئے جون کی جانب پیالی بڑھاتے
ہوئے کہا ’لو پیو‘
’میں کیوں ؟ پہلے خمار بھائی کو دو۔‘ جون ایلیا نے کہا
’نہیں تم پہلے پیو ، کیونکہ تم پاکستانی مہمان ہو ‘
’مگر رام لعل پاکستانی تو تم بھی ہو ۔صرف تمہارا جسم ہی ہندوستانی ہے ، روح
تو پاکستانی ہی ہے‘۔ جون ایلیا نے جواب میں کہا
جون ایلیا کے اس جملے پر رام لعل خاموش ہوگئے جیسے بھولا وطن یاد آجائے۔
وسعت اللہ خان کے مندرجہ بالا مضمون میں رام لعل کے بیان کو پڑھنے کے بعد
ان کی خودنوشت کوچہ قاتل اور پاکستانی سفرنامے زرد پتوں کی بہار کی تلاش شد
و مد سے جاری تھی کہ اچانک بیمار کو قرار آگیا، ایک کرم فرما نے 1993 میں
لکھنو کے نصرت پبلشر کی شائع کردہ ’کوچہ قاتل‘ کی نقل مہیا کر دی جبکہ زرد
پتوں کی بہار لاہور سے آئی۔ رام لعل نے اپنی خودنوشت کا عنوان علی سردار
جعفری کے اس شعر سے اخذ کیا تھا:
کام کوئی اب نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچہ قاتل کے سوا
رام لعل:
پیدائش 3 مارچ 1923
وفات: 16 اکتوبر 1996
ہندوستانی افسانہ نگار رام لعل کو ہندوستانی کہا جائے یا پاکستانی، یہ
فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔ان کے تحریر کردہ افسانوں میں ہندو مسلم بھائی
چارے کی ایک ایسی فضا ملتی ہے جو برصغیر کی تقسیم کے دوران پیش آنے والے
خون آشام فسادات کی مذمت کرتی نظر آتی ہے۔تقسیم کے بعد کے ہندوستان میں
مسلمانوں کی حالت اور ان کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا جیسا
درست نقشہ رام لعل نے اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے ، شاید ہی یہ وصف کسی
اور کے حصے میں آیا ہو۔رام لعل میانوالی میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے
اجداد صدیوں پہلے راجھستان کے ریتیلے میدانوں میں گھوڑوں پر عرب حملہ آوروں
کے آگے آگے بھاگتے ہوئے وہیں جا کر پناہ گزین ہوئے تھے۔نقل مکانی ان کو
وراثت میں ملی تھی۔رام لعل لاہور سے اکھڑے اور لکھنو میں جمے لیکن بقول آغا
سہیل دل کا ایک کونا اجڑا تو پھر نہ بسا، لکھنو، لکھنو سہی لیکن لاہور نہ
بن سکا۔عجب اتفاق ہے کہ آغا سہیل خود لکھنو سے ہجرت کرکے لاہور آئے تھے، ان
کے لیے لکھنو، لاہور نہ بن سکا۔ ایک محفل میں افسانہ نگار مسیح الحسن نے
اپنا افسانہ مٹی سنایا تو اسے سننے کے بعد ہندوستانی ادیب رتن سنگھ زار و
قطار رونے لگے اور محفل میں موجود رام لعل کا رنگ اڑ گیا، ان کا دل تو رویا
لیکن آنکھیں خشک رہیں۔وہ بھی ایک وقت تھا جب رام لعل نے بازار سے قائد اعظم
محمد علی جناح کی ایک بڑی سی تصویر خرید کر اپنے گھر میں لگالی تھی۔
1938 میں رام لعل نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریلوے میں
ملازمت اختیار کی، یہ ایک معمولی سی ملازمت تھی ، آہنی لوہے کے بیچوں بیچ
لاہور ریلوے رکشاپ میں وہ نیک نیتی سے اپنا کام کرتے رہے اور یہی نیک نامی
کما کر 30 مارچ 1981 میں انڈین ریلوے سے کلیم افسر کے عہدے سے سبکدوش
ہوئے۔ان کی پہلی کہانی تھوک لاہور کے ہفتہ وار جناح میں شائع ہوئی۔رام لعل
نے اپنی ادبی زندگی میں کم از کم بیس افسانوی مجموعے تحریر کیے، ناول اور
سفرنامے اس کے علاوہ ہیں۔ہندوستان کی مختلف درسگاہوں میں ان پر تحقیق کام
