صدر زرداری نے گذشتہ چار سال میں
اپنی سیاسی چالوں سے اپنے تمام حریفوں اور حلیفوں کو مات دے دی ہے۔ مگر اب
ان کی چالیں انتہائی محدود ہوتے ہوئے ان کے لیے سنگین مشکلات اور مسائل کا
سبب بن رہی ہیں۔ جہاں ایک طرف عالمی اور ملکی سطح پر پاکستان کے بدترین
دشمن امریکی فوج کے سابق سربراہ مائیک مولن کو فوج اور ملک کے حالات کے
حوالے سے لکھے گئے خط کی وجہ سے صدر زرداری اور ان کی جماعت کو شدید مشکلات
اور پریشانی کا سامنا ہے وہاں ملک اور پارٹی کے اندر بھی ان کے لیے
پریشانیوں اور مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ماضی قریب اور بعید میں سب کو مات دینے والے صدر زرداری اس وقت مشکل میں
پھنستے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے وہ تمام
کوششیں کررہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ بعض مقتدر قوتیں اب یقین دہانیوں کی
بجائے عملی اور حتمی اقدام چاہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اب صدر زرداری کو سندھ
سے باہر نکل کر وفاقی اور عالمی سطح پر شاید اپنے بعض ساتھیوں کی قربانی
دیناپڑے۔
یکم اور دو مئی2011ءکی درمیانی شب ابیٹ آباد میں ملکی سا لمیت اور تحفظ پر
حملہ کرتے ہوئے امریکا نے شیخ اسامہ بن لادن کی مبینہ رہائش گاہ پر حملہ کے
بعد10مئی2011ءکو صدر زرداری کے حوالے سے پاکستانی نژاد امریکی منصور اعجاز
کے ذریعے پاکستانی سفیر حسین حقانی نے پاکستان کے بدترین مخالف اور امریکی
فوج کے سابق سربراہ مائیک مولن تک جو درخواست پہنچائی وہ انتہائی افسوسناک
اور ملکی سا لمیت پر بدترین حملہ قرار دی جارہی ہے۔
تمہید، اور چھ نکات پر مشتمل اس خط میں جس طرح کے اقدام کی درخواست اور
یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں یقینا وہ کسی محب وطن شخص کا نہیںبلکہ کسی غدار
کا ہی قدم ہوسکتا ہے۔ اگرچہ پاکستانی سفیر حسین حقانی اس بات کی مسلسل
تردید کرتے آرہے ہیں لیکن ہر جانب سے اس کی تصدیق ہورہی ہے۔ یہ بات یقینی
ہے کہ منصور اعجاز کے ذریعے خط مائیک مولن تک پہنچا۔ اب صرف یہ فیصلہ کرنا
باقی ہے کہ آیا یہ خط صدر زرداری کے کہنے پر ہی لکھا گیا تھا یا حسین حقانی
کی اپنی اختراع تھی کیونکہ اس خط میں متعدد جگہ صدر آصف علی زرداری کے نام
کو استعمال کیا گیا ہے۔ یقینا یہ صدر آصف علی زرداری کے لیے مشکل مرحلہ ہے۔
گذشتہ چند روز کے دوران منصور اعجاز اور حسین حقانی کے مابین اس خط کے
حوالے سے رابطوں اور پیغامات کا سلسلہ بھی منظر عام پر آچکا ہے ان میں سے
بعض پیغامات کی کسی حد تک حسین حقانی نے تصدیق بھی کی ہے۔
جہاں تک حسین حقانی اور منصور اعجاز کی شخصیات کا تعلق ہے گذشتہ دو دہائیوں
کے دوران دونوں شخصیات انتہائی مشکوک سرگرمیوں کی حامل رہی ہیں۔ حسین حقانی
نے اپنی سیاسی اور عملی زندگی کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ سے کیا اور اسلامی
جمہوری اتحاد(آئی جے آئی) میں میڈیا کوآرڈینیٹرکے طور پر خدمات سر انجام
دیتے رہے۔ بعض ازاں مسلم لیگ (ن )سے اپنا ناطہ جوڑا اور بدلتے حالات کو
مدنظر رکھتے ہوئے بےنظیر بھٹو کی پارٹی کی قربت اختیار کی اور بےنظیر کے
اتنا قریب ہوئے کہ انہوں نے اپنی25سالہ دیرینہ ساتھی ناہید خان کو ناراض
کرکے حسین حقانی کی اہلیہ فرح ناز اصفہانی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دےدیا۔
بےنظیر بھٹو کی موت کے بعد حسین حقانی صدر آصف علی زرداری کے قریب ہوئے اور
پھر امریکا میں سفارت کاری کی ذمہ داری اٹھائی اور بیگم کو ایوان صدر تک
رسائی دلائی، ویسے بھی پاکستانی سیاست اور حکومت کے حوالے سے امریکا میں
پاکستانی سفیر کو جو اہمیت حاصل ہے وہ دیگر ممالک کے سفیروں کو حاصل نہیں
اس لئے حسین حقانی نے بھی امریکا کی سفارت کے حصول کو ممکن بنایا۔ ان کی
امریکا میں موجودگی کے دوران ان کے بعض اقدام سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ
پاکستانی سفیر کی بجائے امریکی کارندے ہیں۔ ان کی کتاب میں متنازعہ عبارات
کی موجودگی اور پھر کیری لوگر بل کی بعض شقوں کے حوالے سے حسین حقانی پر
عائد کئے جانے والے الزامات بھی انتہائی غور طلب ہیں۔
