1857 ميں علمائے ديوبند كا منفرد
كردار
جنوري 2007ئ ميں همارے اداريے كا عنوان تھا ٫٫2007 انقلاب 1857 كے نام٬٬ اس
موضوع پر حضرت مولانا يٰسين اختر مصباحي صاحب نے اتنا لكھا كه پوري جماعت
كا كفاره ادا كر ديا۔ اس ليے بجا طور پر اب كها جا سكتا هے كه ٫٫انقلاب
٧٥٨١ئ مولانا يٰسين اختر مصباحي كے نام٬٬ ۔ انقلاب ٧٥٨١ئ كے حوالے سے ملك
كے مختلف گوشوں ميں سمينار اور كانفرنسيں هوئيں ، رسائل و جرائد كے نمبر
نكلے۔ امتدادِ زمانه كي تهوں ميں دبے هوئے بهت سے حقائق بے نقاب هوئے۔ كچھ
ايسے اهم كردار بھي منظرِ عام پر آئے جنھيں متعصب تاريخ نگاروں نے انتهائي
بے دردي سے نظر انداز كر ديا تھا ۔ اس هجومِ شوق اورهمه همي ميں تاريخ
سازوں كو بھي خوب موقع ملا ۔ آزاديِ هند كي سرخ روئي حاصل كرنے كے ليے
انھوں نے جو واقعات گڑھے تھے ، انھيں موقع به موقع دهرايا گيا بلكه جھوٹ
اتني كثرت سے بولا گيا كه وه سچ معلوم هونے لگا۔ پروپيگنڈه كي طاقت كو هر
دور ميں محسوس كيا گيا هے اور آج تو جديد ذرائع ابلاغ نے اس كے ليے بهت سے
امكانات پيدا كر ديے هيں۔ انھيں ميں سے ايك انقلاب 1857ئ ميں دار العلوم
ديوبند اور علماے ديوبند كا كردار بھي هے۔ آج كي نشست ميں هم اس رخ پر ٹھوس
دلائل كے ساتھ روشني ڈاليں گے ۔ 2007ئ ميں نيا دور لكھنو اور راشٹريه سهارا
دهلي وغيره اخبار و جرائد كے جو نمبر نكلے ان ميں بھي خاصے مضامين اس موضوع
پر سامنے آئے اور عام طور پر يه تاثر دينے كي كوشش كي گئي كه 1857ئ ميں دار
العلوم ديوبند اور علماے ديوبند كا بڑا كليدي كردار رها هے۔
مدرسه ديوبند 1283ھ 1866ئ ميں قائم هوا، يعني انقلاب 1857ئ سے قريب ٩ سال
بعد۔ اب يه كيسے هو سكتا هے كه مدرسه ديوبند نے اپنے وجود سے پهلے هي جنگِ
آزادي ميں كوئي حصه ليا هو، مگر افسوس چوري اور سينه زوري كي انتها هو گئي۔
نيا دور اپريل، مئي 2007ئ كے انقلاب 1857ئ نمبر ميں فيصل احمد ندوي نے ٫٫مولانا
قاسم نانوتوي اور پهلي جنگ آزادي٬٬ كے موضوع پر ايك مضمون لكھا هے، جس ميں
اور بهت سي من گڑھت كهانيوں كے ساتھ يه بھي لكھا هے:
٫٫مشهور مورخ ڈاكٹر اشتياق قريشي كے بقول يه دار العلوم 1857ئ كي بغاوت
ميں نماياں طور پر لڑنے والوں كي ايك خاص تعداد كے ليے جاے پناه
تھا۔٬٬﴿نيادور، انقلاب 1857ئ نمبر ، لكھنو ،ص:93﴾
يه عبارت كوئي تاريخي چيستاںنهيں كه اس كي كوئي تاويل كي جائے بلكه دو دو
چار كي طرح واضح هے۔جو اداره هنگامه 1857ئ كے قريب ٩ سال بعد وجود ميں آيا
هو اس كا كوئي كردار اپنے وجود سے پهلے كيسے پيدا هو سكتا هے ۔ يه تو ممكن
هے كه علماے ديوبند نے قيامِ مدرسه سے پهلے عالمِ خواب ميں جنگ لڑي هو۔ يوں
بھي علماے ديوبند كا آدھا مذهب خوابوں كي بنياد پر قائم هے مگر يه حقيقي
اور واقعي جنگ هرگز نهيں تھي۔اور يه بھي ايك تاريخي حقيقت هے كه جب علماے
ديوبند بولا جاتا هے تو اس سے مدرسه ديوبند كي خاص فكر سے وابسته علما هي