ہوا ۔انہوں نے ہندوستان میں اردو کو دوسری سرکاری زبان قرار دلوانے میں
خدمات انجام دیں۔اس سلسلے میں کل ہند غیر مسلم اردو مصنفین کانفرنس کا
انعقاد ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
تقسیم ہند کے دوران پیش آئے ہندو مسلم فسادات پر کئی پاکستانی اہل قلم نے
لکھا ہے جن میں سعادت حسن منٹو، مشکور حسین یاد، نسیم حجازی، اے حمیدو دیگر
شامل ہیں۔ ہندوستانی ادیبوں میں میانوالی سے تعلق رکھنے والے را م لعل کی
خودنوشت کوچہ قاتل کو بلاشبہ تسقیم ہند کی یادیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس
خودنوشت میں رام لعل کی بیان کرد ہ سچائیاں دوسری اصناف کے مقابلے میں کچھ
زیاہ ہی کھردری اور تکلیف دہ ہیں۔کوچہ قاتل کی ’پیشانی ‘پر خودنوشت سوانح
حیات حصہ اول درج ہے ، غالبا اس خودنوشت کا دوسرا حصہ شائع نہ ہوسکا ۔
رام لعل پاکستان آئے تو واپسی پر ’زرد پتوں کی بہار‘ کے عنوان سے سفرنامہ
لکھا ، سفرنامہ کیا تھا، اپنے سا بقہ وطن کا نوحہ تھا۔پاکستان کا یہ سفر
انہوں نے 8 فروری 1980 کو اس وقت اختیار کیا جب ان کی عمر 56 برس تھی۔ اس
سے قبل 1978 میں ان کے ویزے کی درخواست پاکستانی سرکار نے مسترد کردی تھی ،
دوسری مرتبہ کوشش کرنے پر منیر احمد شیخ نے ویزے کے حصول میں ان کی مدد کی
جو اس وقت ہندوستان میں پاکستانی سفارت خانے میں پریس کونسلر کے عہدے پر
فائز تھے۔ پاکستان میں ان کے میزبانوں میں لاہور کے قیام کے دوران آغا سہیل
اور کراچی میں محمد علی صدیقی اور جون ایلیا شامل تھے۔ واہگہ کے راستے
لاہور کی جانب بڑھتے ہوئے انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے نتھنوں میں جو تازہ
ہوا آرہی ہے وہ ان کی جانی پہچانی ہے اور جسے سونگھ کر ہی وہ بتا سکتے تھے
کہ یہ ہوا ’ان کے لاہور ‘ سے آرہی ہے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کے قلی بھی ان کو
اپنے اپنے سے لگے، میزبانوں کی بھیڑ میں طاہر تونسوی بھی تھے جن کے گالوں
پر بے اختیار ہوکر انہوں کئی بوسے دیے
طاہر تونسوی کے گال شرم سے ’لعل‘ ہوگئے۔
” میں نے آخری بار یہاں سے تنخواہ لی تھی، 6 اگست 1947 کو۔“ رام لعل ایک
عالم وارفتگی میں پلیٹ فارم پر بنے کیش آفس کی جانب اشارہ کر کے اپنے
میزبانوں کو بتا رہے تھے۔
شہر لاہور میں بجلی کے کھمبوں سے چھوٹے چھوٹے بورڈ بندھے تھے جن پر لکھی
عبارتوں کو پڑھ کر رام لعل کو احساس ہوا کہ وہ ایک اسلامی ملک میں ہیں۔ شر
سے بچو، ہر مہینے زکوة نکالنا مت بھولو! اور رام لعل نے دل ہی دل میں ’بسم
اللہ الرحمن الرحیم ‘پڑھا ۔ سفرنامے میںاس موقع پر انہوں نے سورة اخلاص کا
مکمل اردو ترجمہ درج کیا ہے۔لاہور میں احمد ندیم قاسمی سے ان کی بات فون پر
ہوئی تو یاد آیا کہ ندیم قاسمی کی آواز وہ 1942کے بعد سن رہے ہیں۔لاہور میں
رام لعل نے امجد اسلام امجد کے ڈرامے وارث کی ایک قسط دیکھی اور محبوب عالم
مرحوم کی اداکاری پر فدا ہوئے ، اردو اخبار شوق سے پڑھے، انتظار حسین کے
ناول بستی کی تقریب میں شرکت کی اور دوستوں کی سنگت میں جی بھر کے قہقہے
لگائے ۔بلند شہر سے تعلق رکھنے والی کشور ناہید کو فرفرپنجابی بولتادیکھ کر
حیران ہوئے۔ لاہور سے ایک روز کے لیے وہ ملتان ایک شادی میں شرکت کی غرض سے
بھی گئے تھے اور وزیر آغا کے پاس سرگودھا بھی!
