دِیا سلائی ۔ گبھرائیے نہیں یہ
نہ کوئی کسی پرانے وقتوں کی شہزادی کا نام ہے، نہ ہی کسی مرچ مصالحے کا نام
اور نہ ہی کسی سلائی کڑھائی کا نام ہے بلکہ ہماری روز مرہ کی لازمی جزو
یعنی ماچس کا پرانا نام ہے جسے آگ لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ۔ ویسے
تووطنِ عزیز میںبغیر ماچس کے آگ لگانے والے بھی بہت سے ایسے لوگ پائے جاتے
ہیں جنہیں اقتدار سے زیادہ دن دور رہنا ہو تو پورے ملک میں انہیں انتشار کی
آگ نظر آتی ہے تا ہم اس دیا سلائی یعنی ماچس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
ارے ہاں انتشار پر یاد آیا کہ معروف اداکارہ؟؟ مسرت شاہین بھی ایک بار فر
ما رہی تھیں کہ ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو پھا نسی دی جائے۔ تو آ پ
کے خیال میں زیادہ انتشار کون پھیلاتا ہے؟؟؟ سوچیں اگر ایسا ہوا تو سب سے
پہلے تو تمام اسٹیج اداکاراﺅں اور ڈانسروں کو ملک میں انتشار پھیلانے پر
سزائے موت ہو جائیگی نہ ؟؟؟؟ خیر جناب بات ہو رہی تھی ماچس کی تو آجکل لوڈ
شیڈنگ اور سردی کی وجہ سے اسکی اہمیت اور بھی دو چند ہو گئی ہے۔ چولہا جلا
نا ہو تو ماچس، ہیٹر جلانا ہو تو ماچس، موم بتی جلانی ہو تو ماچس، سگریٹ
جلانی ہو تو ماچس، لکڑی جلانی ہو تو ماچس۔ ویسے اگر دل جلانا ہو تو ۔۔۔۔۔۔؟
اور دل جلانے پر یاد آیا کہ جب سے اداکارہ ریما کی ایک پہلے سے شادی شدہ
ڈاکٹر کے ہمر۱ہ امریکہ میں شادی ہوئی ہے ، ہمارے جیسے کنوارے تو کیا شادی
شدہ حضرات بھی آہیں اور ہونکیں بھر بھر کر بغیر کسی ماچس یا لائٹر کے دل
جلاتے پائے جارہے ہیں۔ حالآنکہ مادھوری بیگم امریکہ کے ایک ڈاکٹر سے شادی
کے بعد دو بچیوں کو لیکر واپس اپنے دیش سدھار چکی ہیں۔ بہرحال! ہم ریما
صاحبہ کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے دعا گو ہیں۔
سوری یار! ہم پھر لائن سے اتر گئے۔ ہاں تو میں کہہ ر ہا تھا کہ ہماری پرانی
بڑی بوڑھیاں اس آئیٹم یعنی ماچس کو دیا سلائی کے مبارک نام سے یاد کرتی
تھیں۔ ایک بار ایک پرانی ساس نے نئی نویلی دلہن سے کہہ دیا کہ بہو ذرا دیا
سلائی دینا میرے کان میں خارش ہورہی ہے، بہو نے بڑی زور سے ایسے ہائیں کہا
جیسے کہ ساس نے دیا سلائی نہیں بلکہ کان کے جھمکے اتارنے کے لیے کہہ دیے
ہوں اور جناب اسی بات پر بہو اور ساس کا پھڈا ہوگیا جسے شام کو شوہر نے آکر
بمشکل سنبھالا۔ اسی طرح ایک گھر میں بچوں نے کھیل کھیل میں ماچس کہیں چھپا
دی ، ا ماں بیچاری ڈھونڈ ڈھونڈ مر گئی مگر اسے آگ لگانے کو ماچس نہ ملی۔ آگ
سے خود کشی کرنے میں بھی ماچس ہی اصل ملزم ہوتی ہے مگر اسپر کبھی کوئی مقد
مہ نہیں بنتا ۔ نہ یہ ماچس ہو نہ خود کشی ہو۔ اب تو یہ ما چس لارج سا ئز کے
ساتھ ساتھ سمال سائز میں بھی با ٓٓدستیاب ہوتی ہے۔ نئے لونڈے لپاڑے ، نئے
