ہاہاکار مچی ہے دل کے ٹکڑوں کی
تعداد اب ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔کوئی کراہ رہا ہے تو کوئی کراہت
کا اظہار کر رہا ہے۔کوئی بینا ہو کے بھی نابینا ہونے کی ناکام اداکاری کر
رہا ہے۔کہیں پہ وظیفوں کا چمتکار صاف دکھائی دیتا ہے۔کہیں کوئی ایسا بھی ہے
جو سر عام اپنی نیک خواہشات اور نیک امیدوں کا اظہار کر رہا ہے۔غرض ہاہاکار
مچی ہے۔کون ایسا ہے جو پچھلے دو دن سے عمران کے لاہور کے جلسے کی بات نہیں
کر رہا۔ٹی وی کا کون سا ایسا چینل ہے جس پہ سوال نہیں پوچھے جارہے۔جس پہ
جواب نہیں دئیے جا رہے۔جتنے منہ ہیں اتنی باتیں۔کل تک جو تحریک انصاف کو
بچوں کی پارٹی قرار دینے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے آج انہی بچوں کے
ہاتھوں یوں زچ ہیں کہ اللہ کی پناہ۔چہرے بگڑے ہوئے ،ہوائیاں اڑی ہوئی۔سیاست
کے ان ٹھیکیداروں کو سمجھ نہیں آرہی کہ نہ جائے رفتن اور نہ پائے ماندن
والی کیفیت ہے۔بولتے ہیں تو ڈرتے ہیں کہ عمران کو اہمیت ملے گی نہیں بولتے
تو پھر دنیا ان کے بارے میں بولتی دکھائی دیتی ہے۔اس پہ طرہ وہ طنبورے جو
مالک کا اشارہ پا کے دم ہلانے اور اسی اشارے پہ کسی بھی شریف آدمی پہ
بھونکنے لگتے ہیں۔
یہاں تک پہنچ کے میں نے یہ کالم اور اس موضوع پہ لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا
تھا کہ دل و دماغ کی تلخی میں لکھنا آپ کو اعتدال کی راہ سے دور کر دیتا ہے
۔اوراس لئے بھی کہ ہر صحافی ،ہر دانشور،ہر ان پڑھ اور ہر پڑھا لکھا عمران
اور عمران کے جلسے اور سیاست کی بات کر رہا تھا۔اس میں میں نے سوچا کہ جب
ہر شخص ہی بول رہا ہے تو اس شور میں مزید اضافہ کرنے کا فائدہ۔اب ایک نئی
کہانی بیان کی جانے لگی ہے اور اس کہانی اور اس کہانی کے تخلیق کاروں کی
ذہنی پستی پہ خاموش رہنا نہ صرف زیادتی ہو گی بلکہ میں اپنے تئیں اسے بد
دیانتی کے زمرے میں بھی شمار کرتا ہوں۔اڑانے والے کیا خوب اڑا رہے ہیں کہ
عمران اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہے۔اب اس سوال کا جواب ہاں اور ناں میں دیا جا
سکتا ہے۔اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو یہ بتائیے کہ اس ملک میں کون اینٹی
اسٹیبلشمنٹ ہے۔پیپلز پارٹی؟ جو اس ملک کی کارکنان کے حوالے سے سب سے بڑی
جماعت ہے۔پیپلز پارٹی کے بقول اسٹیبلشمنٹ یعنی فوج نے بھٹو کو امریکہ کے
کہنے پہ پھانسی پہ لٹکایا۔کیا اسی بھٹو کی بیٹی نے اقتدار کے لئے
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودا بازی نہیں کی۔کیا غلام اسحاق خان اور صاحبزادہ
یعقوب پیپلز پارٹی کے بنیادی رکن تھے۔اس وقت اگر بے نظیر اس کانٹوں بھرے
تاج کو پہننے سے انکار کرتی تو عوام کا جم غفیر ان کے ساتھ تھا لیکن بی بی
نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر وزارت عظمیٰ کا حلف لے لیا۔ کل کا وزیر اعظم
پاکستان کا یہ بیان کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ ہے کا کیا مطلب ہے۔وہ حکومت
میں ہیں اسٹیبلشمنٹ کو اصولاََ انہی کے ساتھ ہونا چاہئے۔لیکن ان کے بیان
میں جو باتیں بین السطور ہیں وہ یہ کہ اگر اسٹیبلشمنٹ عمران کو بلڈ کر بھی
رہی ہے تو بھی وہ ہمارا ہی کام کر رہی ہے۔یعنی انتظامیہ اگر کوئی ایسا کام
کرے جو اصولوں کے خلاف ہو لیکن اپنے حق میں جاتا ہو تو جائز ہے۔
کیا مسلم لیگ نون اور ق اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔نون والے جنہیں میں اب پیار
سے" نون غنے "کہا کرتا ہوں اس لئیے کہ وہ ہر اس جگہ اور موقع پہ چپ رہتے
ہیں جہاں انہیں بولنا چاہئیے اور ہر اس جگہ بولنے لگتے ہیں جہاں خاموشی ہی