مراد هوتے هيں۔
اسي مضمون ميں قلم كار نے دوسرا اقتباس مولانا محمود حسين ديوبندي كے
حوالے سے نقل كيا هے۔ موصوف لكھتے هيں:
٫٫شيخ الهند مولانا محمود حسين ديوبندي نے ايك مرتبه جوش ميں آكر
فرمايا،٫٫حضرت الاستاذ ﴿حضرت نانوتوي﴾ نے اس مدرسے كو كيا درس و تدريس ،
تعليم و تعلم كے ليے قائم كيا تھا؟ مدرسه ميرے سامنے قائم هوا، جهاں تك ميں
جانتا هوں 1857ئ كے هنگامه كي ناكامي كے بعد يه اداره قائم كيا گيا كه كوئي
ايسا مركز قائم كيا جائے جس كے زيرِ اثر لوگوں كو تيار كيا جائے تاكه 57ئ
كي ناكامي كي تلافي كي جائے۔٬٬﴿به حواله سوانح قاسمي،ج:٢،ص:226﴾
مولانا محمود حسين ديوبندي كے اس پر جوش بيان سے تين چيزيں سامنے آئيں۔
﴿١﴾ مدرسه ديوبند كو تعليم و تعلم كے ليے قائم نهيں كيا گيا۔
﴿٢﴾ مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم نانوتوي نے قائم كيا۔
﴿٣﴾ مدرسه 1857ئ كے بعد قائم هوا تاكه 57ئ كي ناكامي كي تلافي هو سكے۔
يه صحيح هے كه مدرسه ديوبند تعليم و تعلم كے ليے قائم نهيں كيا گيا ، مگر
افسوس علماے ديوبند هي اس كي تعليم و تعلم كا ڈھنڈورا پيٹتے هيں۔ اس كا
فيصله وه خود كريں كه علماے ديوبند كي كارگزارياں قيامِ مدرسه كے مقصد كو
كهاں تك پورا كر رهي هيں۔ دوسري بات يه كه مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم
نانوتوي نے قائم كيا ، يه بالكل غلط هے ۔ اس كے باني حاجي عابد حسين قادري
چشتي رحمۃ الله عليه تھے ۔ مگر موصوف چوں كه مسلكِ اسلاف پر كاربند سني
صحيح العقيده تھے اور ان كا مقصد تعليم و تعلم تھا اس ليے علماے ديوبند نے
ان سے اختلاف كيا اور ان كا نام قلم زد كر كے مولانا قاسم نانوتوي كو باني
كي حيثيت سے متعارف كرايا۔ اس پس منظر ميں مولانا نذير احمد ديوبندي لكھتے
هيں:
٫٫چوں كه لوگوں كے دلوں ميں خلوص نهيں رها ، اس ليے اختلافات رونما هوتے
رهے ، نتيجه يه هوا كه ايك وقت وه آيا كه آپ ﴿حاجي صاحب﴾ مدرسے كے كاروبار
سے علاحده هو گئے اور فرمايا كه للهيت نه رهي بلكه نفسانيت آگئي، فقير كو
ان سب باتوں سے كيا غرض۔﴿تذكرۃ العابدين،ص:76﴾
حاجي صاحب كے خانواده كے ايك شخص سيد افتخار حسين لكھتے هيں:
٫٫وه نفسانيت اس كے سوا كيا هو سكتي هے كه وه اس مدرسے كے ذريعه اسلام كي
حقانيت و صداقت كي نشر و اشاعت كا جو اهم فريضه انجام دينا چاهتے تھے ، اس
اداره كے دوسرے اراكين اس سے متفق نهيں تھے۔
ان حضرات كا نقطه نظر بالكل جداگانه تھا ، وه اس مدرسے كو انگريزي حكومت
كي رضا و منشا كے مطابق چلانا چاهتے تھے كيوں كه مدرسے كے صدر مدرس مولوي
يعقوب حكومت وقت كے زبردست بهي خواه تھے۔ مدرسه كي صدر مدرسي قبول كرنے سے
قبل وه كئي شهروں ميں انگريز گورنمنٹ ميں ڈپٹي انسپكٹر آف اسكول كے فرائض
انجام دے كر اپنے حسنِ كاركردگي سے انگريزوں كي نظر ميں محبوب بن چكے تھے ۔