حسین حقانی کو طالب علمی کے دور سے جاننے والے ان کی اس چاہت سے بھرپور
واقف ہیں کہ وہ بہت مختصر وقت میں بہت زیادہ دولت، شہرت اوربڑے منصب کے
حصول کے لیے ہر اقدام کے لیے تیاررہتے ہیں۔جامعہ کراچی کے ماضی کے اس
بہترین مقرر نے اپنی زباں دانی کے سحرمیں بہت سوں کو پھنسادیا، شاید یہی
وجہ ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران انہوں نے مختلف نظریاتی حدود کو
پھاندتے بلکہ روندتے ہوئے اپنے سفر کو برق رفتاری کے ساتھ جاری وساری رکھا
اور آج وہ امریکا میں بیٹھ کر پاکستان کی سلامتی فیصلے کر رہے ہیں۔مگر اب
ان کی بے بسی قابل دید اور عبرت ناک ہے اگرچہ انہیں اب پاکستان میں اپنے
ماں باپ کی قبروں کی موجودگی،والد کی فوجی ملازمت اور والدہ کا فوجی خاندان
سے تعلق بھی یاد آرہاہے، اے کاش حسین حقانی ماضی میں اس کی ہی لاج رکھتے!
تاہم اصل سوال یہ ہے کہ آیا یہ اقدام ان کا اپناہی ہے کہ یا کسی کے کہنے پر
کیا؟۔
منصور اعجاز قادیانی کہنے کی حد تک تو پاکستانی نژاد ہیں لیکن گزشتہ دو
دہائیوں کے دوران یہ شخصیت پاکستان کے حوالے سے انتہائی متنازع اور بدنام
رہی ہے۔ منصور اعجاز کے دو دہائیوں کے اقدام پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا
ہے کہ یہ پاکستان کا بدترین دشمن ہے۔ویسے بھی منصور اعجاز1973ءکے آئین میں
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئے جانے کے پاکستان،یہاں کے مسلمانوں
،ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلزپارٹی سے دشمنی کی حد تک نفرت کرتا ہے ،جس کا
کچھ اظہار انہوں نے حسین حقانی سے مبینہ پیغامات کے تبادلے میں بھی کیا ہے
اور واضح کردیا ہے کہ 1996ءمیں بےنظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے میں ان کا
کردار بھی ہے جبکہ کچھ مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ منصور اعجاز اسرائیل
اور بھارت کےلئے کام کرتا ہے اس حوالے سے 2000ءمیں مقبوضہ کشمیر کے
دارالحکومت سری نگر میں ان کی آمد کی اطلاعات اور بعض سرگرمیاں بھی میڈیا
میں آئی ہیں۔
مجموعی طور پر دونوں اشخاص پر نظر دوڑائی جائے تو ان دونوں کا مقصد سستی
اورفوری شہرت، دولت کا حصول اور بااثر شخصیات تک رسائی ہے۔ منصور اعجاز سے
اس لئے شکوہ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس دھرتی کو پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں،
لیکن حسین حقانی تو پاکستانی کے سفیر اور 18کروڑ عوام کے نمائندہ بن کر گئے
تھے۔ حسین حقانی نے یقیناً اس ملک اور ملت سے غداری کی ہے اور اس غداری کی
کڑی سے کڑی سزا ان کو ملنی چاہئے، لیکن اس سزا کا دائرہ ایک حسین حقانی تک
نہیں بلکہ ہر اس شخص تک بڑھنا چاہئے جس نے اس خط کے اجرائ، تیاری اور
مشاورت میں حصہ لیا ہو۔ چاہے وہ شخصیت اعلیٰ یا کسی ادنیٰ عہدے پر فائز ہو۔
منصور اعجاز قادیانی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ خط کے مصنف اور معمارحسین حقانی
ہی ہیں میں تو صرف ایک ٹائپسٹ اور پیغام رساں تھا۔
پاکستانی سفیر کی وطن طلبی اور باز پرس یقینا اچھا اقدام ہے لیکن اس عمل کو
باز پرس تک ہی محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس حوالے سے تمام مجرموں کو
بھرپور سزا دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مبینہ خط میں جن اقدام کی درخواست
کی گئی اور یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ ایسا تو سیاسی، جماعتیں اپنے ملک
کے اندر صوبے اوروفاقی حکومت یا شخصیات سے بھی نہیں کرتیں۔ وہ اس عمل کو
بھی اپنے خطے سے غداری کے مترادف سمجھتی ہیں۔ خط کے نکات پڑھنے کے بعد ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست نہیں بلکہ امریکا
کی کسی کالونی سے بدتر حیثیت کا حامل حصہ ہے۔ اس خط میں ہمارے ایٹمی اثاثوں
کے حوالے سے بھی امریکا کو یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر نہ
صرف خط کے نکات بلکہ خط کا پورا متن اب میڈیا میں آچکا ہے اور اس کو پڑھنے
کے بعد ہر شخص ملک کی سلامتی اور موجودہ حکمرانوں کے اقدام کے حوالے سے