میں عافیت ہوتی ہے۔کیا وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاج اپنے سر سجانے کے
حقدار ہیں۔ان کا تو بیج ہی بقول شیخ رشید کے اسٹیبلشمنٹ کے گملے کی پیداوار
ہے۔یہ اسی نرسری میں پھلے پھولے اور اب جب یہ پھول کے کپا ہو رہے ہیں تو
انہیں اب اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ناگوار لگنے لگی ہے۔جب انہیں جہاز میں سوار
کیا جا رہا تھا تو یہ اسی اسٹیبلشمنٹ کے شکر گزار تھے کہ ان کی جان بخشی ہو
گئی ۔انہیں ان کے مالشیوں سمیت جدہ کے سرورپیلس میں بھلے لوٹنے کی اجازت مل
گئی۔ہم لوگ جو ان کے متوالے تھے یہاں ماریں کھاتے رہے۔ان کا قائد حزب
اختلاف نو ماہ تک اپنے بل سے ہی بر آمد نہیں ہوا۔اس وقت یہ جان لٹانے کا
عزم لے کے نکلتے تو آج انہیں عمران اسٹیبلشمنٹ کا ہوا کیوں نظر آتا۔اس وقت
یہ لوگ جانیں بچا کے اور ہمیں ایک آمر کے سپرد کر کے نو سال داد عیش دیتے
رہے اور آج ہمیں یہ اسٹیبلشمنٹ کا ہوا دکھا رہے ہیں۔رہی ق تو وہ بے چارے تو
ہیں ہی نیب کی دھمکیوں کے مارے انہیں تو آج اگر یہی اسٹیبلشمنٹ شاہی محلے
میں بیٹھنے کا حکم دے تو کل آپ کو بڑے بڑے جغادری تا تا تھیا کی تال پہ
گھنگرو باندھ کے اسٹیبلشمنٹ کی سنگت کرتے نظر آئیں گے۔
کیا جماعت اسلامی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے اور کیا مولٰنا فضل الرحمٰن کیا اے
این پی اور کیا ایم کیو ایم یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔کوئی امریکہ کے ڈالرز
ابھی تک گن رہا ہے۔اور کسی کو اب بھی بلا واسطہ ڈالرز مہیا کیئے جا رہے
ہیں۔یہاں پہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کوئی نہیں سب پرو" راتب "ہیں۔راتب ملتا رہے
تو یہ سب پرو اسٹیبلشمنٹ ہیں اور اگر اس کی فراہمی میں کہیں کوئی رکاوٹ
آجائے تو یہ سب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو جاتے ہیں۔آپ آسان سے ایک سوال کا جواب
دیں کیا کسی سچے اور سچے شخص کو کوئی خرید سکتا ہے۔بکتا وہی ہے جس کی کوئی
کمزوری کسی دوسرے کے ہاتھ ہوتی ہے یہ سب اسٹیبلشمنٹ کے غلام ہیں اور وہ اس
لئے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے حمام میں برابر کے ننگے ہیں۔اخلاقی ذہنی اور سماجی
طور پہ دیوالیہ یہ لوگ ہمارے حکمران اس لئے ہیں کہ ہم ان سے بھی بڑے کرپٹ
ہیں۔ہم اپنے اور اپنے بچوں کا نہیں سوچتے ان مگرمچھوں اور ان کے بچوں کا
سوچتے ہیں اور انہیں دیوتا بنا کے رکھتے ہیں۔کیا ہم انہی سب لٹیروں کے
ہاتھوں اپنی زندگیوں سے تنگ نہیں کیا ہر گھر میں بھوک ننگا نہیں ناچ رہی۔اس
پہ ستم یہ محلات میں رہنے والے غریب کی بات کر کے غریب کو الو بنا رہے ہیں۔
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ عمران اسٹیبلشمنٹ ہی کا بندہ ہے۔چلیں مان لیا کہ
عمران کو انتظامیہ ہی آگے لا رہی ہے۔اس کے ساتھ ہمیں تاریخ کو دیکھتے ہوئے
یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہمارے ملک میں انتظامیہ ہی لوگوں کو اقتدار میں
لاتی اور اقتدار سے دھکے دے کے نکالتی ہے۔یوں تو اصول یہی بنا کہ یہ سب
انتظامیہ ہی کی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔اگر اقتدار کے لئے کٹھ پتلیاں
انتظامیہ ہی چنتی ہے تواس دفعہ عمران کے چنے جانے پہ اتنا شور وغل کیوں۔ہم
نے تو ہر دفعہ لٹنا ہی ہوتا ہے اس دفعہ عمران کے ہاتھوں سہی۔کم از کم لوٹنے
والا تو نیا ہوگا ۔آخر ہم عوام ہیں اس قوم کی تقدیر کے مالک اتنی ورائٹی کا
حق تو ہمارا بھی بنتا ہے۔عمران اسٹیبلشمنٹ کابندہ ہے یا نہیں ! اس پہ اگلے
کالم میں بات کریں گے۔ |