اپنے اس كامياب تجربه كي روشني ميں اس مدرسه كو اسي روش پر لے جانا چاهتے
تھے جو انگريز حكومت كے عين منشا كے مطابق تھا، اس ليے ان كے خيالات كا
حاجي محمد عابد كے خيالات سے متصادم هونا ناگزير تھا۔٬٬﴿دار العلوم ديوبند
كا باني كون؟ از:سيد افتخار حسين ديوبندي﴾
اس موضوع پر بهت كچھ لكھا جا چكا هے كه مدرسه ديوبند كے باني مولانا قاسم
نانوتوي هرگز نهيں تھے بلكه اس كے باني صوفي عابد حسين قادري چشتي تھے ۔
مولانا قاسم نانوتوي نے اپنے هم نواو ں كے ذريعه انھيں بے دخل كر ديا كيوں
كه وه اداره كو اسلام كي نشر و اشاعت اور تعليم و تعلم كے ليے چلانا چاهتے
تھے جو مولانا قاسم نانوتوي كو هرگز گوارا نهيں تھا ۔ مولانا قاسم نانوتوي
اور ديگر علماے ديوبند كي تربيت جس ماحول ميں هوئي تھي اس ميں انگريز نوازي
اپني انتها كو پهنچي هوئي تھي۔
٫٫الرحيق المختوم٬٬ كے مصنف مولانا صفي الرحمن مبارك پوري لكھتے هيں:
٫٫ديوبندي تحريك كے امير اول مولانا مملوك علي تھانوي كے متعلق سوانح
نگاروں كا اتفاق هے كه وه انگريزوں كے پكے وفادار تھے، موصوف دهلي كالج ميں
جهاں سے انگريز نواز هندوستاني تيار كيے جاتے تھے، مدرس رهے، بلكه حسنِ
كاركردگي سے متاثر هو كر كالج كے وزير سر ٹامس كي سفارش سے ٨ نومبر 1871ئ
كو آپ صدر مدرس قرار پائے۔ كالج كے تمام انگريز پرنسپل مولانا پر بهت
اعتماد كرتے تھے ، چناں چه هر سالانه رپورٹ ميں آپ كي تعريف و توصيف كي گئي
، گورنر جنرل نے مولانا كو انعام سے بھي نوازا اور خلعت سه پارچه مرحمت كيا
۔ دهلي كالج كے نصابوں كا كام آپ كے زيرِ نگراني هوتا۔٬٬﴿سوانح مولانا احسن
نانوتوي، از:پروفيسر ايوب قادري﴾
مولانا مملوك علي نے نانوته اور ارد گرد كے عثماني شيوخ كي تعليم كے ليے
دهلي كالج كي راه هموار كي اور كثير لوگوں كو انگريزوں سے وفاداري كي تربيت
دي، اكابرِ ديوبند اسي استاذ كے شاگرد تھے، جس نے انگريز نوازي اپنے
شاگردوں كو گھٹي ميں پلا دي تھي۔ ان شاگردوں سے يه تصور بھي نهيں كيا جا
سكتا كه انگريزوں كے خلاف جنگ لڑيں گے۔مدرسه ديوبند كو مولانا قاسم نانوتوي
نے اسي ڈگر پر پروان چڑھايا اور تعليم و تدريس پرتوجه دينے كے بجاے انگريز
نواز دستے تيار كيے اور انگريزي حكومت بھي ان كي كاركردگي سے پورے طور پر
مطمئن رهي۔مدرسه ديوبند كے پهلے صدر مدرس مولانا مملوك علي كے صاحب زادے
اور ان كے تربيت يافته مولانا محمد يعقوب منتخب هوئے۔ سوانح قاسمي كے مصنف
كے بقول:
٫٫موصوف 1857ئ كي جنگ كو ٫٫غدر٬٬ اور اس ميں حصه لينے والوں كو ٫٫مفسدين
٬٬سے تعبير كرتے تھے۔٬٬ ﴿سوانح قاسمي،ص:61﴾
مدرسه ديوبند كے قيام كے چند برس بعد 31 جنوري 1857ئ كو لفٹنٹ گورنر نے
اپنے خاص معتمد مسٹر پامر كو دار العلوم ديوبند كے معائينه كے ليے بھيجا تو
اس نے ان الفاظ ميں آكر رپورٹ دي۔
٫٫مدرسه خلاف نهيں بلكه موافق سركار و ممد و معاون سركار هے۔ يهاں كے