سگریٹ پینے کے شوقین اس سمال سائز ماچس اور ایک آدھ سگریٹ کو توڑ موڑ کر
بآسانی اپنے جوتے یا جراب میں سما لیتے ہیں اور موقعہ ملتے ہی کسی کونے
کھدرے میں اپنا کام سر انجام دے لیتے ہیں۔ ایک بار ایک صاحب جنہیں لیٹرین
میں سگریٹ پینے کی عادت تھی ، دورانِ حاجت انکی سگریٹ بجھ گئی اور ضروری
کام میں خلل واقع ہو گیا ، پھر انہوں نے جو واش روم سے بیگم کو آوازیں
لگائیں تو سارے محلے نے سنیں پر بیگم نے نہ سنیں اور اچھا خاصا پھڈا شروع
ہوگیا۔ اگر چہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ماچس بھی ایڈوانس ہوکر گیس اور الیکٹرک
لائٹر کی شکل اختیار کر چکی ہے مگر فی زمانہ اسکی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
آسانی دستیاب ہے۔ لونڈے لپاڑے نئے سگریٹ کے شوقین اسے جوتوں، جرابوں، قفوں
یا کالر میں ایک آدھ سگریٹ کے ساتھ بآسانی چھپا لیتے ہیں اور پھر موقعہ
ملتے ہی کہیں کونے کھانچے میں سوٹے کھینچ لیتے ہیں۔
اس آفت کی پرکالہ کے نقصانات بھی بہت ہیں۔ ایک بار تو بچوں نے کھیل کھیل
میں ماچس چلا کر پورا گھر جلا کر راکھ کر دیا تھا اور ماں باپ بیچارے ہاتھ
ملتے رہ گئے۔اس ماچس کا ایک دوغلا پن یہ بھی ہے کہ خو د ایک بار ذرا سا جل
کر دوسرے کو ہمیشہ کے لیے جلا کر راکھ کر دیتی ہے ۔نقصا نات کے ساتھ ساتے
اس ماچس کے فائدے بھی بہت ہیں۔ مثلا دانتوں کے خلال کے لیے، کان کا میل
نکالنے کے لیے، بچوں اور بڑوں کے ناک اور کان صاف کر نے کے لیے ماچس کی
ضرورت ، بجلی کے شو میں تار پھنسانی ہو تو ماچس کی ضرورت ۔ پچھلے زمانے میں
تو خواتین اس ماچس کی خالی ڈبی میں بھانج یعنی اکنی، دونی، چونی ، اٹھنی،
رپیہ وغیرہ رکھنے اور کانٹے بندے چھپانے کا کام بھی لیتی تھیں۔ کچھ بھی ہے،
ہے بہت ہی کام کی چیز۔ ہیروئن پینے والوں کے لیے تو یہ ماچس اور اسکی تیلی
ہمیشہ اکثیر کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ اسکی تیلی کے بغیر انکا سانگ ادھورا
رہ جاتا ہے۔ ہم نے ایک بیچارے ہیروئنچی کو اللہ جھوٹ نہ بلوائے ایک ماچس کے
لیے سارا دن مزدوری کرتے بھی دیکھا۔ ایک بار تو دو ہیروئنچی آپس میں صرف اس
بات پر لڑ ا ئی کے لیے صف آرا ہوگئے کہ پہلی ماچس کی تیلی کون جلائے گا۔ ان
بیچاروں کے ہاں ماچس کی تیلی اور پنی کے الگ الگ ایکسپرٹ پائے جاتے ہیں۔
اسی طرح شبِ برات میں پٹاخے اور پھل جھڑیا ں بھی اس ماچس کے بغیر ادھور ے
ہیں۔ چائنا نے تو ماچس کی تیلی کا پٹاخہ ہی ایجاد کر دیا ہے، اسے ماچس کی
تیلی کی طرح رگڑیں اور ہوا میں اچھالیں ٹھاہ ۔ کسی کے گھر میں اچھال دیں
ٹھاہ۔ کسی راہ چلتے کے پاﺅں میں ڈال دیں ٹھاہ۔ کسی گھوڑے یا گدھے دم کے
نیچے رکھ دیں پھر دیکھیں تماشہ ہوتا کیا ہے؟؟۔ بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر
حضرات اس ماچس کو تعویذ کی طرح اپنے ساتھ رکھتے ہیں، سگریٹ سلگاکر اس تیلی
