ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ
میرے مرنے پر ہمالیہ روئے گا،ہمالیہ تو نہ رویا لیکن ان کے داماد کی حکومت
پر آج پوری قوم ضرور رو رہی ہے ۔آصف علی زرداری کے صدر کیا، وزیر بننے پر
بھی لوگوں کے تحفظات تھے کیونکہ وہ اپنی اہلیہ کی وزارت عظمیٰ کے ادوار میں
مسٹر ٹین پرسنٹ کے حوالے سے جتنا بدنام ہو چکے تھے اس کے بعدا ن کا آنا
بنتا نہیں تھا لیکن شاباش ہے بے نظیر بھٹو کے بعد کی پیپلز پارٹی کے اندر
اینٹی پی پی ٹولے کی کہ جس نے آصف علی زرداری کوپارٹی کا شریک چئیرمین اور
پھر ملک کا صدر بنا یا اور گزشتہ 3 سال میں زرداری صاحب نے جس کمال سے
پارٹی اور حکو مت کو چلایا ہے وہ ان کا ہی کمال ہے جبکہ ملک تو چلا ہی نہیں
جا رہا ۔
2008 الیکشن کے بعد کی پی پی کے دور پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس کی اب تک
حکومت کرنے کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ ان کے پاس آ صف علی زرداری ہیں اور
وہ جو جیالے کہتے ہیں کہ ایک زراری سب پر بھاری وہ بالکل صحیح ہے کیونکہ
پیپلز پارٹی کے ’کو چئیرمین‘ کے پاس امور مملکت اور امور جماعت چلانے کے جو
گر ہیں وہ شائد مسلم لیگ ن کے قیادت کے پاس بھی نہ ہو(اسی لئے تو وہ ماضی
میں میاں نواز شریف کو ان سے سیاست کے گر سیکھنے کا کہہ چکے ہیں) اور ان
گروں میں سے سب سے اہم گر یہ ہے کہ اگر آپ کسی کو ’کنوینس ‘ نہیں کر سکتے
تواسے ’کنفیوژ‘ ضرور کر دیں تاکہ آپ کی کھونٹی مضبوط رہ سکے اور رائج الوقت
سیاست میں یہی کلیہ سب سے زیادہ کامیاب ہے یہی جھوٹی سیاست کا سچا اصول ہے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نورا کشتی سے نہیں نکل رہی اور اس کشتی میں اس کی صدا
بہار حریف ایم کیو ایم ہی ہے جو تین بار حکومت سے علیحدہ ہوئی اور پھر واپس
آ گئی اور اب کی بار بھی ان کو چٹکی کاٹنے والے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ہی ہیں
۔مرزا صاحب بھی مرنجان مرنج شخصیت ہیں لیکن ایم کیو ایم کے لئے نہیں۔ وہ
سندھ اسمبلی سے مستعفی ہو چکے ہیں ،سیاست سے گو کہ توبہ کر چکے ہیں لیکن اس
کے باوجود میڈیا کا پیچھا چھوڑ رہے ہیں اور نہ میڈیا ان کو نظر انداز کرنے
کو تیار ہے کہ ان کی باتیں ہی سیاست کے سمندر میں ہلچل پیدا کر نے والی
ہوتی ہیں ۔شیخ رشید احمد نے بھی2002کے انتخابات کے بعد کہا تھا کہ وہ اگلی
دفعہ الیکشن نہیں لڑیں گے لیکن دنیا نے انہیں اس کے بعد بھی انتخابات میں
حصہ لیتے اور شکست کے بعد لال حویلی میں سگار پیتے افسردہ دیکھا، لہذا شیخ
رشید کی طرح ذوالفقار مرزا کی ہر سچی بات کو سچ نہیں تصور کرنا چاہیے اور
نہ ہی سنجیدہ لینا چاہئیے ۔مرزا صاحب زرداری صاحب کے کارخاص ہیں کہتے کچھ
اور کرتے کچھ ہیں ۔
ڈاکٹر‘ رحمان ملک کے متعلق ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جس قسم کی زبان استعما ل
کرتے رہے ہیں اس کے بعد تو انہیں جیل میں ہونا چاہیے تھا لیکن وفاقی وزیر
داخلہ بھی سندھ کے سابق وزیر داخلہ کے خلاف کاروائی کرنے کے حق میں نہیں
ہیں ملک صاحب انہیں چھوٹا بھائی کہتے ہیں تو مرزا صاحب ا نہیں پاکستان کا
