روس کے بکھرنے کے بعد عالمی سطح
پراشتراکی نظام کے زوال اور سرمایہ دارانہ نظام کے عروج نے آج ہندوستان کو
اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے جمعہ کو پیٹرول کی
قیمتوں میں اضافہ پر ترنمول کانگریس کی وارننگ کو تقریبا نظر انداز کر دیا۔
انہوں نے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کو مناسب قرارہی نہیں دیابلکہ انہوں
نے ایندھن کی قیمتوں کو اور کنٹرول آزاد کرنے کی بھی وکالت کرکے ہندوستانی
سیاست اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نطام کے حاوی ہونے کا اشارہ
دیا ہے جبکہ اس نظام کا قائد امریکہ تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔
پٹرول قیمتوں میں اضافہ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے یو پی اے چھوڑنے تک
کی دھمکی دینے والی ممتا بنرجی اپنے رخ سے پلٹ گئی ہیں۔ ان کی پارٹی اب کہہ
رہی ہے کہ اس نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کبھی نہیں
کی تھی۔ وہ صرف بہتر تال میل چاہتی ہے۔ چینل ٹائمز نا کے مطابق ممتا بنرجی
پٹرول قیمتوں میں اضافہ کے سوال پر اب ڈھیلی پڑ رہی ہیں۔ ان کی پارٹی
ترنمول کانگریس نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ چھوڑ دیا
ہے۔ چینل سے بات چیت کرتے ہوئے ترنمول لیڈر سدیپ بندوپادھیائے نے دعوی کیا
کہ ان کی پارٹی نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کا
فیصلہ واپس لینا چاہئے۔خیال رہے کہ انڈین تیل کے پٹرول کے دام بڑھانے کا
اعلان کرنے کے دوسرے ہی دن ممتا بنرجی نے اس فیصلے کو عوام کے مفاد کے خلاف
قرار دیتے ہوئے اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی ایک ہنگامی میٹنگ کولکاتا
میں بلائی۔ اجلاس کے بعد ممتا نے صاف کر دیا کہ اس فیصلے کا یو پی اے حکومت
پر بھلے کچھ اثر نہ پڑے لیکن عوام پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے
کہا تھا کہ ان کی پارٹی عوام کی تکلیف کو بڑھانے والے ایسے فیصلے برداشت
نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وزیر اعظم کے لوٹنے کے بعد ان سے
بات چیت کے بعد پارٹی ضروری فیصلہ کریگی۔ ترنمول نے یہ بھی صاف کر دیا تھا
کہ اس مسئلے پر پارٹی یو پی اے چھوڑنے کا بھی فیصلہ کر سکتی ہے لیکن وزیر
اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ ایک مجوزہ میٹنگ سے ایک دن پہلے پیر کو
پارٹی کے تیور ڈھیلے پڑتے نظر آئے۔ ترنمول لیڈر بندوپادھیائے نے ٹائمز نا
کے ساتھ بات چیت میں صاف کیا کہ ان کی پارٹی کے رخ کو غلط سمجھا گیا تھا۔
ترنمول کا کہنا صرف اتنا تھا کہ یو پی اے کا اہم حصہ ہونے کے باوجود ایسے
بڑے فیصلوں سے پہلے پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ان
کی پارٹی بہتر تال میل کا مطالبہ کر رہی ہے ، پٹرول قیمتوں میں اضافہ کا
فیصلہ واپس لینے کی نہیں۔ جی 20 سربراہ کانفرنس کے بعد ایک پریس کانفرنس
میں وزیر اعظم نے کہا کہ مارکیٹ کو اپنے لیول سے چلنے دینا چاہئے۔ یہ ایک
عام سمت ہے۔ ہمیں اسی جانب آگے بڑھنا چاہئے لیکن یہ انتہائی حساس معاملہ ہے
اور مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ مفاد عامہ والی چیزوں کو
