ملک کے طو ل وعرض میں تبدیلی کا
شور وغوغا ہے کوئی انقلاب کی نوید سنا رہا ہے تو کوئی متوسط طبقے کی پارٹی
ہو نے کے دعوے کے ساتھ کراچی کا امن تباہ کرنے کے بعد پنجاب کے امن پر نظر
یں جمائے بیٹھا ہے۔ مینار پاکستان سے بھی تبدیلی کی صدائیں بلندہوئیں جو
کسی نادیدہ قوت کی آشیرواد کے باوجود گلی محلے میں پھیلنے کی بجائے ہوا میں
تحلیل ہو رہی ہیں۔ پرانی بوتل نئی شراب کے مصداق ان کا وشوں میں تبدیلی
کہیں کوسوں تک اس لئے دکھائی نہیں دیتی کہ اس تبدیلی کے پیچھے ”فرد واحد“کی
پرائم منسٹر بننے کی خواہش ہے ٬نعرہ توتبدیلی کا لگا لیکن اب تک پارٹی میں
ایسے ہی نمایاںناموں کو شامل کیا گیا جن کا ریکارڈ گزشتہ کئی دہائیوں سے
عوام مختلف پارٹیوں کے پلیٹ فارم پر دیکھ چکے کوئی اپنی جعلی ڈگری کی
بناءپر راندہ درگاہ ہو ا تو کوئی ٹکٹ نہ ملنے کے باعث ہوا کے رخ کو دیکھتے
ہوئے ادھر کا رخ کربیٹھاتو کوئی ساڑھے تین برس حکومت کے مزے لوٹنے کے بعد
پسند کی وزارت نہ ملنے پر حاجی صاحب بن کرپیر ہو تے ہوئے کسی کا مرید بننے
کامنتظر ہے ۔ کچھ سنجیدہ شخصیات نے بھی موصوف کی تبدیلی پر لبیک کہا لیکن
ان کی طلسمی شخصیت کے سامنے ان کی نہ چل سکی اس لئے وہ نمایا ں نام ان کے
گروپ میں شامل ہو نے کے باوجودمینار پاکستان کے ”میوزیکل کلچرل شو“ کا حصہ
نہ بنے اور اپنے حجروں میں ہی عدل وانصاف کاعلم بلند کئے ہوئے ہیں۔محسن
پاکستان اور پاکستان کے نوجوانوں کےلئے روشنی کی علامت ڈاکٹر عبد القدیر
خان نے اپنے تبصرے میں انتہائی واضح طور پر اس ڈرامائی تبدیلی کے تناظر میں
کہا کہ ” عمران خان کے پاس ٹیم ہی نہیں وہ کیا انقلاب لائیں گے ٬محض ریلیاں
نکالنے اور نعرے لگانے سے ووٹ نہیں ملتے عمران خان کا معاملہ ون مین شو کا
ہے اور ون مین شو زیادہ دیر نہیں چلتا “ اس بیان کا آنا تھاکہ انقلاب کے
علمبرد اروں کی گیارہ رکنی ٹیم کی جانب سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر
خان کے خلاف زہر اگلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ان کے ترجمان دانشوروں نے
ڈاکٹر خان کو باﺅنسر مارنے شروع کردئیے۔ ہمارے انتہائی محترم بزرگ دانشور
ہارون رشید بھی اپنے قائد کی ہمدری میں اپنا غصہ کنٹرول نہ کرسکے اپنے ایک
آرٹیکل میں فرماتے ہیں ”آدمی وہ(ڈاکٹر عبد القدیر خان ) بڑے ہیں٬ ایک سے
ایک بڑ ا خواب دیکھنے والے ٬غیر معمولی یاداشت ٬حیرت انگیز تحرک اور اپنی
ٹیم کو آمادہ وعمل کرنے کی منفرد صلاحیت ٬اپنی ذات گرامی کے سو ا مگر کوئی
دوسرا انھیں کبھی دکھائی نہیں دیا٬سائنسدان تو خیر وہ ہیں کمال کے٬ دانشور
اور مفکر بھی وہ خود کوسب سے بڑا سمجھتے ہیں“با ت دانشور وں کی چل ہی نکلی
تو ہم ایک نوجوان اور بڑی تیز ی سے میڈیا کے بلندیوں کو چھونے والے ایک
نوجوان دانشور جاوید چوہدری کے چند فرمودات بھی یہاں پیش کرنے کی جسارت
کرتے ہیںلکھتے ہیں”عمران خان میں چند ایسی خامیا ں بھی ہیں جن کی وجہ سے وہ
سیاست میں آج تک کامیاب نہیں ہوسکے اگر پاکستان اور انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ
نے کھل کر ان کا ساتھ نہ دیا تو شاید ان خامیوں کی وجہ سے یہ کبھی کامیاب
نہ ہو سکیں ٬ان کی پہلی خامی غلط لوگوں کاانتخاب ہے یہ ہمیشہ غلط لوگوں
