شنگھائی سے کابل تک

پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے حال ہی میں سارک اجلاس شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنی سفارت کاری کے فن و کمالات سے دہشت گردی جنوبی ایشیا کے بگڑتے سیاسی معاشی اور اور خطے میں قیام امن وسکون کے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کرکے ملک و قوم کے مدبر ترجمان کا کردار انجام دیا۔اس سے پہلے گیلانی سائیں نے کامن ویلتھ کانفرنس میں ذوق و شوق سے شرکت کی۔ روسی وزیر اعظم پیوٹن نے کانفرنس کے دوران گیلانی سائیں کو سینیٹ پیٹر برگ میں منعقد ہونے والی شنگھائی کانفرنس میں دعوت دی۔ شنگھائی تنظیم خطے میں امریکہ کی دفاعی تجارتی بداعمالیوں اور جنگی دھنون کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے تشکیل دی گئی۔ ابتدائی طور پر 5 ملکوں نے شنگھائی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ پاکستان بھارت اور ایران کئی سالوں سے شنگھائی کی رکنیت کے لئے سرگرداں ہیں۔ روس بھارت جبکہ چین ایران کا پشت بان ہے۔ پچھلے سال روس نے پاکستان کو ممبربنانے کی مخالفت کی تھی مگر اب روس نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ماسکو کی حمایت کو پاکستان کی کامیابی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ گیلانی نے پاک روس تعلقات میں سرد مہری کی برف پگھلانے میں باکمال فراست کا مظاہرہ کیا۔ حکومتی امور پر نااہلی کی یلغار کرنے والے دانشور ہوں یا سیاستدان لگتا ہے کہ وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے ہر معاملے کے تاریک پہلو کو دیکھنے کی مرض میں مبتلا ہیں وہ سیاسی مخاصمت کو قومی مفادات پر اولیت دیتے ہیں۔ زہر اگلتے تنقید نگاروں اور ہر چینل پر روزانہ حکومت مخالف جذبات کو ہوا دینے والے اینکر پرسنز کو شائد یہ معلوم نہیں کہ چند ماہ قبل پاکستان نے uno میں سلامتی کونسل کی دو سالہ نشست کا الیکشن جیت کر مرد میدان۔بھارت نے سلامتی کونسل میں پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانے سے گریز کیا۔ امید کی جاتی ہے کہ پاک بھارت دونوں شنگھائی تنظیم کے شانہ بشانہ رکن بن جائیں گے۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ اسے یورپی منڈیوں تک رسائی کا موقع ملے مگر دہلی سرکار نے پاکستانی خواہش کا گلا دبائے رکھا۔ پاکستان نے بھارت کو موسٹ فیورسٹ نیشن کا درجہ دے دیا ہے کہا جاتا ہے کہ یورپی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات پر عائد پابندی ختم ہوجائیگی۔ پاکستان کے بھارت کوmost favourtve nation کا درجہ دیا تو حکومتی مخالفین نے فیصلے کو پاکستان کی سلامتی کے لئے مضر اور نقصان دہ ثابت کرنے کی خاطر بے سروپا دلائل کا انبار لگادیا۔ دیگر مخالفانہ شائیں شائیں اور بھانت بھانت کی بولیوں میں ایک کشمیر بھی شامل ہے۔ چند جغادری سیاسی اور دینی رجال کاروں کا موقف ہے کہ بھارت کو فیورسٹ نیشن کا درجہ دیکر کشمیریوں کی کمر میں چھرا گھونپ دیا حالانکہ آر پار کے کشمیریوں کے درمیان تجارتی شرح چھ فیصد بڑھ جائیگی۔یہ حقیقت ہے جس سے سرمو انکار کیا جانا ممکن ہی نہیں کہ دنیا گلوبل ویلج کا روپ اختیار کرچکی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نہ تو کسی ایک کے اقتدار اعلٰی کو نہیں مانتی اور نہ ہی جغرافیائی حدود و قیود کو خاطر میں لاتی ہے۔ باہمی تعاون لازم اور ناگزیر ہوچکا۔شنگھائی تنظیم بھی ایسے سنیاریو کی روشنی میں کام کرتی ہے۔دنیا کی 50 ٪آبادی شنگھائی کے رکن و رکین ملکوں میں رہتی ہے۔روس چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں یعنی شنگھائی کے پاس دنیا کے کل تیل کا 21 ٪ جبکہ گیس کا45٪ حصہ موجود ہے۔ شنگھائی لشکر جرار میں روس چین کرغیزستان تاجکستان ازبکستان اور قازستان شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر شنگھائی تنظیم اتحاد و اتفاق سے مشترکہ دفاعی فورسز کا اعلان کردیں تو ناٹو اتحاد اسکے سامنے گھٹنے ٹیک دیگا۔ گیلانی سائیں نے روسی پی ایم ولادی میر پوٹن کا شکریہ ادا کیا۔وزیراعظم کا کہنا تھا پاکستان شنگھائی تنظیم کو اہمیت دیتا ہے۔یہ پلیٹ فارم علاقائی اقتصادی تعاون کا شاہکار ہے۔وزیراعظم نے تنازعہ افغان پر اقوام عالم سے اپیل کی کہ افغانستان کی سالمیت اورخود مختیاری کا احترام کرنا چاہیے اور افغان قوم لسانیت نظریات اور گروہ بندی سے بالاتر ہوکر اپنے قضئیے حل کرنے کی خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ PMنے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کو شنگھائی آرگنائزیشن کی رکنیت دی جائے۔سفارت کاروں تاجروں کو ویزے میں نرمی دی جائے۔گیلانی صاحب نے شنگھائی تنظیم کے ممبر ملکوں کو صائب مشورہ دیاکہ آزاد تجاتی زون قائم کیا جاوے ۔ سارے خطے کو آپس میں لنک کرنے کے لئے سڑکوں کا جال بچھایا جائے۔چین کے وزیراعظم وین جیاو باو نے پاکستانی کردار کو سراہا۔پاک فوج کے ترجمان میجر اطہر نے بتایا کہ افغان تنازعے کا واحد حل مصالحت میں پوشیدہ ہے۔پاک فوج کے ترجمان نے کف افسوس ملتے ہوئے بتایا کہ نہ تو پاک فوج جہادیوں اور انتہاپسندوں کی سرپرستی نہیں کرتی۔امریکہ احسان فراموش اور طوطا چشم ہسٹری کا مالک ہے۔امریکہ نے پہلے تو نو دوگیارہ کے بعد پاکستان کو فرنٹ لائنر حلیف کا درجہ دیا اور اج اسکی سیاہ کاری کا بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ امریکی ایجنسیاں اب اپنے حلیف پر کیچڑ اچھال رہی ہیں۔عالمی برادری پاکستان کی ترجیحات اور نقطہ نظر کو سمجھے۔ اگر امریکہ اور کابل والوں کو اعتماد ہے وہ پاکستان کے بغیر افغانستان کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے تو ایسے زہین و فطین تھنک ٹینکس دن میں تارے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔امریکہ اور افغانستان کے ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ پاکستانی کردار کو قبول کرنے میں دیر نہ کریں۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.