11 فروری 1980 کی ایک صبح رام لعل کو آغا سہیل نے صبح سات بجے جگایا، لکھتے
ہیں کہ 33 برس کے بعد پہلی بار کسی نے مجھے لاہور میں جگایاتھا۔
ایک روز رام لعل پاک ٹی ہاؤس میں جا بیٹھے۔ دوستوں سے گفتگو کا سلسلہ جاری
تھا کہ ایک ادھیڑ عمر کے صاحب ان کی میز پر آئے، یہ مبارک احمد تھے جو ہیما
مالنی کے ’سخت‘ پرستار نکلے، انہوں نے اپنے بیگ سے ایک نظم نکالی اور رام
لعل سے کہنے لگے کہ وہ اسے ہیما مالنی کوبمبئی جا کر دے دیں ورنہ انہیں خود
بمبئی جانا پڑے گا، مبارک احمد نے نظم رام لعل کے سامنے رکھ دی ، اس کا
عنوان تھا ’گیتوں کا گیت‘:
ہیما مالنی
تم جو کوئی بھی ہو
میں پنجابی ہوں
اور تم سے مخاطب
چناب کنارے گجرات میرا شہر ہے
اور راوی کنارے لاہور بھی
رام لعل نے مبارک احمد سے کہا: ” اس سے پہلے کوئی اور پاکستانی شاعر بھی
ہیما مالنی سے ملنے کے لیے بمئی گیا تھا، جب وہ اسے نہیں ملی تو اس نے
خودکشی کرلی اور وہ وصیت کرگیا تھا کہ اس کی آنکھیں نکال کر اورانہیں ایک
پلیٹ میں سجا کر ہیما مالنی کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔اس کی وصیت کے
مطابق جب اس کی آنکھیں ہیما مالنی کے سامنے لے جائی گئیں تو وہ چیخ مار کے
بے ہوش ہوگئی اور ایک ہفتے تک ہوش میں نہ آسکی۔کہیں آپ کو بھی وہاں جاکر
خودکشی نہ کرنی پڑے۔“
مبارک احمد گھبرا گئے اور کہا ” تو پھر آپ ہی میری نظم لے جائیے اور میری
یہ تصویر بھی۔“
رام لعل میانوالی اپنے آبائی گھر کو دیکھنے پہنچے اور دل ہی دل میں اپنے
آباءو اجداد کو گواہ بنا کر کہا یاد رکھنا کہ میں ایک بار لوٹ کر آیا تھا۔
بھیگے چہرے کے ساتھ انہوں نے اپنے آبائی گھر میں مقیم افراد سے گھر کی مٹی
کی فرمائش کی جوانہیں ایک پلاسٹک کی تھیلی میں ڈال کر پیش کی گئی۔فرمائش
پوری کرنے والوں لڑکوں کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے!
کوچہ قاتل سے ایک انتخاب پیش خدمت ہے:
راجپورہ اسٹیشن پر ملک وزیر چند نے مجھے گھبرائی ہوئی آواز میں پکارا:
”رام لعل، ذرا ادھر آنا۔“
میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ انہیں ہندوؤں اور سکھوں کے ایک گروہ نے نرغے
میں لیا ہوا ہے، مجھے بھی لوگوں نے ہاتھ سے پکڑ کر درمیان میں گھسیٹ لیا
اور کئی بیک زبان بولے:
”ہاں ہاں، تم دونوں مسلمان ہو، پاکستان جانے کا راستہ نہیں ملا تو دلی کی
طرف بھاگ رہے ہو۔“
ہم دونوں نے شلواریں پہن رکھی تھیں، ملک وزیرچند کے بڑے بڑے گل مچھے تھے ،
اور پھر اچانک میری زبان سے یہ بھی نکل گیا ” قرآن سان (قرآن کی قسم) ہم
ہندو ہیں۔“
” دیکھا دیکھا، سالے ُمسلے ہیں، قرآن کی قسم کھاتے ہیں، میں نہ کہتا تھا۔“
میں نے انہیں سمجھایا ” یہ ہمارا رویہ ہے، اسی علاقے کا، ہم وہاں قرآن ہی
کی قسم کھاتے تھے، لیکن ہم مسلمان نہیں ہیں، ہمارا یقین کرو۔“
انہیں تب تک یقین نہیں ہوا جب تک انہوں نے ہماری شلواریں کھلوا کر اطمینان
نہیں کرلیا۔لیکن یہ واقعہ ہم دونوں کے لیے بیحد باعث شرم تھا۔ ملک صاحب مجھ
سے عمر میں کافی بڑے تھے۔میں انہیں چاچا جی کہہ کر بلاتا تھالیکن فسادیوں
کی وجہ سے ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہونے پر مجبور ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
