طالبان کے ساتھ امن مذاکرات

کیا پاکستانی طالبان مذاکرا ت کے لئے آمادہ ہیں اور کیا مذاکرات ایک پائیدار اور دیرپا امن کا موجب بن سکیں گے۔ 18 اکتوبر کی آل پارٹیز کانفرنس کی قرار داد کے بعد کہ جس میں پاکستانی شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی منظوری دی گئی، طالبان کے مختلف گروہوں نے پاکستانی حکومت سے رابطے کئے ہیں۔

حکومت پاکستان اور طالبان کے مابین شمالی وزیرستان سے متعلق ہونے والے13 امن معاہدوں میں سے دو معاہدوں کی پاسداری ہو رہی ہے۔شدت پسندوں کے ساتھ ہونے والے ہر معاہدے کی وجہ سے حکومت پاکستان نے مذکورہ علاقے میں اپنی رٹ بحال کرنے سے متعلق سمجھوتا کیا۔ شدت پسندوں نے ہمیشہ ان معاہدوں سے روگردانی کی اور معاہدوں کو تہہ و بالا کیا۔ اب ایسی کون سی تبدیلی متوقع ہے جو سیاسی اور عسکری قیادت ایک مرتبہ پھر شدت پسندوں کے ساتھ معاہدوں کے لئے آمادہ دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر امریکہ افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے تو اسلام آباد یہ کام کیوں نہیں کرسکتا۔ بہرکیف یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کابل‘ واشنگٹن اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کے کیا مثبت نتائج برآمد ہوئے۔دوسرے افغان طالبان کو امریکہ مخالف مزاحمت میں تو شدت پسندوں کی معاونت حاصل ہے جبکہ پاکستان میں صورت حال یکسر مختلف ہے اور ہمارے ہاں مخصوص نظریاتی اور قبائلی خصائل کی بنا پر پاکستان اس کو اپنے ایک خاص نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔

بلاشبہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں امن کے لئے ہونے والے مذاکرات کے احکامات بالکل ہی مبہم اور غیر واضح نہیں ہیں لیکن پھر بھی حکومتِ پاکستان کو یہ امر واضح کرنا چاہئے کہ وہ ان مذاکرات کی بدولت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ کیا وہ مذاکرات کرکے پاکستان کے اندر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں میں کمی چاہتی ہے یا پھر وہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ چاہتی ہے یا اس سے حکومت ان علاقوں کا مکمل کنٹرول چاہتی ہے جو اس کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں یا پھر وہ طالبان کو پھر سے اس معاشرے میں کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرنا ہے؟یہ امر بہر طور بہت ضروری ہے کہ ریاست شدت پسندوں سے کیا شرائط منوانا چاہتی ہے اور بدلے میں شدت پسندوں کو کیا مہیا کرے گی۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مذاکرات سے قبل ماضی میں ہونے والے معاہدوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک موثر پالیسی کا تعین کیا جائے۔

ماسوائے سوات معاہدے کے باقی تمام معاہدے فوج اور شدت پسندوں کے مابین ہوئے جن کا مقصد سیکورٹی فورسز پر حملوں کی شدت میں کمی لانا تھا۔ مقامی قبائل کا اس حوالے سے کوئی اہم کردار نہیں تھا اور وہ صرف ضمانتی کے طور پر اس معاہدے میں شامل رہے۔ ریاست ایک کمزور وکٹ پر ہونے کی وجہ سے شدت پسندوں کو بھاری فوائد دے کر جواباً ان سے بہت کم حاصل کرنے میں کامیاب ٹھہری۔ دلچسپ امریہ بھی ہے کہ طالبان کومقامی لوگوں کی حمایت حاصل ہونےکی وجہ سے اُن کا مذاکرات کی میز پر پلہ بھاری رہا۔

بہرحال سوات اورجنوبی وزیرستان میں ہونے والے فوجی آپریشنوں کے بعد طالبان کے حوالے سے مقامی حمایت میں واضح کمی دکھائی دی۔ اس کا اثر بہر کیف ان پر پڑے گا۔ گزشتہ معاہدوں میں پائے جانے والی بنیادی اور پلاننگ کی خامیوں کے ساتھ ساتھ حکمتِ عملی کے اعتبار سے ایک کمی یہ بھی دکھائی دی کہ شدت پسندوں کے نظریات اور ان کی سیاسی طاقت کے حوالے سے غلط اندازے لگائے گئے۔

پاکستانی طالبان کو اپنے نظریے اور سیاسی حکمتِ عملی کا بھرپور فائدہ پہنچا۔شدت پسندی کے خلاف کارروائی کے ضمن میں مقصد کو مرکزی مقام حاصل ہوتا ہے۔ اگر مقصد مضبوط نہ ہو تو شدت پسندی کی تحریک محض ایک مجرمانہ فعل بن کر رہ جاتی ہے۔ پاکستانی طالبان کو سیاسی قوت اور شعور افغانستان سے حاصل ہوا جبکہ نظریہ القاعدہ‘ پاکستان کے شدت پسندوں اور انتہا پسند گروہوں سے حاصل ہوا۔