چھوڑ کر باقی معاملات میں بازار کو اپنا کام کرنے دینا چاہئے۔وزیر اعظم
پٹرول کی جمعرات کو بڑھائی گئی قیمت پر ساتھی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی
مخالفت پر ردعمل دے رہے تھے۔ اس مسئلے پر ترنمول کانگریس نے یو پی اے حکومت
سے ناطہ توڑ لینے تک کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ وزیر اعظم نے دوٹوک کہاتھا کہ’
تبدیلی‘ کی سمت صاف ہے لہذاہمیں قیمتوں کو اور کنٹرول آزاد کرنا چاہئے۔ غور
طلب ہے کہ ڈیزل ،ایل پی جی گیس اور کےروسین مٹی کے تیل کی قیمتوں پر آج بھی
حکومت کا کنٹرول ہے۔
دوسری جانب میڈیا میں ایسی رپورٹیں شائع ہو رہی ہیں جس سے یہ پتہ چل رہا ہے
کہ سرمایہ دارانہ نظام کامنبع امریکہ تنزلی کی طرف جا رہاہے۔امریکیوں کی
اکثریت کا خیال ہے کہ ان کی اگلی نسل موجودہ نسل سے زیادہ خراب حالات میں
زندگی گزارے گی جبکہ آج کا امریکی بچہ اپنے والدین سے بہتر زندگی نہیں
گزارے گا۔کیا امریکہ تنزلی کی طرف جا رہا ہے؟ یہ ہے وہ سوال جو اخبار شکاگو
ٹریبیون کے ایک اداریہ میں اٹھایا گیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ آجکل امریکہ
میں یہ سوال اکثر پوچھا جا رہا ہے نیز امریکہ بھر میں سڑکوں پر ہونےوالے
مظاہرے ، واشنگٹن میں جاری تعطل اور ملک کی معیشت کے مسائل کے پیش نظر یہ
بات آسانی سے سمجھ میں آ تی ہے کہ یہ سوال کیوں پوچھا جا رہاہے۔ اخبار
کیپیٹل ہل کے ایک اخبار دی ہل اور رائے عامہ کے جائزوں سے متعلق ایک غیر
جانبدار ادارے کے ایک حالیہ جائزے کے حوالے سے لکھتا ہے کہ امریکیوں کی
اکثریت کا خیال ہے کہ ان کی اگلی نسل موجودہ نسل سےزیادہ خراب حالات میں
زندگی گزارے گی اور آج کا امریکی بچہ اپنے والدین سے بہتر زندگی نہیں گزارے
گا۔اخبار لکھتا ہے کہ اگر امریکہ کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے موجودہ
حالات کی وجوہات اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ امریکہ کا اصل مسئلہ کیا
ہے تو اخبار کے نزدیک اس کا اصل مسئلہ اس کی حکومت اور نجی سیکٹر کی طرف سے
تعلیم اور صنعت پر سرمایہ کاری میں ایک عرصے سے کی جانے والی مسلسل کمی
دکھائی دیتی ہے جس کے نتیجے میں 1970 کے عشرے کے وسط سے ہماری فیکٹریاں اور
اسیمبلی پلانٹس اب تقریباًٍ بیرون ملک کارکنوں کے پاس جا چکے ہیں جبکہ امیر
اور غریب کے درمیان فرق بہت گہرا ہو گیا ہے ، اور ان نوجوانوں کو جو اس
خلیج کو پاٹنا چاہتے ہیں ، مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم اخبار فیڈرل ریزرو کی
ویب سائٹ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ تیس سال
میں امریکہ کے متوسط طبقے کی آمدنی میں اگرچہ سست شرح سے ہی سہی لیکن اضافہ
ہوا ہے۔ اس لئے اخبار خیال ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کا اصل مسئلہ امیر اور
غریب کی آمدنی میں فرق نہیں بلکہ مواقعوں کی فراہمی میں فرق ہے۔ اور اخبار
لکھتا ہے امریکہ کے اس اصل مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ حکومت یا پرائیویٹ
سیکٹر کو برا بھلا کہا جائے بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ دونوں کو مل کر کام