” اسی راستے پر ایک چینوٹ کے قریب ایک شخص گرمیوں کی راتوں میں گاڑیوں کے
آنے جانے کے وقت ایک لمبی کانٹے دار جھاڑی لے کرکھڑا ہوجاتا تھا۔پنجاب کے
لوگ جو سروں پر پرپگڑیاں باندھے کھڑکیوں میں سر رکھ کر سو جایا کرتے تھے،
ان کی پگڑیاں جھاڑیوں سے لگ کر درجنوں کی تعداد میں نیچے گر جایا کرتی تھیں
اور وہ شخص پگڑیاں اکھٹی کرکے اپنے وارے نیارے کرلیا کرتا تھا۔ میں نے اس
کردار پر بیس پچیس برس کے بعد ایک کہانی تیرے بچے جئیں لکھی تھی۔“
۔۔۔۔۔۔۔
1931 میں لاہور میں راوی کے کنارے کانگریس اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرچکی
تھی اور اسی دریا کے کنارے ترنگا لہراتے ہوئے پنڈت نہرو بطور صدر کانگریس
مکمل آزادی کا مطالبہ کرچکے تھے۔جب وہ گھوڑے پر سوار ہوکر لاہور کی سڑکوں
پر جلوس کے آگے آگے چل رہے تھے تو اچانک پھسل کر گر پڑے اور زمیندار اخبار
کے پہلے صفحے پر مولانا ظفر علی خان نے یہ معروف شعر چھاپا:
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
۔۔۔۔۔۔۔
میں ریلوے اسٹیشن کی جالندھر جانے والی لوہے کی پٹری کے ساتھ ساتھ خاموشی
سے چلتا گیا۔ آبادی سے باہر کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔کہیں کہیں کسی
بڑے قطعے کے اردگرد چار دیواری بھی تعمیر کرالی گئی تھی۔ کہیں کہیں گڑھوں
میں اور نچلی سطح پر بارش کا پانی بھی بھرا ہوا تھا۔ ایک جگہ انسانی ہڈیوں
کا ڈھانچہ دیکھ کر میں ٹھٹک کر رک گیا۔ چیلیں اور کوے اس کا سار ا ماس نوچ
نوچ کر کھا چکے تھے، اس کے ایک پاؤں کے اندر ابھی تک ایک کالا بدرنگ بوٹ
فیتے سے بندھا ہوا تھا۔ اس کے سفید بال اس کی کھوپڑی سے الگ ہوکر ایک طرف
پڑے تھے۔خدا جانے وہ کون تھا۔کس نے کب اسے مار کر یہاں ڈال دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک روز نواں شہر (جالندھر کے قریب)کے بازار سے گزرتے ہوئے ایک دو منزلہ
مکان کے سامنے بھیڑ دیکھی تو میرے قدم رک گئے۔معلوم ہوا کہ اس مکان کے ایک
کمرے میں بہت سے لوگوں کو ٹھونس کر کھڑکی کے راستے سے ایک بہت طاقتور بم
پھینک دیا گیا ہے اور یہ کام ایک ریٹائرڈ فوجی حوالدار نے کیا ہے۔ وہاں
میری موجودگی میں ایک تھانیدار آگیا۔ اسے پورا واقعہ بتایا گیا تو وہ بڑی
خاموشی سے کھڑا سنتا رہا ، پھر اس نے ان لوگوں کو مشورہ دیا ’اندر جاکر
ہلاک ہونے والوں کو چھرے کے زخم لگادیے جائیں تاکہ یہ معاملہ چھرے بازی کا
ہی درج کیا جاسکے، بم کا نہیں۔‘
یہ سن کر ایک نوجوان قصاب چھرا لے کر اندر چلا گیا اور دس پندرہ منٹ کے بعد
واپس آکر بولا: ” حضور یہ کام بھی ہوگیا لیکن ایک شخص میرے ہاتھ میں چھرا
دیکھ کر رونے لگا۔بولا ’ میں تو مرچکا ہوں، مجھے چھرا مت گھونپو۔‘
یہ سن کر بہت سے لوگ ہنس پڑے لیکن میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میں
وہاں سے چلا آیا۔ اس بات کو اگر سعادت حسن منٹو کی سیاہ حاشیے کتاب کے
لطیفوں کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے تو دونوں ملکوں میں ہوئے مظالم میں ایک
یکسانیت نظر آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔ |