شہزادگی کے زعم میں مبتلانسل
پرستی کی علمبردار کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی نے یوپی میں اپنی
زندگی کی اہم ترین انتخابی مہم کی شروعات کردی ہے۔اس دور ے کے آغاز کیلئے
راہل نے 14نومبر کا ہی کیوں انتخاب کیا ہے؟ کیا اس لئے کہ وہ ان کے پر
ناناپنڈت جواہر لال نہرو کا یوم پیدائش ہے؟یا اس لئے کہ اپنی شخصیت کی کشش
سے مایوس راہل کی خود اعتمادی اس قدر ضعف میں مبتلاہوچکی ہے کہ اسے مجمع
اکٹھا کرنے کیلئے اس سے بڑا سہارا اور کوئی نظر نہیں آرہاتھا ؟ ایک دوسرا
نکتہ یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ کانگریس نے 19کی بجائے 14نومبر کو ترجیح دی
جبکہ 19نومبر1917کو راہل گاندھی کی دادی اندرا گاندھی کا یوم پیدائش
ہے۔کانگریس کی موجودہ نوجوان نسل اگر دوسری کی بجائے تیسری پیڑھی کے آباؤ
اجداد کا انتخاب کرے تو اس کا ایک ہی مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسے نہرو
کی شخصیت میں پائی جانے والی مقناطیسیت اور تنازعوں کی سب سے کم گنجائش نظر
آتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزاد ہندستان کے اولین وزیر اعظم ہونے
کے ناطے نہرو کسی دیگر لیڈر سے زیادہ مقبول ہیں؟ نہیں، ایسا قطعی نہیں ہے
بلکہ جواہر لال نہرو کے ساتھ ملک کے اتنے شدید لگاؤ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے
کہ وہ ہندستانی ثقافت، تہذیب وتمدن اور اخلاقیات کے پیر سمجھے جاتے ہیں
جبکہ مسلم طبقے میں انہیں سردار پٹیل سے وابستگی کی وجہ سے مشکوک سمجھا
جاتا ہے۔حتی کہ تقسیم وطن کے بعد ہجرت کے موقع پر مسلم نسل کشی کا
ٹھیکرابھی نہرو سے ہوتے ہوئے پٹیل کے سرہی پھوٹتا ہے جبکہ دوسری نسل
میںجہاں سنجے مسلم بستیوں بالخصوص ترکمان گیٹ کے پھاٹک تیلیان کیلئے ذمہ
دار گردانے جاتے ہیں تو نس بندی میں شدت پسندی کے تناظر میں بھی انہیں مسلم
طبقے میں ترچھی نظروں سے دیکھا جاتاہے حالانکہ بعد میںسابق وزیر اعظم
راجیوگاندھی کے ہاتھ بابری مسجد کا تالا کھلنے نے رہی سہی کسر پوری کردی
تھی۔بہر کیف محاور ے کی زبان میں بات کریں تو پنڈت جی چاندی کا چمچہ منہ
میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ملک کے سینئر وکیل موتی لال نہر و کے اکلوتے فرزند
ہونے کے ناطے انہیں وہ سب کچھ میسر تھا جسے حاصل کرنے کیلئے عوام کو متعدد
پیڑھیاں کھپانی پڑتی ہیں۔کیمبرج ٹری نٹی کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد
1912میں وہ آلٰہ آباد لوٹے اور خاندانی روایت کو نبھاتے ہوئے انہوں نے
وکالت شروع کر دی۔اس وقت شاید انہیں اس کا اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ آنے
والے وقت میں کچھ ایسے واقعات پیش آنے والے ہیں جو نہ صرف انہیں ’عوامی‘
بنادیں گے بلکہ ان کے ذریعے نسلوں کی حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے
گا۔
جنرل او ڈایر نے جب 1919میں جلیان والے باغ قتل عام کو انجام دیا تو
انگریزی بولنے والے اس نوجوان کے دن پھرنے کی راہ کھل گئی۔اگلے سال ہی
انہوں نے کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں بطور مندوب حصہ لیا اور 9سال کے قلیل
عرصے میں وہ نہ صرف پارٹی کے صدر بن گئے بلکہ آج آزادی کے 65سال بعد بھی ان
کی شخصیت کو پچھاڑنے والا کوئی لیڈر پیدا نہیں ہوا۔60سال کے اس شخص میں
ایسا کیا جوہر تھاکہ کانگریس نے نہایت حساس دور میں اسے اپنا قائد منتخب
کرلیا؟ کیا صرف مہاتماگاندھی کی خصوصی نظر عنایت نے انہیں اس مقام تک پہنچا
یاتھا یا پھر پارٹی کازیادہ بڑاطبقہ انکی جانب پر امید نظروں سے دیکھ رہا
تھا؟تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ دریائے راوی کے کنارے
آباد جو غیر منقسم پنجاب یعنی آج کے ہماچل پردیش، پنجاب، پاکستان،پنجاب
ہندستان اور ہریانہ کے زیر انتظام چنڈی گڑھ کے دارالسلطنت لاہور شہر میں
1929کے دوران جو کچھ ہوا وہ قطعی معمولی نہیں قرار دیا جاسکتا۔پہلی مرتبہ
کانگریس نے یہیں سے مکمل آزادی یا خود مختاری حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔یہی
دن آئندہ برسوں میں اس ملک کی تاریخ میں فیصلہ کن کردار اداکر نے والا شمار
ہوگا۔اسی رات کانگریس کے نوجوان ساتھیوں کے ہمراہ راوی کے کنارے ’پٹھان رقص‘
کرکے نہرو نے بہت سوں کو چونکنے پر مجبور کردیاتھا۔یہ الگ با ت ہے کہ آزادی
کے بعدہوا کا رخ پہچانتے ہوئے کانگریس کے کسی افتتاحی پروگرام کی تکمیل
بغیر ناریل پھوڑے نہیں ہوئی۔نہرو کایہی انداز انہیں ہندوستاینوں کے قریب لے
آیا۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگی کہ اس زمانے میں مہاتما گاندھی‘ جناح اور
نیتاجی سبھاش چندر بوس کا اختلاف منظر عام پر نہیں آیا تھا۔انہوں نے اپنی
کتاب ڈسکوری میں خود اعتراف کیا ہے کہ اپنی تقریروں میں انہوں نے جو کچھ
کہا ہے اس سے کہیں زیادہ انہیں اپنی سرزمین اور لوگوں کا شعور حاصل
تھا۔یقین نہ ہوتو ان کی وصیت کا مطالعہ کرلے۔چند سطروں میں ہی انہوں نے
گنگاکے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اور جیسا لکھاہے وہ منفرد حیثیت کا حامل
ہے۔یہ رومانی اور روحانی انداز ہندستانیوں کیلئے پر کشش ہے۔راہل گاندھی کے
موجودہ دورے نے پھر سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کشش آج بھی باقی ہے جبکہ
تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے جس پارٹی کی حمایت کی اسے اقتدار نصیب ہوا
بلکہ مخالفین کو کر سی سے ہاتھ دھونا پڑا۔کانگریس کی کار گزاری یہ رہی ہے
کہ اس نے اقلیتوں کیلئے کمیشن تو متعدد بنائے ہیں لیکن سفارشات کسی کی نافذ
نہیں کیں۔ان کمیشنوں میں قومی اقلیتی کمیشن، ایس سی ایس ٹی کمیشن، سنویدھان
سمکشا آیوگ،راجندر سچر،رنگناتھ مشرا کمیشن شامل ہیں۔ |