کو کبھی یو نہی بیکار میں نہیں ڈالتے بلکہ کچھ دیر اسے دانتوں میں چبا چبا
کر، خلال کرکے اچھی طرح پیسے وصول کر کے تباہ و بر باد کر کے پھینکتے ہیں۔
ایک بار بچوں نے ایک گھوڑا چڑھی بارات میں گھوڑے کی دم کے نیچے یہ ماچس
پٹاخہ پھینک دیا، پھر کیا تھا، دولہا بیچارہ کئی روز بعد دوسرے شہر کے
ہسپتال سے ناقابلِ شناخت حالت میں وصول ہوا۔ یونہی ایک بچے نے مویشی منڈی
میں بیچ جانوروں کے ایک ماچس پٹاخہ چلا دیا، بس پھر کیا تھا کہ قصائیوں کی
موج ہوگئی اور ہر مسجد میں کئی روز تک گمشدہ جانوروں کے اعلانات ہوتے
رہے۔اسی طرح ایک گدھا ریڑھی والا آٹے کی بوریاں لادے جا رہا تھا کہ ایک بچے
نے پھر وہی ماچس پٹاخے والی شرارت کردی ، نتیجہ پھر وہی کہ پہلے گدھے نے
مالک کی دولتیوں سے اچھی خاصی توا ضع کی پھر پوری سڑک اور بازار میں آٹا ہی
آٹا کر کے کہیں انجان راہوں کا راہی بن گیا۔شاپنگ میں مصروف خواتین کی وہ
حالت بنی کہ گھر پہنچنے پر گھر والوں نے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔
کئی ایک مواقع پر اس ماچس کی ایک تیلی سے کئی کئی سگریٹ سلگا کر انرجی
سیونگ بھی کی جاتی ہے۔ ویسے رات برات اگر گھر میں اسکی شارٹیج ہو جائے تو
بہت مسئلہ بنتا ہے کہ محلے والوں کے کنڈے بجانے پڑتے ہیں، کبھی ایسا بھی
ہوتا ہے کہ پڑوسیوں کے ہاں ماچس کی ڈبی میں بھی ایک ہی تیلی بچی ہوتی ہے
اور وہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اس ایک تیلی کو پڑوسی کو دیکر ثوابِ دارین
حاصل کریں، یا پڑوسیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا گناہ برداشت کریں۔ ماچس کی
خالی ڈبیا ں اور استعمال شدہ تیلیاں بھی مرا ہاتھی سوا لاکھ ہیں۔ چھوٹے بچے
ماچس کی خالی ڈبیاں جمع کرکے انسے تاش کے پتوں کا کام لیتے ہیں تو کچھ
حضرات اسکی تیلیوں سے نوادرات بنا کر اپنا نام روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماچس کا ایک اور استعمال یہ بھی ہے کہ پولیس سے بچنے کے لیے، نشئی حضرات
نشہ آور اشیاءاسمیں چھپا لیتے ہیں اور بچوں کو شبِ برات پر ابا پٹا خوں کے
لیے پیسے نہ دیں تو بچے بہت سی تیلیوں کا مصالحہ جمع کر کے اسے بجا کر ا
پنا دل پشوری اور لہوری کر لیتے ہیں۔ آجکل ملکی حالات کے پیش نظر کسی بھی
ادار ے میں جاﺅ تو سب سے پہلے تلاشی کے دوران ماچس یا لائٹر کو ہی نکال
باہر کر دیا جاتا ہے اور سکینیر سے گزرتے ہوئے یہ اپنی موجودگی خود ہی ظاہر
کر دیتی ہے۔
لہذا آپ سبھوں سے گذارش ہے کہ اس چھوٹی سی آفت کی پر کالہ کو معمولی نہ
جانیے گا اور خاص طور سے اسے بچوں سے ہمیشہ دور رکھیں ۔ پہلے زمانے میں لوگ
اسے دیا سلائی کہتے تھے ، پھر ماچس ، پھر گوروں نے اسکا نام میچ بکس رکھا ،
نہ جانے ہمارے بڑھاپے میں اسکا کیا نام ہوگا؟ آپکے کمینٹس کا انتظار رہیگا۔ |