خوف ایک ایسی آفت ہے جب کسی شخص،
ادارے یاقوم کو گھیر لے تو وہ وہ گل کھلتے ہیں کہ ان کی مہک دماغ کے بخیے
ادھیڑ کے رکھ دیتی ہے۔خوف طاری ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ اس کے بیرونی
اسباب بھی موجود ہوں بعض اوقات اندر کا خوف بھی انسان کو مار ڈالتا
ہے۔بیرونی عوامل کے رد عمل کے طور پہ طاری ہونے والا خوف تو ان عوامل کے
ہوا ہونے کے بعد زائل ہو ہی جاتا ہے لیکن اندر سے اٹھنے والی خوف کی لہر
اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اس لئے وہ کبھی نہ کبھی اپنے منطقی انجام کو
پہنچ کے ہی جان چھوڑتی ہے۔ وطن عزیز میں بھی آج کل خوف کا موسم طاری ہے۔اس
میں کچھ تو بیرونی عوامل کا خوف ہے اور کچھ اپنے کیے کا۔کل کا بویا آج پک
کے تیار ہے لیکن کاشتکار ہیں کہ اب ان کے ہاتھ اس فصل کو کاٹنے سے اس لئے
ڈرتے ہیں کہ اس سے ان کے اپنے ہاتھ ہی جلنے کا خطرہ ہے۔
منصور اعجاز کے میمو ہی کا معاملہ لے لیجیئے۔منصور اعجاز کس قماش کا انسان
ہے۔اس شخص کی دریدہ دہنی کی تصدیق لئے اس سے ملنا اور اس کے خیالات جاننا
ضروری نہیں اس کے لئے اس کے ایک آدھ آرٹیکل کو پڑھنا ہی کافی ہے۔میمو
بھیجنے کے لئے ایسے شخص کا انتخاب جو خود کو کھلم کھلا امریکی مفادات کا
نگران قرار دیتا ہے۔جو آئی ایس آئی کو تمام برائیوں کی جڑ اور پاکستانی فوج
کو بد معاش آرمی قرار دیتا ہے، بظاہر ایک معمہ نظر آتا ہے لیکن جو صاحبان"
ایک زرداری سب پہ بھاری "کی نفسیات سے واقف ہیں ان کے لئے یہ کسی اچنبھے کی
بات نہیں۔زرداری صاحب کو بلاشبہ سازشیوں کا بادشاہ کہا جا سکتا ہے۔انہوں نے
پاکستان کے اندر موجود فرسودہ سیاست دانوں کو جس طرح ٹکے ٹوکری کیا ہے وہ
اپنی مثال آپ ہے۔ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہاءہے کہ اس کے بعد بھی سر عام
ذلیل ورسوا ہونے والے یہ مہاشے لاکھوں کے مجمعے کو خطاب کرتے ہیں اور اس
لاکھوں کے مجمعے پہ بھی تف ہے جو ان کو جوتے مارنے کی بجائے ان کی
باتیںسنتا ہے۔ق لیگ، نون لیگ ،جیم میم سین غرضیکہ ہر قسم کی لیگ کا اس
اکیلے شخص نے کچرہ بنا کے رکھ دیا ہے۔متحدہ کو تو اس نے اتنا گندا کیا ہے
کہ اب کچھ ہی دنوں میں ذوالفقار مرزاکے ہاتھوں الطاف حسین بھی برطانوی
جیلوں میں باس مارنے لگے گا۔چند دن پہلے تک وہ متحدہ جو ہر دوسرے روز گرم
ہوا چلنے کی بناء پہ بھی زرداری کے سر پہ چڑھ کے ناچا کرتی تھی سمجھ گئی ہے
کہ اب اس کی اس طرح کی کوئی بھی حرکت ان دو بندوں کو سکاٹ لینڈ یارڈ کے
حوالے کرنے کا سبب بن سکتی ہے جو عمران فاروق کے قتل کے الزام میں کراچی
میں ماخوذ ہیں۔اب چند ہی دنوں میں آپ سن لیں گے کہ الطاف حسین نے خرابی صحت
کی بناءپہ متحدہ کی مزید ذمہ داریاں سنبھالنے سے انکار کر دیا ہے۔
زرداری صاحب نے سوچا ہوگا کہ منصور اعجاز تو ویسے ہی سی آئی اے کا ایجنٹ
ہے۔اگر اس کے ذریعے امریکی حکومت کے ہاتھ اقتدار کے بدلے اپنا ملک بیچ دیا
جائے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور آرمی اور اس کی قیادت کا کانٹا بھی
نکل جائے گا۔اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا۔یہ چال چلتے وقت زرداری
صاحب کا خیال تھا کہ جس طرح انہوں نے ملکی سیاست دانوں کو ان کی اوقات
دکھائی ہے اسی طرح وہ امریکہ کو بھی اپنے دام میں لا کے اپنی ہی فوج اور
اپنے ہی ادارے کا مکو ٹھپنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔انہیں اندازہ تو ہونا
چاہئے تھا کہ اونٹوں والے اپنے دروازے زرداری جیسے لوگوں کی سوچ سے بھی
بلند رکھتے ہیں۔اگلے ہی ہفتے آرمی چیف زرداری صاحب سے مل کے گلہ کر رہے تھے
