کھانا کتنی مقدارکھائیں؟

شریعت ایک جامع و کامل دستور ہے جس میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق ہدایات و تعلیمات ملتی ہیں ۔ کسی بھی شعبہ زندگی میں تشنہ نہیں رکھا گیا ۔ انسان کو اپنی جان بچانے اور نماز و روزہ دیگر عبادتوں کو انجام دینے اور اپنی طاقت وقوت برقرار رکھنے کے لئے جتنی مقدار درکار ہے اس قدر کھانا فرض ہے اور کھانے والا اجر و ثواب کا بھی مستحق ہوگا ۔ اور زیادہ قوت کے لئے سیر ہوکر کھانا مباح ہے ۔ صحت کو قائم رکھنے اور بیماریوں سے حفاظت و نیز نظام ہضم کی درستگی کے پیش نظر شریعت نے پیٹ کے تین حصہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ایک حصہ کھانے کے لئے ‘ دوسرا حصہ پانی کے لئے اور تیسرا سانس کے لئے جیسا کہ سنن ترمذی میں حدیث شریف ہے ۔ عن مقدام بن معد یکرب قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ماملا آدمی و عاء اشرامن بطن بحسب بن آدم اکلات یقمن صلبہ فان کان لامحالۃ فثلث لطعامہ وثلث لشرابہ وثلث لنفسہ (ترمذی ج ۲،ابواب الزھد ص ۶۳)

ضرورت سے زائد مقدار میں کھانا کہ جس سے معدہ خراب ہونے کا اندیشہ ہو ممنوع ومکروہ قرار دیا گیا ہے ۔ اگر زائد تناول کرنے سے یہ مقصود ہو کہ دوسرے دن روزہ رکھنے کے لئے تقویت حاصل ہو یا مہمان کا ساتھ دینے کے لئے زیادہ کھالے تو اس میں کوئی حر ج نہیں ہے ۔ درمختار ۔ کتاب الخطر والاباحۃ جلد ۵ص۲۳۸میں ہے : (الاکل ) للغذاء والشراب للعطش ۔ ۔ ۔ (فرض ) یثاب علیہ بحکم الحدیث ولکن (مقدار مایرفع ) الا نسان (الھلاک عن نفسہ ) وماجور علیہ او ) ھو مقدار ما (یتکمن بہ من الصلوٰۃ قائما و من (صومہ ) مفادہ جواز تقلیل الاکل بحیث یضعف عن الفرض لکنہ لم یجز کما فی الملتقی (ومباح الی الشبع لتزید قوتہ و حرام ) عبرفی الخانیۃ بیکرہ (وھو ما فوقہ ) ای الشیع وھو اکل طعام غلب علی ظنہ انہ افسد معدتہ ۔ ۔ ۔ (الا ان یقصد قوۃ صوم الغداولئلا یستحی ضیفہ ) ۔ ۔ ۔ ردالمحتار میں ہے (قولہ واتخاذ الاطعمۃ سرف ) الا اذا قصد قوۃ الطاعۃ او دعوۃ الاضیاف قوما بعدقوم فھستا۔

زجاجۃ المصابیح ج ۴‘ ص ۱۵۰،۱۵۱ میں حدیث پاک ہے وعن ابن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع رجلا یتجشا فقال اقصر من جشائک فان اطول الناس جوعا یوم القیامۃ اطولھم شبعا رواہ البغوی فی شرح السنۃ وروی الترمذی نحوہ ۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کو ڈکار لیتے ہوئے سنا تو فرمایا۔ اپنی ڈکار کو روک لے کیو ںکہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ بھوکا وہ شخص رہے گا جو زیادہ پیٹ بھرنے والا تھا ۔ ان احکام کو پیش نظر رکھ کر آدمی کو کھانا تناول کرنا چاہئے کسی کے اصرار یا تقاضہ پر شرعی احکام میں بے توجہی نہ ہونے پائے ۔ میزبان کو بھی چاہئے کہ حددرجہ کسی کو مجبور نہ کرے ۔

سیدنا مقداد بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ انہو ںنے کہا میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے ۔ کسی انسان نے پیٹ سے زیادہ برا کوئی برتن نہیں بھرا ۔ آدمی کے لئے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹ کو سیدھی رکھیں ۔ اگر واقعتہ ً کھانا ضروری ہی ہو تو ایک تہائی کھانے کے لئے ہو ایک تہائی پانی کے لئے اور ایک تہائی سانس کے لئے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382673 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.