یہ دور انفو ٹیلی کمیونیکیشن کا دور ہے جس
میں تمام لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ویسے تو
متعدد ویب سائٹس جیسے ٹوئیٹر،مائی اسپیس و دیگر کا استعمال سماجی روابط
قائم کرنے کے لئے ہوتا رہا ہے مگر ان سب میں خاص مقبولیت حاصل کرنے والی
سائٹ فیس بک ہے۔ فیس بک کا افتتاح 4 فروری 2004ء کو مارک زکربرگ نے اپنے
روم میٹس کے ساتھ مل کر کیا۔ شروع میںیہ سائٹ صرف ایک ملک تک محدود تھی مگر
آہستہ آہستہ بین الاقوامی سطح پر استعمال ہونے لگی۔ آج اس سائٹ کے 8 ملین
سے زائد صارفین ہیں اور ان میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں فیس
بک بے حد مقبول ہو چکی ہے اور ہر کوئی اس سماجی رابطے کی سائٹ کا استعمال
کر رہا ہے۔ پوری مسلم دنیا کے تیئس سے چوبیس کروڑ مسلمان فیس بک استعمال
کرتے ہیں، صرف پاکستان کی بات کی جائے تو 25 سے 30 لاکھ سے زیادہ پاکستانی
اس سائٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں فیس بک میں جو حضور پاکّ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق
غیر اخلاقی مواد شائع کیا گیا۔ اس سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان سخت
ناراض ہوئے اور انھوں نے فیس بک کا استعمال ترک کر دیا۔ پاکستان میں تو کچھ
دنوں کے لئے فیس بک پر پابندی بھی لگا دی گئی اورمواد ہٹانے کی شرط پر ویب
سائٹ کودوبارہ کھولا گیا۔ اس واقعہ کے بعد فیس بک سے متعلق مختلف خبریں
جیسے فیس بک کے ذریعے مسلمانوں کی جاسوسی، غیر مہذب مواد کی اشاعت اور
اسلام کے خلاف فیس بک پیجز سننے میں آتی رہیں۔ اب مسلمانوں کے دماغ پر فیس
بک کے منفی اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک کے استعمال میں
کافی حد تک کمی آئی ہے۔
ہمیں سوشل میڈیاکے استعمال کو ترک نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اس کا استعمال
بڑھانا چاہیئے تاکہ ایک دوسرے سے رابطوں کو فروغ ملے اور ہم یکجا ہوں۔ ہمیں
فیس بک طرز کی سائٹ کو خود بنانا چاہیئے۔ کفار کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ
کسی طرح مسلمان ہمارے مقابلے کے نہ رہیں، تو ہمیں فیس بک کے اندر ہی رہ کر
مقابلہ کرنا چاہیے یا پھر کوئی دوسرا سوشل نیٹ ورک بنانا چاہیے۔ فیس بک کا
مستقل استعمال تو شاید پاکستان کی بیشتر عوام کے لئے مشکل ہو مگر ہم خود
اپنی بین الاقوامی سطح پر ویب سائٹ بنا سکتے ہیں۔ اس طرح ایک تو مسلمانوں
کی الگ سائٹ ہو گی اور دوسرا اس پر ہمارا پورا قابو ہوگا، کبھی بھی کہیں سے
بھی غیر مہذب مواد شائع ہونے سے روکا جاسکے گا۔اسی طرح دینی اداروں یا
تحریکوں کو بھی فروغ دیا جا سکے گا۔ نیز ہمارے نیٹ ورک میں پالیسی ہمارے
اپنے قوانین اور قواعد کے مطابق ہوگی۔
فیس بک کو مقبول ہونے میں چار سے پانچ سال لگے تھے، اگر فیس بک طرز کی اپنی
سائٹ بنا لیں تو یہ بھی مقبول ہو سکتی ہے۔ ہم ایک ایسی سماجی روابط کی ویب
سائٹ بنا سکتے ہیں جس میں انگریزی اور اردو سمیت متعدد زبانوں کا استعمال
ایک ساتھ کیا جاسکے۔ یعنی ایسا کیا جائے کہ جو جس زبان میں چاہے اپنی
شیئرنگ کر لے جیسے آج کل عام بلوگز میں ہوتا ہے۔
پی ٹی اے اس سائٹ کو بہت جلدعام کر سکتا ہے۔ ایک ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے
جس کے تحت چھوٹے چھوٹے بلوگز کو اس ویب سائٹ کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ پی ٹی
اے موبائل فون رجسٹریشن اور دیگر مقاصد کے لئے میسج سروسز کا افتتاح کرواتی
ہے، اس مقصد کے لئے بھی ایسا کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر فیس بک کی طرح
پاکستان سے کوئی سائٹ دنیا بھر میں مقبول ہو جاتی ہے تو ہم ویب اشتہارات کے
ذریعے اربوں روپے کما سکتے ہیں، صرف تھوڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں
یہ پاکستانی سائٹ نہ بھی مشہور ہو تو پاکستانیوں کے لئے الگ سائٹ بنائی
جاسکتی ہے اور اس سے بھی کافی فائدہ ہو گا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ
چار لاکھ اکتیس ہزار صارفین انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے
تقریباً 50 فیصد موبائل انٹرنیٹ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ 99 فیصد پاکستانی
انگریزی ویب سائٹس پر جاتے ہیں جبکہ ایک فیصد صرف اردو ویب سائٹس کا
استعمال کرتے ہیں۔ ان اعدادو شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان
میں کتنی بڑی تعداد انٹرنیٹ ویب سائٹس کا استعمال کرتی ہے اور ہم اپنی سوشل
میڈیا سائٹ کو بنا کر کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ویسے تو فیس بک کے علاوہ کئی اور سائٹس جیسے ٹویٹر، مائی اسپیس، گوگل پلس
اور دیگر ہیں مگر یہ سب عیسائیوں اور یہودیوں کی سائٹس ہیں جو کہ فساد اور
تفریق پھیلانے میں لگی رہتی ہیں۔ ان ویب سائٹس کا استعمال ترک کرنے سے بہتر
ہے کہ ان سب سائٹس پر موجود خصوصیات کو ملا کر ایک منفرد پاکستانی سماجی
رابطے کی سائٹ بنائی جائے جو پاکستانیوں اور مسلمانوں کے نام سے منسلک ہو
اور وہاں ہم آزادی سے مذہبی مقاصد سر انجام دے سکیں۔ اس ویب سائٹ کے حصول
کے لئے ہم ملک بھر کے ویب ڈیزائنرز سے موبائل میسجز کے ذریعے رائے بھی لے
سکتے ہیں۔ پی ٹی اے کی طرف سے اس سائٹ کی مشہوری پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا
کے ذریعے کرائی جاسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں فیس بک کی
طرز کی سائٹ بنانے کی ہمت کی جائے۔ |