تعليم يافته لوگ ايسے آزاد اور نيك چلن هيں كه ايك دوسرے سے كچھ واسطه
نهيں۔٬٬﴿محمد احسن نانوتوي،ص:117﴾
هنگامه 1857ئ كے بعد پورے ملك ميں افراتفري كا عالم تھا ، قتل و غارت گري
عام تھي، علماے اهلِ سنت كو شبهات تك كي بنياد پر پھانسياں دي جا رهي تھيں
، جيل كي سلاخوں كے پيچھے ڈالا جا رها تھا۔ مجاهدين در به در بھاگے بھاگے
پھر رهے تھے ۔ اسي ماحول ميں انگريز مدرسه ديوبند سے مطمئن تھے، بلكه
معائينه نگار لكھتا هے كه مدرسه ديوبند ممد و معاون سركار هے۔ مدرسه
ديوبندكے ذمه داروںليے انگريز حكومت كا يه سب سے بڑا اعزاز تھا۔ كيا اب بھي
اس ميں شبهه باقي هے كه مدرسه ديوبند اپني انگريز حكومت كا سچا وفادار اور
خير خواه تھا۔
لفٹنٹ گورنر اپنے معائينه ميں مزيد لكھتا هے:
جو كام بڑے بڑے كالجوں ميں هزاروں روپے كے صرف سے هوتا هے وه يهاں كوڑيوں
ميںهو رها هے ۔ جو كام پرنسپل هزاروں روپے ماهانه تنخواه لے كر كرتا هے وه
يهاں ايك مولوي چاليس روپے ماهانه پر كر رها هے۔٬٬﴿سوانح احسن
نانوتوي،ص:217﴾
اس رپورٹ كے بعد مدرسه ديوبند كے ذمه داروں ميں خوشي كي لهر دوڑ گئي اور
ان كے بقول اس رپورٹ سے مدرسه كي شهرت و مقبوليت ميں چار چاند لگ گئے،روداد
مدرسه ميں ذمه داران نے بڑے فخر و انبساط كے ساتھ حسب ذيل تحرير سپردِ قلم
كي:
٫٫تمام اندروني و بيروني صدمات اور حوادث كے بعد جو نهايت هي اعليٰ درجه
كي كاميابي و شهرت مدرسه كو حاصل هوئي وه سر جان ڈگس لاٹوش لفٹنٹ گورنر
ممالك متحده آگره و اودھ كا به غرضِ خاص معائينه مدرسه ديوبند آنا تھا۔٬٬
﴿روداد مدرسه ديوبند1322ھ،ص:٧﴾
معلوم هوا كه انگريز گورنر كي رپورٹ پر علماے ديوبند نادم نهيں تھے بلكه
يه ان كے مشن كا عين نشانه تھاجو پورا هوا، سوانحِ قاسمي كے حاشيه ميں
ديوبند كے راز هاے سربسته كا انكشاف كرتے هوئے قلم كار لكھتا هے:
٫٫مدرسه ديوبند كے كاركنوں اور مدرسوں كي اكثريت ايسے لوگوں كي تھي جو
گورنمنٹ كے قديم ملازم اور حال پينشنر تھے، جن كے بارے ميں گورنمنٹ كو شك و
شبهه كرنے كي گنجائش هي نه تھي۔٬٬﴿حاشيه سوانح قاسمي،ج:٢،ص:247﴾
اس حاشيه نے بين السطور تك كو بے نقاب كر دياكيا اب بھي كوئي بنياد باقي
هے، جس پر انقلاب 1857ئ كا محل تعمير كيا جائے۔ آئيے اس باب ميں پيرِ مے
خانه مولانا اشرف علي تھانوي كي انگريز نوازي بھي ملاحظه كيجيے۔ مولانا
اشرف علي تھانوي اپنے فتويٰ محرره ٠١ صفر 1349ھ 1931ئ ميں لكھتے هيں:
٫٫چوں كه قديم سے مذهب اور قانون جمله مسيحي لوگوں كا يه هے كه كسي كي
ملت و مذهب سے پرخاش اور مخالفت نهيں كرتے اور نه كسي كي مذهبي آزادي ميں
دست اندازي كرتے هيں اور اپني رعايا كو هر طرح سے امن و امان ميں ركھتے هيں
۔ لهذا مسلمانوں كو يهاں هندوستان ميں جو مملوكه و مقبوضه اهلِ مسيح هے ،
رهنا اور ان كا رعيت بننا درست هے۔٬٬
﴿اوراقِ گم گشته، از رئيس احمد جعفري ندوي،ص:324﴾