کافی متفکر ہے۔ اس لئے ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں بڑی تیزی دکھائی دے رہی
ہے اور پاکستانی عوام کی اکثریت کی بھی خواہش ہے کہ اب اس خط کے حوالے سے
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہئے۔
صدر آصف علی زرداری نے سندھ کی حد تک اتحادیوں کے مطالبے پر اپنے نصف درجن
دوستوں کی ظاہری قربانیاں دیکردرجنوں دوستوں کی ناراضگیاں مول لی ہیں۔ لیکن
لگتا ہے کہ اب یہ قربانیاں اور ناراضگیاں ان کے لیے مشکلات اور مسائل کا
سبب بن رہی ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر صدر زرداری نے امریکا کے لیے اپنے
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی قربانی دی۔ وہی شاہ محمود قریشی اب
پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب اور سندھ میں مشکل اور مستقبل میں چیلنج بنتے
جارہے ہیں۔ نوبت اس حد تک آگئی ہے کہ بعض قریبی ذرائع کا دعوی ہے کہ شاہ
محمود قریشی ،صدر زرداری کے بعض مخالفین کوبھٹو ازم کے نام پر متحدکرنے کی
بھی کوشش کررہے ہیں۔ اس حوالے سے غنویٰ بھٹو، ان کے دو بچے، ذوالفقار بھٹو
جونیئر، فاطمہ بھٹو اور پی پی کے بانی سربراہ اور ذوالفقار علی بھٹو کے چچا
زاد بھائی ممتاز علی بھٹو کے علاوہ ناہید خان، صفدر عباسی اور پی پی کے
دیگر ناراض رہنماﺅں کی سرگرمیوں کو انتہائی اہمیت دی جارہی ہے۔ صدر آصف علی
زرداری کے دیرینہ دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور صدر آصف علی زرداری کی
حمایت کی وجہ سے وزارت اور رکنیت کا حصول ممکن بنانے والے شرجیل انعام میمن
کی وزارتوں سے علیحدگی، صادق میمن کی محکمے سے محرومی اور رکن سندھ اسمبلی
امداد علی پتافی کی پی پی کی بنیادی رکنیت سے معطلی بھی پی پی کے اندر نزاع
پیدا کررہی ہے۔ جمعہ کو سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اتحادی جماعت نے
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے خلاف ایوان میں مذمتی قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی،
لیکن پی پی کے بعض ارکان کی شدید مخالفت کی وجہ سے اس مذمتی قرارداد سے
ذوالفقار مرزا کا نام نکالنا پڑا اور اس موقع پر رکن سندھ اسمبلی عائشہ
کھوسو نے واضح کردیا کہ وہ نہ صرف ذوالفقار مرزا کے اقدام کی حامی ہے بلکہ
ہر طرح کی کاروائی کا سامنا کرنےکے لیے تیار ہے اور ذوالفقار مرزا کے خلاف
ایوان کے اندر کوئی آواز اٹھی تو صرف میں ہی نہیں بلکہ دیگر ارکان بھی اس
کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
صدر زرداری اس وقت ہر طرف سے مشکل میں دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلے یہ بات
پیپلز پارٹی کے اندر اور نجی محفلوں کی حد تک تھی جو اب میڈیا کی زینت بن
چکی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ صدر زرداری کے خلاف گھیرا دن بدن تنگ ہورہا ہے
جس میں ان کا اپنا کچھ کردار بھی نظر آتا ہے۔ اگر وہ ماضی میں تمام سیاسی
قیادت اور پارٹی رہنماﺅں کو اپنی چالوں کی بنیاد پر کنارے نہ لگاتے اور قوم
میں اپنے اعتماد کو بحال رکھتے تو شاید آج انہیں مشکل کا سامنا نہیں کرنا
پڑتا۔ دیگر سیاسی قائدین کے علاوہ ان کی اپنی جماعت کے رہنما بھی کلی طور
پر ان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لگتا یہی ہے کہ اب صدر زرداری کو
کوئی بڑا اہم فیصلہ کرنا پڑے گا یا پھر 1993ءمیں نواز شریف اور غلام اسحاق
خان والی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ اگرچہ صدر زرداری کی ساری کوشش اور توجہ
مارچ 2012ءکے سینیٹ کے انتخابات پرہے جس کے بعد ان کی اپنی خواہش ہے کہ ملک
میں عام انتخابات قبل از وقت کروائے جائیں.... لیکن حالیہ سرگرمیوں سے ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ شاید ایسا ممکن نہ ہو لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ
حسین حقانی کی وطن واپسی کے بعد صدر زرداری کیا قدم اٹھاتے ہیں اور مائیک
مولن کے نام لکھے گئے خط کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اس خط کے اثرات پاکستان کے
بین الاقوامی معاملات اور ملکی سیاست پر بھی انتہائی گہرے دکھائی دے رہے
ہیں۔ |