دشمن قرار دیتے ہیں ۔اب موصوف مرزا صاحب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے
خلاف کوئی اہم دستایزات لے کر اچانک لند ن چلے گئے ہیں اور لندن جا کر
موصوف کو پتہ چلا کہ جس فلائٹ سے وہ لندن آئے ہیں اس میں ان کے دوست اور
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن بھی سوار تھے جنہوں نے لندن اییر پورٹ پر ان
کا استقبال بھی کیا لیکن چند لمحموں بعد پاکستان سے ایک خاص فون آنے کے بعد
حضرت ہیتھرو ائیر پورٹ سے کراچی کے لئے روانہ ہو گئے۔
ذوالفقار مرزا جب ایم کیو ایم اور اس کے قائد کے خلاف تند و تیز بیانات دے
کر لندن روانہ ہوئے تو اس کے فوری بعد پر ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں
ایم کیو ایم کے وفد نے اسلام آباد میں صدر زرادری سے ملاقات کی ،بات نہ بنی
تو صدر زراری اور الطاف حسین کے درمیان رابطہ ہوا جبکہ اسی روز کابینہ کے
اجلاس میں وزیراعظم گیلانی ایک گھنٹے تک ایم کیو ایم اور ساتھی ارکان کو
ذوالفقار مرزا کی صفائی پیش کرتے رہے اور اگلے روز قومی اسمبلی میں انہوں
نے ذوالفقار مرزا کو اپنی پارٹی کا حصہ اورخاندان قرار دیا اور اپنا وہی
روایتی جملہ دھرایا جو وہ اس قسم کے موقعوں پر اکثر دہرایا کرتے ہیں کہ
اختلافات رائے ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ جبکہ سندھ کے وزیرا علیٰ سید قائم علی
شاہ نے ذوالفقار مرزا کے حوالے سے کہا کہ ان کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق
نہیں اور شرجیل میمن نے لندن سے واپسی پر یہ عندیہ دیا کہ مرزا صاحب پی پی
ٹیم کا حصہ ہیں اور حصہ رہیں گے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان
کا بھی یہی خیال ہے کہ ذوالفقار مرزا کی سیاسی زندگی اب ختم ہو گئی ہے اور
اس حوالے سے جب کراچی میں اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہیمیدہ مرزا جو
ذوالفقار مرزا کی اہلیہ ہیں کی رہائش گاہ سے سندھ حکومت نے سکیورٹی
اہلکاروں کو ہٹا دیا تو اس پر یقین راسخ ہو گیا کہ مرزا اور زرداری کی
راہیں جدا ہو گئی ہیں لیکن پھر سیاسی منظرنامے میں ایسا رنگ بھرا گیا کہ
صدر زرداری نے فہمیدہ مرزا کو عشا ئیہ پر مدعو کیا اور اس کے بعد ان کی
کراچی کی رہائش گاہ پر سکیورٹی بھی بحال کر دی گئی اور پی پی کی قیادت نے
ذوالفقار مرزا کو پھر گلے لگا لیا۔
کیمو فلاج کی یہ پالیسی صدر زرداری کی خصوصی اختراع ہے جسکے تحت وہ گیلانی
صاحب کی حکومت کو ساڑھے تین سال سے چلا رہے ہیں۔ اس دوران زرداری صاحب نے
اپنی خاص سیاست کاری سے جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم کو خوب لتاڑا اور اس
اس طریقے سے ذلیل کیا کہ آئندہ عام انتخابات میں یہ جماعتیں کامیاب نہ ہو
سکیں جبکہ اس کے مقابلے میں پی پی کی ریٹنگ بھی نہیں بڑھی ہے۔ عوام کو
پیپلز پارٹی کی سیاست کا علم ہو چکا ہے اور وہ اس کا ذمہ دار صدر زرداری کو
قرار دے رہے ہیں پارٹی کے اندر باغی گروپ بھی ہے اور ناراض ارکان بھی ۔اب
دیکھنا یہ ہے کہ زرداری صاحب کیمو فلاج اور جھوٹی سیاست کے سچے اصول کے تحت
کیسے اپنے آپ کو رینٹل پاور کیس اور منصور اعجاز کے خط والے معاملے سے بچا
سکتے ہیں۔ |