توقع کی جارہی ہے کہ اسی عشرے میں میڈیکل
اسٹوروں پر انسانی خون اسی طرح دستیاب ہونے لگے گا جس طرح اب گلوکوز کی
بوتلیں اوردوسری دوائیں ملتی ہیں۔ یہ خون ہوگا تو انسانی ہی مگراسے
لیبارٹریوں میں مصنوعی طریقے سے تیار کیا جائے گا۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ وہ انسانی سٹم سیل سے تجربہ گاہ میں اصلی خون
بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور آئندہ دو تین سال کے اندر انسانوں پر اس
خون کے تجربات شروع کیے جارہے ہیں۔
انسان کی زندگی کی گاڑی خون پر چلتی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گاڑی کو
چلانے کے لیے خون ایک خدمت گار کے طورپر کام کرتا ہے۔ وہ پھیپھڑوں سے
آکسیجن لے کر دماغ اور جسم کے تمام خلیوں تک پہنچاتا ہےاور وہاں سے استعمال
شدہ کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کو پھیپھڑوں میں واپس لے جاتا ہے، جو اسے سانس
کے ذریعے خارج کردیتے ہیں۔ اسی طرح خون ہمارے ہاضمے کے نظام سےگلوکوز،
وٹامنز، نمکیات اور دیگر اجزا جسم کے تمام حصوں کو فراہم کرتا ہے اوروہاں
سے فاسد اور نقصان دہ مادوں کو جگراور گردوں میں لے جاتا ہے جو اسے الگ
کرکے جسم سے نکال دیتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ خون ہی ہے جو
بیماریوں کے جراثیموں کامقابلہ کرتاہے اور انہیں جسم میں داخل ہونے سے
روکتا ہے۔خون کی ایک اور نمایاں خوبی اس کے جمنے کی صلاحیت ہے، جو جسم سے
خون کے اخراج کو روکتی ہے۔
دنیا میں خون کی سالانہ مجموعی ضرورت کے بارے میں تو اعدادوشمار دستیاب
نہیں ہیں ، لیکن امریکن ریڈ کراس سوسائٹی کا کہناہے کہ امریکہ میں ہردو
سیکنڈ کے بعد ایک مریض کو خون کی ضرورت پڑتی ہے۔
وکی پیڈیا کے مطابق انسانی خون کی طلب میں سالانہ آٹھ فی صد تک اضافہ
ہورہاہے جب کہ اس کی فراہمی میں اضافہ محض دو فی صد کے لگ بھگ ہے، جس سے ہر
سال طلب کے مقابلے میں اس کی رسد میں تقریباً چھ فی صد کمی ہورہی ہے۔
انسانی خون اسپتالوں میں سرجری، زخمیوں ، اور کئی مہلک امراض کے مریضوں کی
جان بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خون کے بعض امراض میں بھی خون بدلنے
کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لیے بڑی مقدار میں مخصوص گروپ کے خون کی ضرورت ہوتی
ہے۔
بدقسمتی سے انسانی خون کو زیادہ عرصے تک محفوظ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور
ریفریجریٹر میں بھی اسے زیادہ سے زیادہ 42 دن تک محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ جب
کہ لیبارٹری میں سٹم سیل سے تیار کردہ خون عام درجہ حرارت پر تین سال کے
لیے اپنی تمام خصوصیات برقرار رکھتا ہے۔
سائنس دان ایک عرصے سے مصنوعی خون بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں مگر انہیں
کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ۔ کیونکہ اکثر صورتوں میں انسان کا
قدرتی دفاعی نظام مصنوعی اجزاء پر مشتمل خون کے خلاف ردعمل ظاہر کرتا ہے
اور مریض کو مصنوعی خون، یا اس کا کوئی جزو دینا فائدے کی بجائے نقصان دہ
ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر زیادہ تر خون کے عطیے پر بھروسہ کرتے
ہیں۔
کئی ترقی پذیر ممالک میں مریض کے رشتے دار اور دوست اپنے خون کا عطیہ دینے
کی بجائے خون خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جس سےخون بیچنا ایک پیشہ بن چکا
ہے۔ ان میں اکثریت نشے کے عادی افراد کی ہوتی ہے ، جن میں سے کئی ایک
ہپاٹائٹس، ایچ آئی وی ایڈز اور کئی دوسری خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوتے
ہیں۔ ان افراد کا خون مریض کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
خون کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور اس سے منسلک مسائل کے پیش نظر سائنس دانوں کی
توجہ سٹم سیل پر گئی۔ برطانیہ کی ایڈن برگ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی ایک
ٹیم نے ایک بالغ شخص کی ہڈی کے گودے سے سٹم سیل حاصل کرکے لیبارٹری میں اس
کی پرورش کی۔انسانی جسم میں خون اس کی ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے۔ ماہرین
کا کہنا ہے کہ سٹم سیل سے او نیگیٹو گروپ کا خون تیار کرنا زیادہ فائدہ مند
ہے کیونکہ یہ خون کا کمیاب گروپ ہے اور پوری دنیا میں محض سات فی صد لوگوں
کے خون کاگروپ او نیگیٹو ہوتا ہے جب کہ اس گروپ کا خون 98 فی صد مریضوں کو
دیا جاسکتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ جسم کے اندر ہڈیوں کا گودہ ایک خاص حدتک خون پیدا
کرتا ہے لیکن لیبارٹری میں خون پیدا کرنے کی مقدار کو نمایاں طورپر بڑھایا
جاسکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہناہے کہ فی الحال انہوں نے ہڈیوں کے گودے سے سٹم
سیل حاصل کیا ہے لیکن بعد ازاں جسم کے کسی اور حصے مثلاً انسانی کھال کے
سٹم سیل کو بھی خون پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔
پروفیسر مارک ٹیونر کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں دو تین سال کے اندر
لیبارٹری میں تیار کردہ خون کا تجرباتی بنیادوں پر استعمال شروع ہوجائے گا
اور دس سال کے اندر مصنوعی خون میڈیکل اسٹوروں پر عام فروخت ہونے لگے گا۔
طبی ماہرین کو اپنے تجربات کی کامیابی کا پختہ یقین ہے اور ان کا کہناہے کہ
اس تاریخی دریافت سے اصلی انسانی خون کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مانگ کے مقابلے
میں گھٹتی ہوئی طلب پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔ |