نفس کی تحلیل اور تجزیے کو عمل
کی دُنیا میں ثابت کرنے والے سِگمنڈ فرائڈ کا انتقال ہوچکا ہے۔
نفسی پیچیدگیوں کی گتھیاں سُلجھانے میں عالمگیر شہرت کے حامل کارل یُنگ بھی
اب اِس دُنیا میں نہیں رہے۔
نفسی مخمصوں اور پیچیدگیوں پر زندگی بھر تحقیق کرنے والے ولیم جیمز تو خیر
بہت پہلے ہی دُنیا کو خیرباد کہہ کر چل دیئے تھے۔
سِگمنڈ فرائڈ، کارل یُنگ اور ولیم جیمز کا شُمار نفسیات کے اولین ماہرین
میں ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم نفسیات کے ماہرین اور ذہن کی گتھیاں
سلجھانے والے عامل اور کامل فقیر لائیں تو کہاں سے لائیں؟ آپ سوچیں گے کہ
نفسیات کے ماہرین اور عاملین کی ایسی کیا ضرورت پڑگئی؟ بات یہ ہے جناب کہ
سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان کو اچانک یہ بات کسی نہ کسی طور القاءہوئی
ہے کہ اُن کے پیشرو یعنی سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو
فوری نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے!
ابن صفی بھی کب کے مرحوم ہوئے ورنہ ہم اُن سے پوچھ لیتے کہ ایک سابق وزیر
اور صدر کے ذاتی دوست کا یوں ہمارے درمیان، متحرک اور لِسانی طور پر بے
لگام ہونا کس ملک کی سازش ہوسکتی ہے!
فٹ پاتھ پر مُستقبل کی دُکان سجانے والے نجومیوں اور اُن کے طوطوں سے ہم
کچھ پوچھ نہیں سکتے کیونکہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نجومیوں اور طوطوں سے تو
بہر حال آگے کی چیز ہیں!
منظور وسان فرماتے ہیں کہ ذوالفقار مرزا جو کچھ کہتے پھر رہے ہیں وہ اِس
امر کا غَمّاز ہے کہ اُن کی ذہنی حالت درست نہیں۔ یعنی فوری علاج کا کیس
ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ذوالفقار مرزا سے سراسر زیادتی ہے۔ ذاتی مخاصمت میں
منظور وسان صاحب شاید بھول گئے ہیں کہ ہمارے ہاں تو ہر دوسرا سیاست دان
فوری علاج کا کیس ہے! اگر بولنے کے نام پر چیخنے، دہاڑنے اور بھونکنے کو ہم
خرابی سمجھ لیں تو یقین کیجیے کہ کوئی بھی سیاست دان معقولیت کی کسوٹی پر
کھرا اُترتا نہیں ملے گا! اب کوئی بتائے کہ اگر منظور وسان صاحب کے فرمان
کے مطابق سیاست دانوں کا علاج کرانا پڑ گیا تو ہم اِتنے ہسپتال اور اِتنے
معالجین کہاں سے لائیں گے؟
پاکستانی سیاست دانوں کی اکثریت کے لیے فوری ذہنی علاج لازم ہے۔ معاملہ صرف
نفسیاتی علاج کا نہیں۔ چند ایک کے مزاج کا ہاضمہ اِس قدر خراب ہے کہ اُن کے
بیانات میں باتیں کم اور کھٹّی ڈکاریں زیادہ ہوتی ہیں! ایک نفسیاتی عارضہ
تو خیر تقریباً ہر سیاست دان کو لاحق ہے۔ جسے بھی سیاست کے میدان میں قدم
رکھنے کا موقع ملتا ہے وہ یہ سوچنا شروع کردیتا ہے ”میرے بعد اِس ملک کا
کیا ہوگا!“ اور ہم اِس فکر میں گھلتے رہتے ہیں کہ اگر وہ زندہ اور سرگرم
رہے تو ملک کا کیا بنے گا! کوئی اقتدار کی میز پر دھرے ہوئے اختیارات اور
قومی وسائل کھا کھاکر اِتنا فربہ ہوگیا ہے کہ چالیس من کا آسٹریلوی بیل بھی
دیکھے تو شرما جائے! کسی کا نام ہم اِس لیے نہیں لے رہے کہ کسی بھی طریق
علاج سے مستفید ہونا فی الحال ہماری خواہش نہیں!
