حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:۔ “تم میں سے جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو
اس سے زیادہ مالدار اور اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو (اور اس کو دیکھ
کر اپنی حالت پر رنج و حسرت ہو تو اللہ کا شکر ادا کرنے میں سستی و کوتاہی
واقع ہوتی ہو اور اس آدمی سے رشک و حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہوں) تو اس کو
چاہئیے کہ وہ اس آدمی پر نظر ڈالے جو اس سے کمتر درجہ کا ہے (تاکہ اس کو
دیکھ کر اپنی حالت پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرے اور نعمت عطا کرنے والے
پروردگار سے خوش ہو۔“) (بخاری و مسلم شریف)
فائدہ :۔
معاشرہ کے افراد کو دنیاوی مال و متاع اور جاہ و حشمت کے باعث آپس میں بغض
وحسد، رشک و حسرت اور بددلی و مایوسی سے بچانے کے لئے رسول اللہ نے بڑا
نفسیاتی طریقہ تجویز فرمایا ہے، یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو
اپنے سے زیادہ مالدار اور اپنے سے زیادہ اچھی حیثیت و حالت میں دیکھتا ہے
تو یا اس کے اندر اس طرح کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو اس کو بددل و مایوس،
رنج و خوردہ و حسرت زدہ اور تقدیر الٰہی کا شاکی بنا دیتے ہیں یا پھر اس کے
اندر حسد و جلن اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مادہ پیدا کر دیتے ہیں جس کی
وجہ سے وہ جائز و ناجائز ہر طرح سے اپنے آپ کو اوپر لے جانے کی کوشش کرتا
ہے اور اس طرح معاشرہ میں عجیب قسم کی دکھاوے کی لڑائی اور نقصان دہ سماجی
و معاشی دوڑشروع ہو جاتی ہے، چنانچہ رسول اللہ نے اس صورت حال سے بچنے
کیلئے مذکوہ بالا ہدایت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی ایسے
آدمی کو دیکھے کہ جو اس سے زیادہ مالدار ہو اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا
ہو اس سے زیادہ رتبہ رکھتا ہو اور اس سے زیادہ اچھے لباس اور زیادہ اچھے
مکان میں رہتا ہو، ساتھ ہی وہ آدمی اس حقیقت سے بے خبر ہو کہ آدمی کو حاصل
شدہ یہ تمام دنیاوی خوبہاں دراصل آخرت کے اعتبار سے اس کے حق میں وبال کا
درجہ رکھتی ہیں کہ وہ انھیں چیزوں کی وجہ سے اگر ان کا استعمال جائز نہیں
کرے گا تو آخرت میں اس کا جواب دہ ہوگا اور عذاب کا مستحق ٹھہرے گا تو اس
شخص کو چاہئیے کہ وہ اس آدمی کی طرف نظر کرے جو مال و متاع، شکل و صورت اور
دنیاوی حیثیت و عزت کے اعتبار سے اس سے کمتر درجہ کا ہے لیکن اپنے عقیدہ و
خیال اور گفتار و کردار کے اعتبار سے آخرت میں درجہ عالی کا مستحق ہے، اس
حدیث کے الفاظوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشرہ میں اکثریت ایسے افراد
کی ہوتی ہے جو اقتصادی و سماجی طور پر اعتدال کی حالت میں ہوتے ہیں یعنی کہ
نہ تو زیادہ اونچے درجہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ بہت نیچے درجہ سے تعلق
رکھتے ہیں (عام طور پر جن لوگوں کو درمیانہ طبقہ کہا جاتا ہے) یہ اور بات
ہے کہ وہ حالت اعتدال یکساں نوعیت نہ رکھتی ہو بلکہ ایسا ہو کہ کوئی شخص
کسی کی نسبت معتدل حالت رکھتا ہو اور کوئی شخص کسی کی نسبت، لٰہذا جس شخص
نے اپنے سے برتر کی طرف دیکھ کر اپنے سے کمتر کی طرف نظر ڈالی تو وہ یقیناً
اچھی حالت کا حامل ہوگا۔
ایک اور حدیث میں رسول اللہ کا فرمان ہے تم اس شخص کو دیکھو جو مرتبہ میں
تم سے کمتر ہے اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو مرتبہ میں تم سے بڑا ہے، پس ایسا
کرنا تمہارے لئے نہایت مناسب ہے تاکہ تم اس نعمت کو جو اللہ تعالٰی نے
تمہیں دی ہے۔ حقیر نہ جانو۔ (بحوالہ مسلم شریف)
یہ حدیث در حقیقت ہمارے موجودہ معاشی اور ذہنی مسائل کا کامل حل ہے اس لئے
کہ اس حدیث پر عمل کرنے سے انسان میں صبر و شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جب وہ
اپنے سے برتر انسان کو دیکھے گا تو وہ صبر کرے گا اور اپنے سے کمتر انسان
کو دیکھ کر اس میں شکر کا مادہ پیدا ہوگا اور اس طرح ان تمام خیالات اور
وہموں سے بچے گا جو بالآخر ڈپریشن اور ٹینشن کا سبب بن جاتے ہیں۔ |