شروع میں پاکستانی طالبان کی توجہ افغانستان کی جانب مبذول رہی یا پھر القاعدہ اور افغان طالبان کوجنوبی اور شمالی وزیرستان میںمعاونت فراہم کرنے کی حد تک رہی۔ جبکہ پنجاب اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے گروپوں نے غیر ملکی شدت پسندوں کو پاکستان کے مذہبی حلقوں میں متعارف کروا کر پاکستان میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعتیں تو ایک عرصے سے ریاست اور معاشرے کا نظام اسلام خطوط پر استوار کرنے کی خواہاں ہیں۔9/11 کے بعد اسی نظریے کو شدت پسند گروہوں نے پوری آب و تاب کے ساتھ استعمال کیا۔

القاعدہ ایک ایسے نظریے اور سیاسی ایجنڈے کے ساتھ نمودار ہوئی کہ جس نے دنیا بھر کے شدت پسندوں کو متاثر کیا۔ ان عوامل نے ان پاکستانی طالبان پر اثر دکھایا جو شروع میں صرف افغانستان میں سپورٹ فراہم کرنے کے حوالے سے سرگرم تھے۔ پھر وہ اسی سیاسی نظریے کے تحت پاکستان کے اندر بھی اثرورسوخ بڑھانے لگے۔ جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے تو وہاں متعدد پاکستانی طالبان گروہ وہاں باقاعدہ کردار ادا نہیں رکھتے یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے سیاسی نظریاتی قوت وہی سے حاصل کی۔پنجاب اورکشمیر نژاد شدت پسند تنظیمیں القاعدہ کے مقاصد کے حصول میں بہترین اثاثہ ثابت ہوئے اور اپنے متعلقہ علاقوں میں تبدیلی کے عمل میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس کے علاوہ انہیں ایک ایسے قبائلی علاقے جس کو برطانوی نوآبادیاتی دور کے قوانین ‘ سیاسی کارندے اور ملک کے نظام کے تحت چلایا جارہا ہے، میں مزید تقویت حاصل ہوئی۔

جب تک مذکورہ بالا عوامل کا خاتمہ نہیں ہو جاتا امن مذاکرات کی کامیابی کے مواقع کم سے کم رہیں گے۔ پاکستانی طالبان اپنے اس سیاسی اور نظریاتی اساس کو ختم ہوتا کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ بلاشبہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے ایک طویل المیعاد حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔خوش قسمتی سے پاکستان کے مذہبی حلقوں میں شدت پسندانہ رویوں کے خاتمے کی جستجو پائی جاتی ہے۔ وہ ان طالبان گروہوں کو ایک پُرامن متبادل انداز اورماحول فراہم کرسکتے ہیں۔ طالبان کے اندر القاعدہ اور ایسے عناصر جو تبدیلی کے خلاف ہیں کی موجودگی میں طالبان کو مذاکرات پر رکھنا بہر حال آسان کام نہیں ہے۔

مختلف طالبان گروہوں کی بنا پر ان میں سے چند مخصوص گروہوں کا انتخاب کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر مقاصد کا حصول یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان میں تین قسم کے عوامل ہیں۔ ایک مقامی طالبان جیسا کہ گل بہادر اور ملا نذیر کے گروہ جن کے ساتھ امن معاہدے تا حال کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لشکرِ اسلامی ہے جو کہ دو بڑے گروہوں کا حصہ نہیں ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان بذاتِ خود متعدد چھوٹے چھوٹے شدت پسند گروہوں پر مبنی ہے۔ بلاشبہ یہ تمام تر گروہ نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے متفق ہیں لیکن مختلف فرقوں اور اسلامی ایجنڈوں اور پھر قبائلی اور نسلی تفریق کی وجہ سے ان کے مقاصد الگ الگ ہیں۔

ان عوامل کو مذاکرات میں لانے سے قبل ایک ایسی موثر حکمتِ عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس میں شدت پسندوں کی نظریاتی اور سیاسی طاقت کا صحیح صحیح اندازہ لگایا گیا ہو ۔ بہر کیف مختلف گروہوں سے بات چیت کے لئے مختلف حکمتِ عملی درکار ہوگی۔ کیونکر ضروری نہیں ایک علاقہ اور گروہ کے لئے متعین کردہ پالیسی دوسرے علاقے کے لئے بھی موثر اور کار گر ثابت ہوسکے۔ اس میں کامیابی کے محرکات بے شمار ہوسکتے ہیں لیکن اس ضمن میں ایک ضروری قدم یہ ہے کہ کس طرح مقامی قبائل‘ سیاسی اور مذہبی عناصر کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ایک مسلسل‘ لچکدار اور مفاہمتی رویہ جو تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں بھی کارگر ثابت ہو‘ کامیابی کی جانب سفر آسان بنا سکتا ہے۔ (بشکریہ ڈان)
Muhammad Amir Rana
About the Author: Muhammad Amir Rana Read More Articles by Muhammad Amir Rana: 5 Articles with 3168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.