منظور وسان صاحب کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنہیں میڈیا کی ”ترقی“
عزیز نہیں۔ یہ سارا رونق میلہ سوچے سمجھے بغیر بولنے، بلکہ چیخنے والوں کے
دم سے ہے۔ جو بولنے کے نام پر بھونکتے ہیں اُنہی کی ”دانش“ سے مستفید ہونے
کے لیے تو لوگ پرائم ٹائم میں ٹی وی سیٹ کے سامنے احترام سے زانو تہہ کرکے
بیٹھتے ہیں! اور کبھی کبھی تو لوگ زانوئے تلمذ بھی تہہ کرلیتے ہیں تاکہ کچھ
سیکھ کر اُٹھیں! منظور وسان صاحب سے میڈیا اور عوام کی دو دن کی خوشی بھی
دیکھی نہیں جاتی۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے دم قدم سے میڈیا کے چمن کی بہاروں
کو توسیع ملی ہے۔ جب اِس ملک میں سبھی اپنی خدمات کا دائرہ دو دو، تین تین
سال کے لیے وسیع کرلیتے ہیں تو میڈیا کی بہاروں کو طُول پکڑنے سے روکنا
کہاں کا انصاف اور دانش مندی ہے؟
بُنیادی سوال یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا کے ذہن کا علاج کرنے کا یارا کِس میں
ہے؟ آج کے پاکستان میں ذہنی امراض کے ماہرین کو سب سے پہلے تو مریض کے سر
میں ذہن کی موجودگی کا تعین کرنا پڑتا ہے! کھوپڑی کے اندر پائے جانے والے
دماغ کو ذہن ثابت کرنا اِس قدر پیچیدہ مرحلہ ہے کہ بعض معالجین پہلے راؤنڈ
ہی میں ہار مان لیتے ہیں! اور پھر سیاست دانوں کا ذہن!! چلیے، مان لیتے ہیں
کہ کسی نہ کسی مشین کی مدد سے یہ طے ہو بھی گیا کہ ذوالفقار مرزا ذہن کے
حامل ہیں تو ہم اِس پائے کا ماہر نفسیات لائیں گے کہاں سے جو اُن کا علاج
کرسکے؟ فرض کیجیے نفسیات کی دُنیا سے کوئی نابغہ ہمارے ہاتھ لگ بھی گیا تو
وہ علاج کا کون سا طریقہ اختیار کرے گا؟ دو چار ماہ تو شاید وہ یہی سوچنے
میں ضائع کردے کہ مرزا صاحب کو کس طریقے سے قابو کیا جائے۔ اور اگر ہم ایک
لمحے کو یہ بھی فرض کرلیں کہ وہ نابغہ ذوالفقار مرزا کے علاج میں کامیاب ہو
جاتا ہے تو پھر اُس غریب کا علاج کون کرے گا!
جو آگ لگائی تھی غم وہ آگ بجھائی اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اُس آگ کو ٹھنڈا کون کرے!
منظور وسان صاحب کے مشورے پر عمل کیا گیا تو تھوڑی بہت نہیں بلکہ اچھی خاصی
خرابی پھیلے گی۔ سیاست دانوں کے نفسیاتی علاج سے عوام کا نفسیاتی علاج بھی
لازم ہو جائے گا۔ سر دست معاملہ یہ ہے کہ لوگ پرائم ٹائم میں گھر والوں سے
اُلجھنے کے بجائے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر سیاست دانوں کے دنگل دیکھتے ہیں۔
اگر سیاست دانوں کے ذہن درست کردیئے گئے (جو یقیناً معجزہ ہوگا!) تو گھر
گھر دنگل ہوگا۔ جب ٹی وی کے سیاسی دنگل نہیں تھے تب روزانہ گھر گھر ہنگامہ
آرائی ہوا کرتی تھی۔ سیاست دانوں کے دنگل میں بھرپور دلچسپی لینے والوں کو
جب کوئی بھی غضب تماشا دیکھنے کو نہیں ملے گا تو وہ آپس میں اُلجھیں گے اور
لڑا کریں گے۔ فی الحال طویلے کی بلا بندر کے سر ہے۔ جب طویلے کا اُصول
تبدیل ہوگا تو بندر کی جان چھوٹے گی اور طویلے کی شامت آ جائے گی۔ طویلے کو
شامتِ اعمال سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ منظور وسان کے مشورے پر عمل نہ کیا
جائے۔ اگر کہیں ذوالفقار مرزا کا علاج کامیاب ہوگیا تو عوام سیاست دانوں کو
گردن سے پکڑ کر نفسیاتی ہسپتالوں میں لاکر پھینکنے لگیں گے کہ لو، جب
ذوالفقار مرزا کو راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے اِن سیاست دانوں نے کیا
”سنوارا“ ہے کہ اِن کے دماغ درست نہ کئے جائیں؟ |