يه هے شيخِ مے خانه كا فتويٰ كه عهدِ قديم سے تمام انگريزوں كا قانون و
مذهب يه هے كه كسي بھي مذهب و ملت سے پرخاش نهيں ركھتے ۔ يه فتويٰ موصوف نے
اس وقت ديا هے جب ٧٥٨١ئ ميں هزاروں هزار علما كوپھانسي كے پھندے پر لٹكاديا
گيا تھااور لاكھوں مسلمانوں كو بے گناه ته تيغ كر دياگيا تھا۔ كيا اسي كا
نام امن و امان هے؟مسيحي صديوں سے اسلام اور مسلمانوں كے دشمن رهے هيں،ليكن
آں حضرت بالكل بے خبر هيں ۔ اگر اسي كا نام فتويٰ نويسي اور اسلامي حق گوئي
هے تو منافقت اور انگريز نوازي كيا هے ؟ در اصل مدرسه ديوبند عهدِ قديم سے
انگريز نواز رها هے اور اس كي ساري سرگرمياں اسي سمت ميں رهي هيں ۔ اس ليے
مولانا اشرف علي تھانوي نے جو كچھ لكھا هے اپنے حال كے مطابق صحيح لكھا هے۔
بلا شبهه علماے ديوبند برٹش حكومت ميں پورے طور پر محفوظ و مامون رهے۔
ديوان جي نامي ايك صاحب كے متعلق مولوي مناظر احسن گيلاني نے اپني كتاب
٫٫سوانح قاسمي٬٬ ميں لكھا هے:
٫٫صاحبِ نسبت بزرگ تھے ، اپنے زنانه مكان كے حجرے ميں ذكر كرتے ۔ مولانا
حبيب الرحمن صاحب مهتمم دار العلوم ديوبند فرمايا كرتے تھے كه اس زمانے ميں
كشفي حالت ديوان جي كي اتني بڑھي هوئي تھي كه باهر سڑك پر آنے جانے والے
نظر آتے رهتے تھے ، در و ديوار كا حجاب ان كے درميان ذكر كرتے وقت باقي
نهيں رهتا تھا ان هي ديوان جي كے مكاشفه كا تعلق دار العلوم ديوبند سے بھي
نقل كيا جاتا هے ، لكھتے هيں كه مثالي عالم ميں ان پر منكشف هوا كه دار
العلوم كے چاروں طرف ايك سرخ ڈورا تنا هوا هے ،اپنے كشفي مشاهده كي تعبير
خود يه كرتے تھے كه نصرانيت اور تجدد آزادي كے آثارايسا معلوم هوتا هے كه
دار العلوم ميں نماياں هوں گے ٬٬﴿حاشيه سوانح قاسمي،ج:٢،ص:73﴾
موصوف نے اپني كشفي قوت سے جس جانب اشاره كيا هے ، ايك عالم نے زمين پر
اپنے سر كي آنكھوں سے ديكھ ليا ، اب اس كے بعد بھي اگر دار العلوم ديوبند
اور علماے ديوبند كو انقلاب 1857ئ كے مجاهدين ميں شمار كيا جاتا هے تو ان
كي ديده دليري اور دن كے اجالے ميں سورج كو جھٹلانے جيسي حركت هے۔
3092 مارچ 2008ئ كو دار العلوم ديوبند ميں اس حوالے سے سمينار منعقد كرنے
كا اعلان كيا گيا هے ۔ ترجمان دار العلوم دهلي،اكتوبر، نومبر، دسمبر كا
مشتركه شماره اس وقت ميرے پيشِ نظر هے۔ مدير نے اداريے ميں جو رخ اختيار
كيا هے اس سے اندازه هوتا هے كه موصوف كو 1857ئ كے حوالے سے حقائق سامنے
آنے كا بڑا قلق هے۔ شايد انھيںحقائق پر پرده ڈالنے كے ليے دار العلوم
ديوبند ميں سمينار كا منصوبه بھي سامنے آيا هے، اور اسي قلق كے نتيجے ميں
ابناے قديم كے كارگزار صدر مولانا عميد الزماں قاسمي كيرانوي نے ايك مضمون
بھي اسي شمارے ميں تحرير كيا هے۔ موضوع هے٫٫حضرت شاه ولي الله كي انقلابي
سياسي تحريك ميں حضرت حاجي امداد الله مهاجر مكي كا حصه٬٬ قلم كار نے
