پاکستان بدل رہا ہے۔۔۔۔۔

دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کہ آج ہی کی بات ہو۔ 30 اکتوبر کو مینار پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ جس میں تقریباً تین لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی اور یہ 1986کے بعد پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہے اور اس کے اثرات نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں دیکھے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک کا کوئی بھی صحافی ،اخبار یا پھر ٹی وی چینل عمران خان کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ ہر ایک نے بڑے کھلے دل کے ساتھ عمران خان اور تحریک انصاف کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ وہ ملک میں اتنا بڑا جلسہ کرانے میں کامیاب ہوئے۔

اگر عمران خان کی بات کی جائے تو یہ ایک تبدیلی ہے جو کہ اس ملک میں آ رہی ہے اوریہ سونامی ہے جو کہ سب لٹیروں کو بہا کر لے جائے گا۔ عمران خان جو کہ اپنی ہر تقریر میں تبدیلی کا نعرہ بلند کرتے ہیں وہ آخر کار اپنی زندگی کے پندرہ اہم ترین سالوں کی انتھک محنت کے بعد کامیاب ہو ہی گئے۔ مینارِپاکستان میں عمران خان کا یہ جلسہ اس بات کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان کے لوگ بدلاﺅ چاہتے ہیں اور وہ روایتی حریفوں سے بہت تنگ آ چکے ہیں ۔ اور وہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی عوام جس کوآج تک صرف روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے میں باندھ کر رکھا ہوا تھا، وہ لوگ اب اس نعرے سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ وہ اگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

سیانے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیشہ تعریف وہ ہی ہوتی ہے جو آپ کے دشمن بھی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔سب سے مزیداربات یہ ہے کہ عمران خان کے مخالف سیاست دان بھی ان کی تعریف کرتے ہیں۔کسی جماعت یا کسی لیڈر کو بھی عمران خان کی قابلیت یا پھر انکی لیڈرشپ پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بہت ساری سیاسی جماعتوں کو اپنا مستقبل خطرے میں نطر آ رہا ہے کیونکہ جتنی تیزی سے عمران خان عوام میں مقبول ہو رہے ہیں تمام لیڈر انکی اس رفتارپر حیران و پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ عمران خان نے مینارِپاکستان میں کامیاب جلسے کے بعد کراچی میں اس سے بھی بڑا اور کامیاب جلسے کا دعوٰی کیا ہے۔

اگر عمران خا ن کے جلسے کی کامیابی کا اندازہ لگانا ہو تو اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بہت ساری دوسری سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں نے اپنی جماعت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ اور کچھ لوگ تو تحریکِ انصاف میں شامل بھی ہو چکے ہیں اور بہت سارے اس میں شامل ہونے کے خواہش مند بھی ہیں۔یہ بات توصاف ہے کہ کسی کو عمران خان کے ماضی اور حال میں کوئی داغ نظر نہیں آتا ۔عمران خان جو کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پڑھا لکھا انسان ہے اور پاکستان میں کوئی بھی ایسا سیاسی لیڈر نہیں جس کی قابلیت عمران خان جتنی ہو ۔ کچھ سیاسی ہستیوں کو یہ اعتراض ہے کہ عمران خان صاحب کے پاس کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے۔ ان کایہ کہنا بھی غلط ہے کیونکہ عمران خان بار بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ان کو پندرہ سال لگے ہیں انقلاب لانے میں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ و ہ پچھلے پندرہ سال سے سیاسی میدان ہیں اور اس وقت جتنا تجربہ کار انسان وہ ہے شاید ہی کوئی اور ہو۔ وہ ایک محنتی اور دل کا سچا انسان ہے۔کامیابی حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا اسے برقرار رکھنا ہے۔کچھ لوگ اپنے مفاد اور اپنا سیاسی مستقبل کو بچانے کیلئیے تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو پہلے سے کرپٹ ہیں اور تحریک انصاف میں آکر اپنے آپ کو پاک دامن بنانا چاہتے ہیں عمران خان کو مخلص اور بے داغ لوگوں کو ہی شامل کر نا چاہیئے جن پر عوام اعتماد کر سکے۔یہ کھیل کا میدان نہیں بلکہ سیاسی جنگ کا میدان ہے۔یہاں ان کا مقابلہ بڑے بڑے مگرمچھوں کے ساتھ ہے۔عمران خان کو چاہیئے کہ وہ جذبات سے نہیں بلکہ سمجھداری سے کام لیتے ہوئے ایسے لوگوں سے محفوظ رہیں اور اپنے آپ کو مستقل مزاجی کا قائل بنائیں۔

پاکستان کی عوام تبدیلی چاہتی ہے اور ان کو عمران خان میں وہ انسان نظر آتا ہے جو کہ ان کو پاکستان میں درپیش تمام مشکلات سے نکال سکتا ہے۔ عمران خان ان کو وہ پاکستان دے سکتا ہے جس کی بنیاد علامہ محمد اقبال نے رکھی اور اس میں قائداعظم کے بنائے ہوئے اصولوں پر کام ہو۔یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کی عوام میں بدلاﺅ آ رہا ہے اور پاکستان بدل رہا ہے کیونکہ پاکستانی عوام کو عمران خان میں قائداعظم کی جھلک نظر آتی ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی عوام اسی طرح عمران خان کا ساتھ دیتی رہے اور ان کو کامیاب بنا دے اور پھر عوام کو وہ پاکستان ملے گا جس کا وہ لوگ خواب دیکھ رہے ہیں۔
muhammad sajjad virk
About the Author: muhammad sajjad virk Read More Articles by muhammad sajjad virk: 16 Articles with 18869 views I am student of master in mass communication.. View More