کرنے پر آمادہ کیا جائے کیوں کہ اخبار لکھتا ہے کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا
تو پھر ہمیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ کیا امریکہ تنزلی کی
طرف جا رہا ہے ؟ اس لئے کہ ہم جان لیں گے کہ امریکہ واقعی تنزلی کی طرف جا
رہا ہے۔ امریکہ کی معیشت کے مسائل نے جہاں اس کی صنعت ، تعلیم اور متعدد
شعبوں کو متاثر کیا ہے وہاں خاص طور پر امریکی نوجوانوں کے رہن سہن کے
مشاغل، شوق کے اظہار اورتفریح کے انداز کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ وہ
نوجوان جو اپنی ذات کو نمایاں کرنے اور اپنی دولت و ثروت اور ترنگ کے اظہار
کیلئے مہنگی موٹر سائکل یا اسپورٹس موٹر سائیکل خرید کر انھیں برق رفتاری
کے ساتھ سڑکوں پر دوڑاتے پھرتے تھے، اب یہ مہنگا شوق یا مشغلہ اپنانے کی
استطاعت نہیں رکھ پا رہے۔اخبار نیو یارک ٹائمز نے اسی موضوع پر اپنا ایک
اداریہ تحریر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکہ میں موٹر سائیکل کا
دور ختم ہورہا ہے؟اخبار لکھتا ہے کہ اِس وقت امریکہ بھر میں لاکھوں نوجوان
آئی فون فور ایس، آئی پیڈ ٹو، گیارہ انچ یا تیرہ انچ پتلے، ہلکے میک بک
ایئر کمپیوٹرز کے دیوانے ہیں۔ لاکھوں نوجوان ان مصنوعات کو خریدنے کی جستجو
میں ہیں اور لاکھوں انھیں خرید چکے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ مشینیں اپنے
خوبصورت ڈیزائن کے ساتھ ساتھ بلاشبہ کسی موٹر سائیکل سے کہیں زیادہ سستی
ہیں اور وہ ان پر موٹر سائیکل سے کہیں زیادہ اسپیڈ کے ساتھ دنیا دیکھ سکتے
ہیں یا یوں کہئے کہ اس سے کہیں زیادہ اسپیڈ کے ساتھ گھوم سکتے ہیں جب کہ وہ
ا ان پر اپنا کام بھی کرسکتے ہیں۔بہر طور وجوہات خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں،
اخبار کے نزدیک یہ کہنا کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہوگی کہ امریکہ میں موٹر
سائیکل کا دور اب ختم ہونے کو ہے۔ امریکہ کی معاشی کساد بازاری جہاں نوجوان
کے رہن سہن کو اور موٹر سائیکل کی صنعت کو متاثر کر رہی ہے، وہاں سیاسی
ماہرین کے نزدیک ملک کے آئندہ انتخابات پر بھی اس کا بہت گہرا اثر پڑ سکتا
ہے۔اخبار ’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے اپنے ایک اداریہ میں بیشتر سیاسی ماہرین کے
حوالے سے لکھا ہے کہ امریکہ کی معاشی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو اِس کا اثر
صدر اوباما کے دوبارہ انتخاب پر بھی پڑ سکتا ہے۔اخبار ایک معروف اور موقر
سیاسی ماہر لیری بارٹیلسLarry Bartelsکے پیش کردہ فارمولے کا بالخصوص ذکر
کرتا ہے جِس میں صدر اوباما کی اگلے انتخابات میں جیت کی پیش گوئی کرتے
ہوئے یہ نکتہ پیش کیا گیا ہے کہ امریکی ووٹرز تاریخی اعتبار سے شاز و نادر
ہی کسی ایسے صدر کو دوسری بار مسترد کرتے ہیں جس کی جماعت اپنی ایک مدت
وہائٹ ہاؤس میں گزار چکی ہو جبکہ انتخابات میں ان کی کامیابی کیلئے دوسرا
اہم عنصر یعنی معیشت کی صورتِ حال بھی صدر کے حق میں اسلئے جاسکتی ہے کہ
معیشت کو اہمیت دینے والے امریکی ووٹرز صدر کو اس کساد بازاری کے خاتمے کا
کریڈٹ دے سکتے ہیں جو ان سے پہلے شروع ہوا تھا۔ |