انتهائي چابك دستي سے تحريك ديوبند كا رشته حضرت شاه ولي الله سے جوڑا هے
مگر تحرير كے بين السطور سے اندازه هوتا هے كه قلم كار كو بھي اپني بے
اطميناني كا اعتراف هے ، قلم كار نے موضوع پر تو هلكي سي گفتگو كي هے اور
سارا زور 1857ئ ميں علماے ديوبند كي قربانيوں پر صرف كيا هے ۔ اس مضمون پر
گفتگو كرنے سے قبل ميں يه بتا دينا ضروري سمجھتا هوں كه تحريك ديوبنديت كے
باني مولانا قاسم نانوتوي اور مولانا رشيد احمد گنگوهي تھے نه كه شاه ولي
الله محدث دهلوي۔ ديوبندي مكتبِ فكر كے مشهور عالم مولانا انظر شاه كشميري
لكھتے هيں:
٫٫اكابر ديوبند جن كي ابتدا ميرے خيال ميں سيدنا الامام مولانا محمد قاسم
صاحب رحمۃ الله عليه اور فقيه اكبر مولانا رشيد احمد گنگوهي سے هے ۔
ديوبنديت كي ابتدا حضرت شاه ولي الله رحمۃ الله عليه سے كرنے كے بجاے
مذكوره بالا دو عظيم انسانوں سے كرتا هوں ۔٬٬ ﴿ماه نامه
البلاغ،كراچي،مارچ1969ئ،ص:48﴾
اور يهي نهيں كه تحريكِ ديوبند يت كے باني اكابر ديوبند تھے بلكه دينِ
ديوبنديت كے موجد و باني بھي اكابر ديوبند تھے۔ شيخ زكريا سهارن پوري نے
ايك مجلس ميں اس كا اعتراف كرتے هوئے لكھا هے:
٫٫همارے اكابر حضرت گنگوهي و حضرت تھانوي نے جو دين قائم كيا تھا ، اس كو
مضبوطي سے تھام لو، اب رشيد و قاسم پيدا هونے سے رهے، بس ان كي اتباع ميں
لگ جاو ۔٬٬﴿صحبتے با اوليا، مرتبه تقي الدين ندوي مظاهري،ص:126﴾
مولانا عميد الزماں كيرانوي موضوع كے حوالے سے اپنے مضمون ميں لكھتے هيں:
٫٫اگرچه حاجي صاحب كا نام ان مجاهدين ميں آتا هے جو 1857ئ كي جنگِ آزادي
كے بعد نماياں هوئے، تاهم حقيقت يه هے كه تحريكِ آزادي يا تحريكِ جهاد كو
كسي مرحلے تك پهنچانے اور اس كے ليے مناسب فضا هم وار كرنے ميں حاجي صاحب
كا اهم حصه تھا۔ اپني طبيعت ميں وه حضرت سيد احمد شهيد بريلوي كے هم رنگ
اور هم مشرب تھے، آپ كے دادا پير حضرت حاجي عبد الرحيم صاحب شهيد ولايتي
سيد صاحب كي تحريك ِ جهاد ميں شريك تھے۔٬٬ ﴿مجله ترجمان دار العلوم دهلي،
اكتوبر، نومبر دسمبر 2007ئ ،ص:18﴾
آنكھوں ميں دھول جھونكنے كي مثال آپ نے سني هوگي۔ اگر اس كي تازه مثال
ديكھني هو تو مندرجه بالا عبارت پڑھ ليجيے۔ كتني ڈھٹائي كے ساتھ حاجي امداد
الله مهاجر مكي كے عقيده و مسلك كا رشته بر صغير ميں وهابيت كے باني مولوي
اسماعيل دهلوي سے جوڑا جارها هے۔ حالانكه حاجي امداد الله مهاجر مكي كے
نظريات و معمولات اسماعيل دهلوي سے قطعاً مختلف بلكه متصادم تھے۔ مولوي
اسماعيل دهلوي نے جن چيزوں كو حرام و شرك لكھا هے، حاجي صاحب نه صرف يه كه
ان پر كاربند تھے بلكه ان كے مبلغ و ترجمان تھے۔ بلكه امكانِ كذبِ باريِ
تعاليٰ كے امتناع ،ميلاد و فاتحه، علمِ غيبِ مصطفي كے اثبات اور رسول الله
كو اپنے جيسا بشر كهنے كي مخالفت ميں ان كے عقائد وهي تھے جن كي ترجماني
امام احمد رضا قدس سره اور ديگرجمهور علماے اهلِ سنت كي تھي۔ |