کاانتخاب کرتے ہیں اور یہ غلط لوگ بہت جلد ان کے گرد گھیراڈال لیتے ہیں اور
ان لوگو ں کی وجہ سے اچھے لوگ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔ان کی
دوسری خامی غرور یا ایرگینس ہے ٬ عمران خان میں عاجزی نہیںیہ لوگوں سے
فاصلے پر رہتے ہیں اور لوگوںمیں گھلتے ملتے نہیںجس کی وجہ سے یہ مغرور
سمجھے جاتے ہیں اور ان کی تیسری خامی مینجمنٹ کی کمی ہے ٬ یہ اچھے منیجر
نہیں آپ صرف ”شوکت خانم ہسپتال “ کو لے لیں یہ ہسپتال 29دسمبر 1994ء میں
بنا اور عمران خان آج تک اس کےلئے چندہ جمع کررہے ہیں اگر یہ اچھے منیجر ہو
تے تو انھیں 17سال بعد ہسپتال کےلئے چندہ نہ جمع کرنا پڑتا میر ے ایک دوست
کہا کرتے ہیں کہ عمران خان نے جس دن چندے کے بغیر ہسپتال چلا لیا میں اس دن
سمجھوں گا یہ پورا ملک چلا سکتے ہیں۔عمران خان کی چوتھی خامی ان کاسطحی علم
ہے ٬ان میں گہرائی نہیں ان کی سیاست چند فقروں اور چند نعروں پر چل رہی ہے
یہ گہرائی میں جاکر مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں نہ ہی ان کا حل تلا ش کرتے
ہیںچنانچہ مجھے خطرہ ہے یہ اگر اقتدار میں آگئے تویہ مسائل کا حل تلاش کرنے
میںاپنا وقت ضائع کردیں گے ان کی پانچویں خامی خوش فہمی ہے یہ بہت جلد خوش
فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں یہ25اپریل 1996ءمیں سیاست کے آنے کے دن سے خود کو
وزیر اعظم سمجھ رہے ہیں اور یہ رویہ غلط ہے “
اس تمام تر رویے اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کو تختہ مشق بنانے کے حوالے سے
ایک معروف تجزیہ نگار کا ایک فقرہ میری نظرسے گزرا ان کا کہنا تھاایک نئی
ایم کیو ایم بننے جارہی ہے یہ فقرہ درست اور بروقت اس لئے ہے کہ نوجوانوں
کو انقلاب کے خواب دکھانے والے طلسماتی قائد کے مریدوں نے آ ج تک تحمل او ر
برداشت کو اپنے قریب بالکل جگہ نہ دی اور مخالفت میں بولنے والے ہر شخص اور
بالخصوص صحافیوں کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی اس تناظر میں یہ کہنا بے جا
نہ ہوگا کہ ایک نئی ایم کیو ایم نمو پارہی ہے۔
70ءکے بعدروٹی کپڑا ٬ مکان اورپھر دو تہائی اکثریت کے نام پر تبدیلی کے
خواب چکنا چور ہو چکے اب قوم حقیقی تبدیلی چاہتی ہے ایسے میںملک وقوم سے
مخلص دانشوروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس موقع پر قوم کی درست
رہنمائی کریں ہم اس موقع پر تذکیر کےلئے اس بات کو دہرانا چاہتے ہیں کہ یہ
ریاست اسلا م اورکلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کی گئی اس لئے حقیقی اور دورس
تبدیلی وہی ہے جو اللہ کے حکم سے محمد عربی ﷺ نے اندھیرے میں ڈوبی انسانیت
کو قرآن جیسی انقلابی کتاب کی صورت میں دی اور اس حقیقی تبدیلی کو مدینہ
جیسی اسلامی ریاست پر نافذ کردکھایا جس کی بدولت وقت کے قیصروکسری نیست
ونابود ہوئے اور اسلام کا پرچم چہار سو لہرایا آج بھی ہمیں اسی تبدیلی کی
ضرورت ہے کیونکہ وہی تبدیلی حقیقی تبدیلی ہے سوشلزم ٬کیمو نز م٬ سیکولرازم
اور سرمایہ دارانہ نظام اپنی موت آپ مر چکا اب قوم کو ایک بار پھر تبدیلی
کے تین نشان .... اللہ ٬ محمد اور قرآن کا نعرہ مستانہ بلند کرنا ہو گا۔ |