” صاف سچ “بولنے والے حکمران

عیدالاضحی کے خیریت کے ساتھ گزرنے کے بعد میرا موڈ الحمداللہ بہت اچھا ہے اور میرا دل طنز و مزاح سے بھر پورکالم لکھنے کو مچل رہا ہے تاکہ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ اور منہ میں سیخ کباب کامزا بدستور رہے ویسے اس بار کم از کم کراچی میں کھالوں کی روایتی چھینا جھپٹی بھی دیکھنے میں نہیں آئی جس کی وجہ سے بھی شہریوں کے چہرے کچھ زیادہ ہی کھلے ہوئے ہیں لیکن بعض حساس باشندے عید کے دنوں میں قربانی کی کھالیں ہاتھ میں لیئے حیران و پریشان بھی نظر آئے ان کی نظریں یہ سوال کررہی تھیں کہ ” بھائی یہ کھال کس کو دینی ہے ؟کیا واقعی یہ کھال اپنی مرضی سے کسی کو بھی دیدیں؟ سچ بتاؤ یار یہ کوئی بھیانک مذاق تو نہیں ہے ؟“۔۔۔۔۔ہم سے تو جس نے بھی یہ سوال کیا ہم نے یہ ہی جواب دیا کہ بھائی یہ تاریخی دن آگئے ہیں اب ہم کم از کم قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے بارے میں تو اپنی مرضی کا فیصلہ کرسکتے ہیں مگر محتاط افراد یہ ہی کہتے رہے کہ ” کہیں مروا مت دینا انور بھائی“ کیونکہ سارے ”بھائیوں“ کو معلوم ہے کہ ہم نے مہنگا ئی کے باوجودجانور خریدنے کی جرات کی ہے۔

ویسے لوگوں کو ہنسنے ہنسانے اور مسکرانے کا جتنا موقع موجودہ جمہوری دور میں مل رہا ہے میرا خیال ہے کہ ماضی کے سیاست دان اس صلاحیت کا اظہار کرنے میں گذشتہ 60سالوں میں ناکام رہے ، اس سے قبل جو بھی حکومت آئی وہ اس طرح نہ ہنساتی تھیں اور نہ ہی لوگوں کو مسکرانے اور مذاق کرنے کا موقعہ دیتی تھی ۔۔۔بے چاری ماضی کی حکومتیں۔۔۔۔اب یہ بات بھی تو واضع ہے کہ ماضی میں سیاسی اداکار نہیں تھے سب سے بڑھ کر ان کو پہنچاننے والوں کی بھی کمی تھی۔

موجودہ دور میں عوام کے لئے حکمران رات رات بھر ”مذاق رات“ کرتے ہیں اور بعد میں بتایا جاتا ہے کہ مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔

لیکن اب تو پوری قوم کو سیاست دانوں کی وجہ سے مزاحیہ فنکاروں کی کمی کا احساس ہی نہیں ہوتا ، چلو یہ بھی اچھا ہوا کہ کسی معاملے تو ہم خود کفیل ہوئے ۔

ہمارے سیاست دان خصوصا حکومتی شخصیات قوم کو ہنسنے اور ہنسانے کا جو تاریخی موقع فراہم کررہے ہیں اس پر دل چاہتا ہے کہ ان کے منہ کو چوم لیں۔۔۔۔لیکن اپنے منہ سے نہیں بلکہ کسی بھاری چیز سے۔ ََ
موجودہ حکومت کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ اس کو اب مزید نہیں چلنا چاہئے بلکہ انہیں چلنا چاہئے جو ماضی میں چلاکرتی تھیں مثلاََ ٹرینوں کو اور جن کو اڑنا ہے انہیں اڑنے دینا چاہئے مگر ہمارے ملک میں ہوائی جہازوں کے بجائے حکمران اڑرہے ہیں آپ کو یقین نہیں آئے تو ان کی باتیں سن لیں اور ان کی گاڑیوں کو دیکھ لیں۔

بہرحال حکومت چلتی رہے گی اور اپنی مدت کے باقی دن پورے کرےگی یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ آصف زرداری کہتے ہیں ان کا مزید کہنا یہ ہے کہ الیکشن وقت پر ہونگے نہ تو ایک دن پہلے ہونگے اور نہ ہی ایک دن بعد ہونگے ، صدر زرداری کی اس بات سے ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ آئندہ حکومت وقت کی پابندی کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔

کاش ایسا ہی ہوجائے مجھے وقت کی پابندی پر ایک بات یاد آگئی پچھلے دنوں ایک اسکول میں چھوٹ کے موضوع پر تقاریر کا مقابلہ ہورہا تھا اس مقابلے کے دوران ایک بچے نے معصومیت سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ ہمارے حکمران اپنی سچائی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہورہے ہیں یہ جملہ سنتے ہی پورا جلسہ گاہ قہقوں سے گونج اٹھا بچہ گھبراگیا اس نے رک کر کہا نہیں ہمارے سیاست دان اور حکمران جھوٹ سے واقف ہی نہیں ہے، شرکاہ میں سے کسی نے مقرر بچے سے کہا آپ نے بالکل ٹھیک کہا اب قوم کو سچ سننے کی عادت ہی نہیں رہی تو اس میں سیاست دانوں کیا قصور ہے۔

سچ کیا ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا ،وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک صاحب تو ایسا کچھ بولتے ہیں کہ غیر ملکی بھی حیران ہوجاتے ہیں ، ابھی چند روز قبل انہوں نے لندن کے کمشنر کی اس بات کو ہی جھٹلادیا کہ کراچی سے دو افراد کو عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار کیا گیا ہے انہوں نے واضع انداز میں کہا کہ نہیں کراچی سے کوئی گرفتاری عمران فاررق قتل کیس میں نہیں کی گئی جبکہ اسی حوالے سندھ کے وزیر داخلہ منظور وسان نے کہا تھا کہ مجھے علم نہیں یہ معاملہ وفاقی حکومت کا ہے وہ ہی اس بارے میں کچھ بتاسکتی ہے۔

اب دونوں شخصیات میں سے کون سچے ہیں اور لندن والوں کو اس معاملے میں جھوٹ بولنے ضرورت کیوں پڑھ گئی ؟ اس بات پر آپ خود فیصلہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ہم لوگ کتنے سچے ہیں اور سچ سننے کے عادی ہیں!

مجھے یقین ہے کہ اگر سچ کی طرح جھوٹ بولنے والی حکومتوں کا دنیا میں کہیں مقابلہ ہوتو ہماری موجود حکومت سے وابستہ شخصیات ہر کٹییگری میں اول پوزیشن حاصل کریں گے وزیر داخلہ ملک صاحب اور ان کے دوست تو ممکن ہے خصوصی ایوارڈ کے مستحق قرار پائیں کہ مشکلات کے باوجود وہ ایسا سچ بولتے ہیں کہ انہیں خود شائد اپنے اوپر حیرت ہوتی ہو۔۔۔۔۔۔جب وفاقی وزیر داخلہ اتنا سچا انسان ہو تو پھر قوم کو اور کچھ سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔؟
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152840 views I'm Journalist. .. View More