کہ ہم تو آپ کی نمازیں پڑھے جا رہے ہیں اور آپ ہمارے مصلے اڑانے کی کوشش
میں مصروف ہیں۔زرداری صاحب صاف مکرے ہوں گے ۔انہوں نے ثبوت مانگے ہوں گے۔
چیف نے ثبوتوں کا وعدہ کیا ہوگا۔زرداری صاحب نے سوچا ہو گا کہ آئی ایس آئی
تو اسامہ بن لادن کی موت کے مسئلے پہ اتنی زچ ہو چکی ہے کہ اب اسے یہ ثبوت
کون دے گا۔
اب یہ وہی ثبوت ہیں جو زرداری صاحب کی میز پہ ہیں۔ جن کے دفاع میں اب
پاکستان کے امریکہ میں سفیر محترم ٹی وی انٹرویوز میں باقاعدہ روہانسے ہو
ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں بنتا تو یہ تھا کہ زرداری صاحب کو جو" کوئے یار
سے نکلے تو سوئے دار چلے" کا نشان بنا دیا جاتا لیکن فی زمانہ فوج کی اپنی
بھی کچھ مجبوریاں ہیں۔کیانی صاحب کو کسی زمانے میں واقعی جمہوریت اور پیپلز
پارٹی سے محبت تھی لیکن ان لوگوں کی پے در پے چالبازیوں کے بعد وہ بھی اس
سارے نظام سے اتنے ہی متنفرہو چکے ہوں گے جتنا کہ ایک عام آدمی۔ان کی اپنی
مجبوریاں نہ ہوتیں تو کب کا زرداری صاحب کا "کوئیک مارچ "ہو چکا ہوتا۔چشم
فلک نے کبھی ایسا کوئی سپریم کمانڈر دیکھا ہوگا جو کہ اپنی ہی فوج اور اپنے
ہی اداروں کی سودا بازی میں لگا ہو۔جو اپنے اقتدار کے بدلے اپنے ہی ملک کے
اقتدار اعلیٰ ،اس کی سلامتی اور خود مختاری کی بولی لگوا رہا ہو۔جو دنیا
میں جانی مانی اپنی ہی خفیہ ایجنسی پہ بین الاقوامی پابندیاں لگوانے کی بات
کر رہا ہو۔اس بات میں ذرا برابر بھی شبہ نہیں کہ منصور اعجاز نہ تو محب وطن
ہے نہ لائق بھروسہ لیکن اس کا انتخاب ہی اس لئے کیا گیا کہ وقت آنے ،پکڑے
جانے پہ اسے قربانی کا بکرا بنا کے اپنی جان چھڑا لی جائے۔خیال تھا کہ
منصور اعجاز کے تعلقات پاکستان کے قومی اداروں سے اس قدر خراب ہیں کہ کم از
کم اس کے ہاتھوں تو افشائے راز کا کوئی ڈر نہیں۔رہ گئے امریکن تو وہ تو اس
طرح کی پیشکش سن کے ویسے ہی دیوانے ہو جائیں گے۔وائے افسوس سب کچھ الٹ ہو
گیا۔محلے کے کن کٹوں کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ محلے کی تلنگا بازی کے
اپنے اور بین الاقوامی بد معاشی کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔محلے میں صرف طاقت
کے زوراور چالبازیوں کے بھرتے پہ اپنی ہی حیثیت کے دوسرے بھائی لوگوں کو تو
کینڈے میں رکھا جا سکتا ہے لیکن بین الاقوامی میدانوں میں ہر گروپ اور گروہ
کو ادنیٰ سے ادنیٰ کام دینے سے پہلے اس کی ساکھ دیکھی جاتی ہے۔اب آپ خود ہی
سوچ لیں جس شخص پہ اس کے اپنے گھر والے اعتبارکرنے کو تیار نہ ہو اور اپنے
اقتدار کے جوبن کے دنوں میں اسے امریکہ میں قید رکھیں۔ اس پہ امریکہ جیسی
سپر پاور کیسے یقین کر سکتی ہے۔
اب تو مولن نے بھی سر عام میمو وصول ہونے کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔منصور
اعجاز علیحدہ گرج رہا ہے۔ایسے میں حقانی صاحب کو اپنے ابا جی، اپنے بھائی
یاد آئے جنہوں نے کبھی قوم کی خدمت کے لئے اپنی جانیں لڑانے کا عہد کیا
تھا۔اب انہیں یاد آیا کہ ان کی والدہ فوجی قبرستان میں دفن ہیں۔سفیر محترم
!سیانے کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان ہمیشہ گھاس ہی کا ہوا کرتا
ہے اور آپ کا باس تو ہاتھی بھی نہیں وہ تو زیبرا بھی نہیں ۔زیبرے کا رنگ
کروا کے بھلا کبھی کوئی زیبرا بنا ہے۔ممیانے سے آپ کی نوکری تو بچنے سے رہی
کم از کم مقتل کو جاتے ہوئے اپنے "شاندار صحافیانہ ماضی"کا ہی خیال
رکھئیے۔آپکے باس نے تو لوگوں کو لاتیں مارتے مارتے آخر کار بم کو بھی لات
مار ہی دی ہے۔اب دیکھیئے کیا گزرتی ہے زیبرے پہ شہید ہونے تک۔ |